• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور ان کا تدارک ۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور ان کا تدارک ۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی/مقابلہ مضمون نویسی

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے تناسب نے جہاں اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے وہاں ہی معاشرے میں عدم استحکام کو بھی جنم دیا ہے اور یہ رحجان دن بدن بڑھ رہا ہے اور عوام و خواص اس عدم برداشت و شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں.
عدم برداشت ایک خاموش کینسر کی طرح معاشرے میں سرائیت کیے جا رہا ہے مگر عوام الناس کا بڑا حصہ اس مسئلے کو مسئلہ سمجھتا ہی نہیں…

یہ موضوع خود پر کچھ بھی لکھنے کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور اس کو ایک مضمون میں شامل کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے بہرحال میں یہاں جتنا اس پر لکھ سکتا ہوں اس کی کوشش کرتا ہوں

عدم برداشت :

عدم برداشت کسی بھی جرم کی سب سے بنیادی وجہ ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق اگر صرف برداشت کی صلاحیت کو مضبوط کر لیا جائے تو کسی بھی معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ عدم برداشت اور شدت پسندی ہیں کیا؟

یہ ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جہاں کوئی انسان ہر چیز اور ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہے اور صرف اپنے آپ کو ہی درست سمجھتا ہے۔ یہ کیفیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس مرض کے شکار انسان اپنے خلاف یا اپنے خیالات یا عقائد کے خلاف ہر آدمی کو مکمل طور پر غلط سمجھ کر اسے قتل کرنا عین عبادت سمجھتے ہیں۔

آج سے چالیس سال پہلے پاکستان ایک پر آمن ملک تھا پھر آہستہ آہستہ عدم برداشت اس حد تک پروان چڑھی کہ اب پورا ملک سولی پر لٹکا ہوا ہے۔

امن و امان مخدوش ہو چکا ہے نہ کسی کی زندگی محفوظ ہے نہ عزت اور نہ املاک، اس عدم برداشت کے کلچر نے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، لوٹ مار اور ڈاکہ زنی جیسی برائیوں کو جنم دیا ہے جو اب کسی صورت قابو میں نہیں آرہی ہیں۔
عدم برداشت ہی شدت پسندی کو جنم دیتی ہے. اور اس شدت پسندی کو عدم برداشت کی اولاد کہنا عین اس کے ساتھ انصاف ہوگا۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور مذہب اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو‎ ‎‏ تمام انسانوں سے محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے.مگر چند مذہب فروشوں نے عوام اور بین الاقوامی برادری کی نگاہ میں اسلام اور مسلمانوں کی شکل ہی تبدیل کردی ہے.

بین الاقوامی ممالک میں مسلمانوں کے کردار اور مذہب اسلام کو خراب اور مسخ شدہ کرکے پیش کیا جارہا ہے.اس سازش میں دوسرے مذہب کے لوگ تو شامل ہیں ہی مگر انکے ساتھ ہمارے چند اپنے بھی شامل ہیں جو مذہب اسلام کی ساکھ خراب کرنے میں ملوث ہیں. اور اپنی اپنی پرچھائیوں کی آڑ میں اپنے مفاد کی خاطر اپنے زیر اثر مراکز میں انتہاء پسندی و شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں.

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور انتہا پسندی پر پاکستان عوام ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی تشویش ہے.۔اور اس ناسور کو سرے سے پیدا ہی ہونے نہ دیا جائےاس کے لئے اسلام ہم کو مندرجہ ذیل احکامات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے

میانہ روی
رواداری
تحمل مزاجی
ایک دوسرے کو برداشت کرنا
معاف کر دینا اور انصاف کرنا
یہ اسلام کی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے.بدقسمتی سے ہم دین کی اصل روح سے دور ہوکر غیر ضروری چیزوں میں الجھ گئے ہیں۔جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہوتی ہے وہاں بے چینی، شدت پسندی، جارحانہ پن، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے یہ نفسانفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے ۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے، بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے جو کہ اب بڑھتے بڑھتے ایک مرض کی صورت اختیار کر چکا ہے

جب تک مرض کو مرض سمجھیں گے ہی نہیں تو اس کی تشخیص و علاج کیسے ممکن ہو گا؟۔۔جو کہ اب ہمارے معاشرے کے لئے ایک ناسور ہے۔اس بڑھتے ہوئے ناسور کے جو بنیادی طور پر وجوہات ہر کسی کے سامنے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں

وجوہات :
1: غربت
2: بیروزگاری
3: تعلیم سے دوری
4: غیر میعاری تعلیمی نظام
5: جہالت
6: دین و دنیا کا ساتھ
7: منبر و محراب کا غلط استعمال
8: بیرونی ثقافت کا اثر
9: سیاسی کلچر
10: محرومی
11: قانون کی بالا دستی کا نا ہونا
12: غیر معیاری فلمیں اور ڈرامے
13: ہمیشہ خود ہی کو درست سمجھنا
14: معاشرتی نا انصافی و زیادتی
15: تشدد
16: رنگ و نسل یا جنسی امتیاز کی بنیاد پر کسی کو کم تر سمجھنا

یہ وہ باتیں ہیں جن سے عدم برداشت کا کلچر جنم لیتا ہے اور پھر حالات کے تحت پروان چڑھ کر شدت پسندی میں بدل جاتا ہے. مندرجہ بالا نقات پر ہم کچھ مختصر روشنی ڈالیں گے تاکہ ہر ایک ذی شعور کو اس کا احساس ہو سکے

 غربت
غربت ایک ایسا ظالم شکنجہ ہے جس کی گرفت میں دبا ہوا ہر انسان اپنی بچاؤ کے لئے ہر طرف ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے شاید ہی کچھ لوگ ایسے ہوں جو اپنی قسمت کو قبول کرنے کی طاقت رکھتے ہوں لیکن جن کے برداشت سے یہ باہر ہوتا ہے اس کی ذہنی حالت اور توزن میں وہ پیمانہ برقرار نہیں رہتا جس کے دائرے میں ایک انسان اپنے اچھے اور برے کا ٹھیک انداز سے سوچ سکے اور جب بات حد سے گزر جاتی ہے تو انسان اس کے برعکس سوچتا ہے جو کہ ذہنی کیفیت میں تغیر کی بہت بڑی وجہ ہے اس کی سوچوں میں غصہ اور حرکات میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے جو کہ معاشرے میں بگڑاؤ  پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے

سدباب کے لئے اقدامات

کسی بھی ریاست کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے شھریوں کو ایک باعزت زندگی کا بندوبست کردے پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت انتہائی زیادہ ہے حکومت کو چاہئے کی وہ ایسے منصوبے بنائے جس سے ایک مجبور طبقے کو غربت سے نکالا جائے سرمایہ دارانہ نظام کو راہ راست پر لائے اور ہر ایک حقدار کو میرٹ دیکھ کر ہنگامی بنیادوں پر اس کے حق کو مل جانا یقینی بنائے
عام عوام کو بھی یہ چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد کے معاشرے کو دلی نقطہ نظر سے دیکھ کر انسانی بنیادوں پر مجبور و بےکسوں کی مدد کو اپنا دینی فریضہ سمجھیں

 بیروزگاری
اس لفظ سے صرف وہی لوگ اشنا ہیں جو خود اس دور سے یا تو گزر رہے ہیں یا پھر گزر چکے ہیں۔ ایک بیروزگار انسان کی زندگی کی مثال اس لنگڑے سی ہوتی ہے جس کے پاس بیساکھیاں تو موجود ہو لیکن اسے پکڑنے کے لئے ہاتھ نہیں۔ پاکستان میں اگر عوام کے منفی رویوں میں کوئی چیز انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہے تو وہ ہے بیروزگاری۔
کیونکہ ایک ایسا انسان جس کے گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی ہو اور وہ اپنے روزمرہ کے حرکات و سکنات میں کوئی تغیر نا آنے دے ایسا ممکن نہیں وہ کبھی بھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتا اس کے مزاج میں شدت پسندی اور عدم برداشت کا شامل ہونا ایک قدرتی عمل ہوگا وہ ہر وہ کام کر گزرنے پر آمادہ ہوگا جس میں اس کے مسائل کا حل ہو اور اس راستے میں شدت پسند بننا اس کے لئے باعث شرم نہیں بلکہ باعث نجات ہوگا جو کہ بہت آسانی سے کسی کا بھی آلہ کار بن سکتا ہے

سدباب کے لئے اقدامات

بیروزگاری کی اصل وجہ سفارش اور رشوت خوری کو اگر قرار دیا جائے تو زیادہ غلط نا ہوگا کیونکہ ہزاروں لاکھوں ایسے پاکستانی آج بھی آپ کو ہر سڑک ہر چوراہے پر مل جائیں گے جن کے پاس ڈگری تو ہوگی لیکن وہ بےروزگاری کے چنگل میں پھنسا ہوگا۔حکومتی اداروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ کوئی بھی نوکری کو بغیر قابلیت کے کسی کو نا دے اور نا ہی رشوت جیسے گناہ میں لوگوں کو حصہ دار بنائیں
اور دوسری بات یہ کہ ایسے بنیادی منصوبے بنائے جس میں عوام کو صنعت کی طرف لے جایا جائے اور ہنر مندی کا رجحان بڑھایا جائے ایسے اداروں تک رسائی سھل بنائے جہاں ایک عام پاکستانی جاکر ایک باہنر شھری بن سکے اور ان اداروں کے سربراہان کو ایسے لوگوں کے سپرد کردے جو بغیر کسی امتیاز کے لوگوں کو اپنی خدمات فراہم کرسکیں

تعلیم سے دوری
پاکستانی عوام کی یہ بہت ہی بدقسمتی ہے کہ وہ علم کے زیور سے آراستہ ہونے میں بہت حد تک ناکام ہیں چاہے شھر ہو یا قصبہ گاوں اول تو ایک لوگوں کا رجحان علم اور تعلیم کے حصول کی طرف کچھ خاص ہے نہیں دوسرا یہ کہ معیاری تعلیم کا فقدان ہے ایک نچلے طبقے کے لئے اس تعلیم کا حصول تو خواب بن گیا ہے جس کی راہ پر چل کر وہ اپنے معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کر سکے اور وہ یہ جان سکے کہ اس کی زندگی میں ہر آنے والے مشکل وقت کو وہ کس انداز سے اور کونسے طریقے سے بخوبی حال کرے جس میں اس کی زندگی کی سلامتی کا راز چھپا ہے۔ ایک غیر تعلیم یافتہ انسان کی ذہن کی پروز محدود ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک حد تک خود پر قابو پا سکتا ہے یہ سوچے بغیر کے اس کے کسی عمل کے نتائج کیا ہوں گے اور ایسے انسان میں عدم برداشت کی موجودگی کی شرح انتہائی حد تک زیادہ ہوتی ہے

سدباب کے لئے اقدامات

تعلیم سے دوری ایک بہت مشکل کام ہے اور یہ اس لئے ہے کہ جو سرکاری سکول ہیں وہ اس سسٹم کی وجہ سے اتنے بدحال ہوچکے ہیں کہ نا تو وہاں کوئی استاد ہے نا ہی کوئی عمارت اچھی حالت میں بچی ہے شھروں میں تو کچھ نا کچھ اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہے لیکن گاوں اور دیہاتوں میں صورتحال بہت ابتر ہے مہنگا تعلیم ایک عام آدمی کی بس میں ہوتا نہیں اور سرکاری سکولوں کی حالت ہی وہ نہیں کہ کوئی وہاں پڑھنے جائے اساتذہ اپنا کام نہیں کرتے حکومت کو یہ اقدامات اٹھانےہوں گے کہ ہر ایک سکول کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے وہاں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنائی جائے اور عام عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کے لئے ایک بھر پور مہم چلائے جائے کہ ہر ایک شھری کو تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق یہ مملکت دیتی ہے جو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔اور والدین کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا بچہ آج پڑھے گا تو کل اس کا سہارہ بنے گا اہک جاہل اور ان پڑھ اور تعلیم یافتہ انسان کبھی ایک جیسے زندگی نہیں گزار سکتے،تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہی اس کا اصل حل ہے۔

 غیر معیاری تعلیمی نظام
جیسے کے اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کے کیسے پاکستانی عوام کے لئے تعلیم کا حصول مشکل بنا ہوا ہے مگر اس کے ساتھ یہ موضوع بھی بہت اہم ہے جس کا نام ہے تعلیم کا معیار۔کسی بچے کو اگر باقائدہ معیاری تعلیم کا حصول ممکن نا ہو تو وہ اس علم سے کوسوں دور ہوتا ہے جو دور حاضر کی اشد ضرورت ہے۔تعلیم کے نام پر بچوں کی بچپن کے ساتھ ایک بھدا مذاق ہوتا ہے کچھ ادارے تو ایسے ہیں جو صرف سکول کے فیسوں کے لئے کھولے گئے ہیں وہاں کے اساتذہ کو اس بچے کی مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کیونکہ کوئی پوچھنے والا تو ہوتا نہیں اور نا ہی بعض والدین اپنے بچوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے وقت نکال سکتے ہیں تو اس کا اثر معاشرے پر یہ ہوتا ہے کہ بچہ نام کا تو پڑھا لکھا بن جاتا ہے لیکن اس کی علمی ذہن و فراست خام کی خام ہی رہ جاتی ہے جو پھر اپنی زندگی کے دوڑ میں بہت پیچے رہ کر آندھی تقلید کا پجاری بن جاتا ہے اور اپنی ذہنی نشو و نما سے کوئی اچھا یا برا فیصلہ لینے کے لئے اہل نہیں ہوتا یوں اس کی زندگی میں عدم برداشت کا وجود میں آنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اس کی بنیاد ہی اتنی کمزور بنی ہوتی ہے جو کبھی بھی جواب دے سکتی ہے

سدباب کے لئے اقدامات

تعلیم کا حصول اگر کسی ماحول میں آسان بھی ہو مگر اس کا معیار وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو تو بھی کوئی فائدہ نہیں پاکستان کے بعض سرکاری سکولوں میں جو اساتذہ سلیکٹ ہوتے ہیں وہ یا تو رشوت دے کر یا پھر سفارش کے ساتھ اساتذہ کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں وہ ہی قوم کے بچوں کو ایک اچھا شہری بناتے ہیں جتنا رول ایک استاد کا ہوتا ہے معاشرے میں شاید ہی کسی اور کا ہو
حکومتی طور پر ایسی کڑی نگرانی ہونی چاہئے تمام تعلیمی اداروں کی کہ کوئی بھی کسی بھی انداز سے قوم کے سرمایہ کو غلط موڑ پر نا لے جا سکیں،ایسے سربراہان ان تعلیمی اداروں پر تعینات کرنے چاہئے جو بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا فرض پورا کرے اور جانچ پڑتال پورے دیانتداری سے انجام دے،تعلیم کا معیار عین وقت کے مطابق ہو زمانہ کونسے انداز سے چل رہا ہو اسی انداز سے بچوں کو مواد فراہم کرے،اپنے ملک کی سالمیت اور ملکی مفاد و دفاع کے مضامین شامل کریں اسلامی شعار زندگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کی پوری تفصیل موجود ہو جسے بچوں کو پڑھا کر حقیقی دین کی سمجھ ان میں منتقل کریں،قران و سنت کی روشنی میں ایک معاشرے میں زندگی گزارنے کے سنہرے اصول پڑھائے جائیں

جہالت
پاکستان میں اگر کسی چیز نے اس کے عوام کو شدید نقصان پہنچایا ہے تو ہے جہالت  یوں تو جہالت کی تعریف ایسے کی جاتی ہے جس میں کسی انسان کی شخصیت کو مدنظر رکھ کر اس کی قابلیت اور علمی فہم و فراست کو جانچا جاتا ہے اور جو لوگ ان پڑھ اور لہجے کے لحاظ سے کم ہوتے ہیں ہمارے لوگ اس کو جاہل سے تشبیہ دیتے ہیں جو کہ بلکل غلط ہے۔
جہالت کسی خاص نظریہ یا عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے جس میں ہر ایک انسان شامل ہے اور اس کی شروعات ہوتی ہے عدم برداشت سے ایک پڑھا لکھا شخص بھی زندگی میں کبھی کبھی وہ کام کر جاتے ہیں جو جہالت کی انتہا تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔لیکن اس کی ایک دوسری تعریف یہ بھی ہوسکتی ہے کپ جہالت ہی وہ پھندا ہے جس میں پھنس کر انسان اپنے اشرف المخلوقات کے شرف کو بھول جاتا ہے اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے پھر اس کی سمجھ میں نہیں آتا چاہے وہ کسی کا خون ہو کسی عورت کا عزت کے ساتھ کھیلواڑ ہو یا پھر کسی معصوم کلی کو مسلنا ہو،موضوع کے لحاظ سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ جہالت ہی ہے کہ ایک معاشرے میں کوئی اپنا اچھا یا برا سوچنے کے بھی قابل نا ہو اور وہ اس لئے کہ اگر کسی معاشرے میں تعلیم جیسے زیوار کو حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے اور بچوں کو اس لئے سکول میں نا بھیجا جائے کہ “پڑھ لکھ کر کونسے جج بن جاو گے” تو پھر اس معاشرے میں جرم نا ہونا اور برداشت کے حدود کو پار نا کرنا ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔

سدباب کے لئے اقدامات

جہالت کے سدباب کے لئے اقدامات انتہائی دشور مسئلہ ہے کیونکہ اس مرض کو ختم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے بات اصل میں وہی آجاتی ہے کہ ہر کوئی اپنا راگ الاپتا رہتا ہے یوں تو جہالت کو ختم کرنے کا کوئی واضح طریقہ شاید ہی کسی کے سمجھ میں آیا ہو لیکن اس کا سدباب اگر ممکن ہے تو ہے صرف علم و شعور تعلیم ہی وہ نگینہ ہے جس کے ذریعے اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے، اور کچھ جہالت کی اقسام تو تعلیم یافتہ اشخاص میں بھی پائی جاتی ہے وہ اس طرح سے کے خواہ مخواہ کے بحث و مباحثہ میں کود پڑتے ہیں اخر میں نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے وہ ہے عدم برداشت، اس لئے اس سے بچنے کے لئے ایک معتدل مزاج رکھنا نہایت ضروری ہے۔اس لفظ میں اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے نہایت ہی تفصیل طلب ہے لیکن اتنا سمجھ جانا چاہیے کہ جہالت کا خاتمہ اگر ممکن ہے تو وہ اپنے نفس کو خود ہی راہ راست پر لانے میں ہے۔

دین و دنیا
دینی و دنیاوی تعلیم کا غیر متوازی حصول یعنی جو دینی تعلیم میں لگا ہے تو دنیاوی تعلیم کو اور دنیاوی تعلیم والے دینی تعلیم کو توجہ ہی نہیں دے رہے جبکہ دین و دنیا لازم و ملزوم ہیں

سدباب کے لئے اقدامات

دین کے ساتھ دنیا نہایت ضروری ہے اگر کوئی انسان صرف دنیاوی تعلیم کے حصول میں لگا رہے اور وہ دینی تعلیم کی طرف توجہ نا دے تو وہ اس کے انداز میں خالص دنیاوی نظریات کی یلغار ہوگی جو کے صلہ رحمی سے بلکل دور ہوگی اس لئے تمام تعلیمی اداروں میں ایسا متوازن ترتیب رکھی جائے جس میں کوئی شخص دونوں سے فائدہ اٹھا سکے اس میں نا تو صرف دنیاوی جذبات کا بول بالا ہو بلکہ دینی تعلیم و علوم کا بھی خاطر خواہ اثر ہو تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے عین رہنما اصولوں کے مطابق کر سکے،حکومتی اداروں کا اس میں خاص رول ہے کہ وہ ہر ایک تعلیمی ادارے پر نظر رکھے اور وہاں کے ماحول کو معاشرے کے محبت میں   ڈھال سکے۔

 ممبر و محراب کا غلط استعمال
کچھ مبلغین “اسلام” سے پہلے اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کے ارد گرد ہی اپنی دلچسپیاں مرتکز رکھتے ہیں جب کہ اسلام کا ذکر اس کے بعد آتا ہے۔ اپنی بنیادی وابستگی اور ذاتی فوائد کی وجہ سے وہ قرآن کی محض منتخب شدہ آیات کی ہی تبلیغ کرتے ہیں اس طرح ”امن کے مذہب” کے متعلق یہ گروہی نقطۂ نظر اسلام کی اصل روح سے دور ہو جاتا ہے اس منفی سوچ نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے یقینا اسلام کو اس قدر نقصان بیرونی قوتوں سے نہیں پہنچا جتنے زخم خود مسلمانوں نے لگائے ہیں۔

سدباب کے لئے اقدامات

اس موضوع کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر ایک مکتبہ فکر کے علماء خاص اللہ کی رضا کے لئے دین کے حقیقی صورت لوگوں کے سامنے پیش کرے.تمام معاشرے میں خلوص سے دین الہی کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کرے ان کی معاشرتی زندگی میں اسلامی شعائر کے اسباق کو داخل کیا جائے اور حکومتی اہلکاروں کی اس میں یہ کارکردگی ہونی چاہئے کہ وہ تمام ایسے علاقوں سے باخبر رہے جن میں کچھ تخریب ہونے کا خطرہ موجود ہو۔

 بیرونی ثقافت کا اثر
انسان میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بیرونی حالات سے جلد متاثر ہو جاتا ہے اور جہاں تک ثقافت کا تعلق ہے یہ بھی تعمیری اور تخریبی دونوں اثرات کی حامل ہوتی ہے تعمیری ثقافت کا یہ فائدہ ہے کہ یہ مخصوص مقاصد کو پرامن طریقے سے حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے جبکہ ثقافتِ ثانی اپنی کوشش طاقت کے بل بوتے پر منواتی ہے۔ اگر ثقافت اور شخصیت کے درمیان مثبت رشتہ ہو تو شہری امن پسند بن جاتے ہیں وگرنہ اس کے الٹ نتیجہ نکلتا ہے اس زمرے میں پاکستانی معاشرے کی مثال پیش کی جائے تو یہاں فرد اور ثقافت کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے جس سے انتہا پسندی کو تقویت ملی ہے.

سدباب کے لئے اقدامات

ثقافت کسی بھی معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے دنیا کے کسی بھی خطے میں ایک الگ روایات و ثقافت ہوتا ہے پاکستانی معاشرے میں بیرونی ثقافت کا اثر اس انداز سے زائل ہوگا کہ عوام اپنی ثقافت کو فروغ دینے میں فخر محسوس کرے اور اس کو محفوظ بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔ثقافتی اعتبار سے شدت پسندی بہت آسانی سے معاشرے میں اپنے پر پھیلاتی ہے کسی دوسرے کی ثقافت کو فالو کرنے میں اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو اس کا منفی اثر بھی ضرور اپنا نقش چھوڑتا ہے۔مثلا کسی ملک میں لوگوں کا ثقافت ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ بندوق یا کوئی اور ہتھیار ساتھ میں لے کر گھومنا فخر سمجھا جاتا ہے جو کے کسی بھی زاویہ سے قابل فخر نہیں۔

: سیاسی کلچر
پاکستان کے سیاسی کلچر میں بھی ایسے عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دینے کا موجب ہیں حالاں کہ آئینی اور قانونی طور پر تمام شہری مساوی بنیادوں پر سیاسی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے اہل تصور ہوتے ہیں مگر عملی طور پر حقیقت اسی کے برعکس ہے کئی ایسے سماجی طبقات ہیں جو کہ سیاسی حقوق سے محروم ہیں۔ بعض لوگوں اور کچھ خطوں میں یہ احساس محرومی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ لوگ طاقت کے بل بوتے پر حقوق حاصل کرنے کے لیے سامنے آگئے ہیں ۔ اب وہ اپنی جنگ لڑنے کے لیے باہر نکل چکے ہیں اس طرح ہمارا سیاسی کلچر براہِ راست محروم لوگوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرتا ہے اور قبائلی علاقہ جات اِس کی بہترین مثال ہیں۔

سدباب کے لئے اقدامات

سیاسی سرگرمیاں کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کوئی بھی جمہوری معاشرہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو یہ بھر پور موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ کسی بھی حلقے سے اپنے اپنے رہنماؤں کو ان کے مسائل کا قانونی حل کے لئے منتخب کر سکتے ہیں اس کا حل صرف یہی ہے کہ کوئی بھی علاقہ ہو وہاں کے ماشعور عوام نے ہی یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کا منتخب رکن وہاں کے مسائل کا حل ڈھونڈ سکتا ہے کہ نہیں عوام کو ہی بغیر کسی بیرونی دباو کے اپنے خیالات و جذبات کی ترجمانی کے لئے ایک نمائیندہ پیش کرنا چاہئے۔

محرومی
امیر طبقہ اور اُمرا نے کمزور لوگوں کا استحصال کیا ہے درمیانی اور غریب طبقات جو کہ امرا کے دستِ کرم پر ہوتے ہیں محرومی سے دوچار ہیں نتیجتاً یہ احساس انہیں بدلہ لینے پر اکساتا ہے۔ (معاملہ تفصیل طلب ہے)

سدباب کے لئے اقدامات

محرومی کے جذبات کو ختم کرنے کا بہترین حل یہ ہے کہ معاشرے کے بزرگ و قابل احترام لوگ اس انداز سے اپنے معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں کے وہاں کے لوگوں میں اپنے خلاف منفی جذبات پیدا نا ہونے دے،پاکستانی معاشرے میں اس مسلئہ کا حل اس انداز سے ممکن ہے کہ قانون کی بالا دستی کو حد درجے تک ممکن بنائے قانون کے شکنجے میں ہر وہ ہاتھ ہو جو کسی بھی فرد کو اپنے عتب کا شکار بنائے فوری اور شفاف انصاف کا اطلاق یقینی بنے اور امیر غریب کا فرق اس لحاظ سے ختم ہو کہ کوئی اپنی دولت کے زور پر قانون کے شکنجے سے بچ پائے

 قانون کی بالا دستی کا نا ہونا
پاکستانی معاشرے میں قانون کی بالا دستی کا نا ہونا ایک بڑی وجہ ہے شدت پسندی کو فروغ دینا کیونکہ قانون جب سب کے لئے ایک جیسا نا ہو وہ قانون کی بالا دستی قرار نہیں دی جاسکتی.
قانون بالادست تب ہوتا ہے جب وہ اپنے سامنے آنے والے کسی کو بھی نا بخشے چاہے وہ وقت کے حکمران ہی کیوں نا ہو. لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ قانون تو موجود ہے لیکن وہ دو الگ انداز سے اپنی طاقت کو استعمال کر رہا ہے ایک غریب کے لئے ایک امیر کے لئے.ایک ترسائے ہوئے انسان کو جب قانون سے کوئی مدد نہیں ملے گی تو اس کا ذہن قدرتی طور پر شدت پسندی کے طرف مبذول ہوجاتا ہے وہ وہاں کو چل دیتا ہے جہاں اس کی انا کو تسکین ملے.

سدباب کے لئے اقدامات

اس موضوع پر اوپر جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ پورا اترتی ہے لیکن پھر بھی اتنا کہنا ٹھیک ہوگا کے قانون کے نظام میں سب کے لئے برابری کے اصول ہوں کوئی کسی مجبور پر ظلم نا کر سکے معاشرے میں قانون کی بالا دستی جتنی مظبوط ہوگی اتنی ہی وہ معاشرے محفوظ ہوگا بہت سے دوسرے ملکوں میں قانون سب کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے اور وہاں یہ خوشآئیندہ بات سامنے آتی ہے کہ وہاں جرم کا پیمانہ نا ہونے کے برابر ہے

 غیر معیاری فلمیں اور ڈرامے
کسی بھی معاشرے میں میڈیا کی اہمیت بہت اہم ہوتی ہے جس کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کسی بھی سوچ کو اپنے ذہن میں جگہ دے سکتا ہے اور آج کے دور میں جو میڈیا نے ماحول برپا کر رکھا ہے اس میں زیادہ تر شر کا عنصر موجود ہے۔کسی بھی فلم کو دیکھیں تو اس میں آپ کو کوئی ٹارگٹ کلر یا پھر کوئی غنڈہ ضرور دیکھائی دے گا اس کا خاتمہ جیسے بھی ہو لیکن اس کا جو چھوٹا سا کردار ہوتا ہے وہ بھی ایک خام ذہن کا اپنی طرف مائل کرنا کی قوت رکھتا ہے
اور اسی انداز سے جو چھوٹے سکرین کے ڈراموں کا تذکرہ کیا جائے تو وہ لوگ بھی کسی سے پیچھے نہیں کیونکہ ڈراموں کو زیادہ تر گھروں میں دیکھا جاتا ہے تو اس سے متاثرہ لوگوں میں چار دیواری کے اندر ہی کی مخلوق زیادہ ہوتی ہے۔ان میں خاندانوں کی آپسی چپقلش شاطر دماغوں کی چالیں اور چوری ڈکیتی کی وارداتیں کسی کو کیسے نیچا دیکھایا جائے وغیرہ وغیرہ یہ وہ تمام عناصر شامل ہوتے ہیں جو کسی بھی ذہن میں اشتعال پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے

سدباب کے لئے اقدامات

میڈیا کا جو رول معاشرے میں ہوتا ہے اس کو کسی بھی طور سے جھٹلایا نہیں جاسکتا پاکستانی میڈیا میں حکومت کو مداخلت ضروری ہے کیونکہ خطے میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے،دوسری بات یہ کہ غیر ملکی ایسی فلموں پر پابندی عائد کرنی چاہیے جس میں حد درجہ منصوبہ بندی اور ڈاکہ زنی یا دوسرے شدت پسندی کے کہانیاں زیر پردہ ہوں اذہان ان عناصر سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں معیاری اور صاف ستھری کہانی ہی ایک صحت مند ذہن کو اچھائی کی طرف موڑ سکتا ہے

 ہمیشہ خود ہی کو درست سمجھنا
خود نمائی یا پھر اپنی بات کو ہر جگہ منوانے کی کوشش کرنا اور اپنی بات پر ہمیشہ تکرار کی حد تک جا پہنچنا اور اس بات پر بضد ہوجانا کہ جو آپ کے الفاظ ہیں وہ ہی سب سے اعلی ہیں۔
کسی دوسرے کی دلائل اور سچائی کو اپنی جھوٹی بات کے سامنے بے اثر سمجھنا بھی ذہنی شدت کا ایک بڑا حصہ اور سبب ہے۔کوئی بھی کسی بھی موقع پر بحث کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز ثابت کرنے کی کوشش اس کی شخصیت کا نہایت کھلم کھلا راز فاش کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے اور اس کا اثر بغیر کسی روک ٹوک کے عدم برداشت کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے جو کے آگے چل کر بہت سے مصائب کا انبار بن جاتا ہے۔

سدباب کے لئے اقدامات

خودنمائی یا خود پسندی ایک ایسا مرض ہے جس میں اگر انسان خود اپنے بل بوتے پر خود کو تبدیل نا کرے تو کوئی طاقت اس میں تبدیلی نہیں لا سکتی سب کو چاہئے کے غیر ضروری بحث و مباحثہ میں نا پڑے اور کسی بھی بات کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی ہمت خود میں پیدا کرے۔

معاشرتی ناانصافی و زیادتی
اس موضوع پر لاتعداد جید جید علماء اور سکالرز اور دانش واروں نے انتہائی گہری نقطہ نگاہ سے بہت کچھ لکھا ہے اس کے ہر ایک پہلو میں دوسرے پہلو کی جھلک موجود ہوتی ہے اس لئے کہ یہ سب اسباب کچھ حد تک ایک دوسرے سے میل کھاتے ہیں معاشرتی نا انصافی اور زیادتی پر اگر بات کی جائے تو پاکستانی معاشرے میں اس کی جو بدصورت مثال ملتی ہے شاید ہی کہی اور نظر آئے
کسی بھی فرد کے ساتھ زیادتی خواہ وہ اس کی ذاتی حیثیت کے ساتھ ہو یا پھر اس کے کنبے کے ساتھ اس کو شدت پسندی اور عدم برداشت کے دہانے پر پہنچانے کے لئے جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے
کسی فرد کے ساتھ اگر معاشرے میں کوئی زیادتی ہوتی ہے جو کہ ہم ہر روز دیکھتے ہیں ہمارے معاشرے میں کہ کمزور پر طاقت وار اپنی طاقت کا استعمال بےدریغ اور کھلم کھلا کرتا ہے تو وہ اپنی برداشت کو اپنے اندر ہی اندر جمع کرتا جاتا ہے اور جب وہ لاوا باہر نکلتا ہے تو اس کی صورت شدت پسندی کا روپ دھار لیتی ہے،مہذب معاشرے میں کسی بھی انسان کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اس کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کے مخالف اس کے دائیں بائیں لوگ موجود ہوتے ہیں جو کہ اس کے ایک بہترین سہارہ بن جاتا ہے اور وہ اپنی ذہنی کیفیت کو شدت پسندی کی طرف نہی جانے دیتا کیونکہ اس کی برداشت اس کے کنٹرول میں ہوتی ہے

سدباب کے لئے اقدامات

ناانصافی ایک ایسی بیماری کی جڑ ہے جو اچھے سے اچھے انسان کو بھی شدت پسند بننے پر مجبور کر دیتی ہے موضوع پر جتنی بھی بات کی جائے سب کا حل اس ایک ہی بات میں ہے کہ اگر انسان خود کو اپنی اصلی حیثیت میں پہچان لے وہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر فخر محسوس کرے تو اس کے سامنے پوری انسانیت کی کتاب کھل جاتی ہے وہ پھر کسی کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی کرنے سے پہلے بہت بار سوچتا ضرور ہے۔معاشرے میں ناانصافی کرنے کوئی دوسرے ملک کے لوگ نہیں آتے بلکہ اپنے ہی اپنوں پر ظالم بنے بیٹھے ہوتے ہیں اس کا سدباب اس انداز سے ممکن ہے کہ اصول پسند بنا جائے اور حق و باطل میں فیصل بن کر اپنی عظمت کو پہچانا جائے ہر انسان خود اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھے کہ کیا کسی کے ساتھ زیادتی یا ظلم کرکے وہ کچھ اچھا کر رہا ہے؟

تشدد
تشدد کی مثال ایسی ہے کہ کوئی اگر سردی سے مر رہا ہو اور کوئی اس پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اسے جلد ہی زندگی کی قید سے آزادی دلا دے،تشدد ایک ایسا ناسور ہے ہمارے اس معاشرے میں جس کی اگر داستان لکھنے کوئی بیٹھ جائے تو شاید ہی وہ اس کے ساتھ مکمل انصاف کر سکے،ہمارے سکولوں سے لیکر دینی مدرسوں تک ہر جگہ ہم کو تشدد دیکھائی دیتا ہے کیونکہ ہم وہ طریقہ اپنانے کے لئے تیار ہی نہیں جس پر چل کر ہم ایک محبت بھرا معاشرہ تشکیل دیں سکیں،تشدد کی بہت سی اقسام ہیں خواہ وہ جسمانی تشدد ہو یا پھر جنسی تشدد ذہنی تشدد ہو یا پھر روحانی  کوئی بھی تشدد ذدہ انسان کبھی بھی نارمل زندگی نہیں گزار سکتا،دنیا میں جتنے بھی سیریل کلر پکڑے گئے ہیں ان سب کی ماضی میں تشدد کا شمار ضرور رہا ہے جو مندرجہ بالا میں سے کسی ایک کا شکار رہا ہے ،اس لئے اگر تشدد کا خاتمہ کسی معاشرے میں نہیں ہوتا تو وہاں کے اذہان کا شدت پسندی اور عدم برداشت کی طرف رغبت کوئی مشکل امر نہیں۔

سدباب کے لئے اقدامات

بات اگر صاف گوئی سے کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا کوئی بھی شخص کسی کو بھی کچھ روپوں کے لئے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے،ایک چھوٹے سے بچے کو ایک روٹی چوری کرنے کے جرم میں گھونسے اور لاتیں مارتے ہین جہاں دیکھو تشدد ہی تشدد  یہ جو ہم آج اپنے اردگرد کے حالت دیکھ رہے ہیں کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں روزانہ کسی نا کسی پر تشدد نا ہوا ہو  اس کے ادراک کا بہترین حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو سکولوں اور مدرسوں میں تشدد پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور کوئی پھر بھی یہ جرم کرے تو اس کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے
اپنے آس پاس کے لوگوں میں اگر کچھ نا ہوسکے تو کم از کم کسی کے مسئلے میں خیر کی بات ہی کی جائے،انسانی بنیادوں پر ہر معاشرے میں لوگوں کے مسائل کا حل مل جل کر ڈھونڈا جائے اور بات کو بڑھنے نا دیا جائے۔قانون اپنا ڈنڈا سب پر برابر کا استعمال کرے کوئی چھوٹ نا جائے کیونکہ اگر جرم ہوا ہے تشدد ہوا ہے تو سزا لازمی ہے سزا دینے سے پہلے اس کے عمل کو اس کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ اس کو سزا کس چیز کی مل رہی ہے،بچوں پر تشدد کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور ان کے زہن میں یہ بات ڈالی جائے کہ بچوں پر تشدد کرنے سے معاشرہ کن مصائب کا شکار ہوسکتا ہے (اصلاح کے لئے نرم لہجے سے بھی کام لیا جاسکتا ہے تشدد ضروری نہیں)

 رنگ و نسل یا جنسی امتیاز کی بنیاد پر کسی کو کم تر سمجھنا
امتیازی سلوک وہ عنصر ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں ایک گالی کی حیثیت سے جانی جاتی ہے نسل اور جنس کا جس طرح استحصال ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں  بہت سے دیہی علاقوں میں نسل پرستی آج بھی زور و شور سے جاری ہے جس کی بدولت خون خرابے میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے،ہر ایک مالدار مجبور انسان کے سر پر پاوں رکھ کر اور اونچا ہونے کی کوشش میں لگا ہے بہت سے ظالم جاگیردار اور وڈیرے مجبور و بےکسوں کو روند رہیں ہیں اور یہی سلوک پھر ان میں شدت پسندی کی بنیاد بن جاتی ہے اور وہ اپنے معاشرے کے لئے ایک ناسور بن جاتا ہے،دوسرا موضوع اس میں جنسی امتیاز ہے،پاکستان کے سارے بڑے بڑے شھروں میں اس بات پر شدید غور و فکر کی ضرورت ہے کہ کیوں کوئی کسی اپنے جیسے انسان کو جنس کی تغیر کی وجہ سے اس کو جینے نہیں دیتا بار بار اس کو اذیتوں سے کیوں گزارا جاتا ہے اس میں وہ سب آتے ہیں جن کی جنس قدرت نے ایک مرد سے الگ بنائی ہے.
آج نہیں تو کل اگر اس بات پر غور نہیں کیا گیا اور ان کی پکار نا سنی گئی تو کل ان میں سے بھی کوئی آتش فشاں بن سکتا ہے اور عدم برداشت کا شکار ہوکر شدت پسندی کی راہ پر چل سکتا ہے
اس میں عورت پر بھی مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں کیونکہ آج بھی بہت سے ایسے علاقے پاکستان میں موجود ہیں جہاں عورت کی جنسی تغیر کی بنیاد پر بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے ہیں جس کی بدولت عورت پر ظلم ہو رہے ہیں اور وہ اپنے وجود کو ان مظالم کے سامنے ڈھال بنا بنا کر تھک چکی ہے ایسے قصے روز دیکھائی دیتے ہیں اور نظروں کے سامنے گزرتے ہیں کہ آج فلاں گاوں یا شھر میں ایک عورت نے اپنے سب بچوں کو زہر دیکر خود بھی خود کشی کرلی

سدباب کے لئے اقدامات

بدقسمتی سے ہمارے اردگرد ایسے اذہان موجود ہیں جو تمام انسانوں کی یکسر حقوق کے منافی ہیں وہ تمام انسانیت کو ایک جیسا قبول کرنے کے حق میں نہیں بات کو جتنا گھوما گھوما کر تراشو تو وہی ایک مورتی بن جاتی ہے کہ ایک انسان دوسرے سے خود کو افضل سمجھتا ہے وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرتا کہ ایک ریڑھی بان کسی کارخانے کے مالک کے برابر ہو سکتا ہے،انسانی زندگی کو دولت کے ترازو میں رکھ کر تولا جاتا ہے امیر غریب پر ظالم ہے غریب اپنے سے زیادہ غریب پر عورت کو اس کے حقوق اپنے بھائی سے نہیں ملتے اذہان میں شدت کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے کبھی اپنوں کے خلاف کبھی پرئیوں کے  سدباب اس صورت میں ممکن ہے کہ انسان اپنے طور پر خود کو اتنا اعلی ظرف بنائے کے وہ منصف بن سکے کسی کا حق مارنے سے پہلے سو بار سوچے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حروف آخر
اس موضوع پر جتنا بھی کوئی لکھ لے وہ اتنا ہی کم ہے میں نے اپنی چھوٹی سی کوشش کی ہے اور میرے مطابق جو عناصر اس موضوع میں عمل دخل رکھتے تھے وہ میں نے بیان کر دیئے کسی بھی فرد کا میرے ان الفاظ کے ساتھ اتفاق کرنا یا نا کرنا ان کی اپنی سوچ پر منحصر ہے آخر میں میرے الفاظ کچھ اس طرح کے ہونگے کہ  ” ہم اگر چاہیں تو اپنے اردگرد کے معاشرے کو ایک جنت نظیر مثال بنا سکتے ہیں یہ ہم خود ہی ہیں جو اس شدت پسندی اور عدم برداشت کو جڑ سے کاٹ کر پھینک سکتے ہیں انسان جب تک خود کوئی عمل نہیں کرتا دنیا کا کوئی علم کوئی قانون اسے بگاڑ تو سکتا ہے سنوار نہیں سکتا ہم کو ہی سوچنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیسی تربیت دیں کہ وہ معاشرے میں ایک مثبت زندگی گزارے اپنے درمیان موجود نفرت کو مٹاو محبت ہی وہ آسرا ہے جس پر چل کر ہم اپنے مستقبل کو خوشگوار بنا سکتے ہیں خدا ہم سب پر اپنا رحم نازل فرمائے آمین ثم آمین

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply