ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے تناسب نے جہاں اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے وہاں ہی معاشرے میں عدم استحکام کو بھی جنم دیا ہے اور یہ رحجان دن بدن بڑھ رہا ہے اور عوام← مزید پڑھیے
زندگی کے خشک صحراؤں کے جلتے ہوئے ریت پر سب کو ہی چلنا پڑتا ہے کوئی چاہے یا نا چاہے کسی کے اختیار سے کوسوں دور کی یہ بات ہے اُس کے ماتھے کی لکیروں اور ہاتھ کی ریکھاوں← مزید پڑھیے
“کہاں تھے تم کل سے تم کو بول رکھا تھا آج کے میلے میں جانے کو کیا کرتب تھے اس پہلوان کے” ایسا کیا دیکھا تم نے جو اتنی تعریفیں کر رہے ہو؟ “تم کیا جانو وہاں عقل کو مات← مزید پڑھیے
وہ جب بھی اُس بوسیدہ سے مکان سے نکلنے کا سوچتی تو اُس کے سامنے وہ لا تعداد کالی، سرخ اور کچھ سستی شراب کے خمار میں ڈوبی غلیظ آنکھیں اُس کا تعاقب کرتی رہتی لیکن وہ اب اِس سب← مزید پڑھیے
گندے بدبودار گہرے مٹیالے گٹر کا پانی رواں دواں تھا ہر کوئی اپنا دامن بچاتا ہوا کبھی یہاں کبھی وہاں چھلانگیں لگاتا ہوا جارہا تھا سمجھ نہیں آتا تھا کہ شہر کے بلدیاتی نظام کو کس کی نظر لگی تھی← مزید پڑھیے
زندگی کے ساتویں سال میں داخل ہوتے ہی نوید کی بچپن کی بہاروں میں ظالم خزاں نے ڈھیرے جما لئے لیکن وہ اُس خرگوش کو دیکھتے ہوئے بہت خوشی محسوس کرتا رہا جو بنگلے کے لان میں یہاں سے وہاں← مزید پڑھیے
ہمارے ایک دوست بھی عجیب طرح کے انسان نما ٹھرکی ہیں وہ بھی درجہ اول کے ۔ نام کے مرزا ہیں کام کے اول مقام کے کاہل و ناہنجار۔ عادات کے اتنے کچے جیسے مٹی کا گھڑا اُس سے لاکھ← مزید پڑھیے