سڑک کے اس پار۔ عبداللہ خان چنگیزی

ہمارے ایک دوست بھی عجیب طرح کے انسان نما ٹھرکی ہیں وہ بھی درجہ اول کے ۔ نام کے مرزا ہیں کام کے اول مقام کے کاہل و ناہنجار۔ عادات کے اتنے کچے جیسے مٹی کا گھڑا اُس سے لاکھ درجہ بہتر۔ آئے روز نظر بازی اور اپنی ٹھرکی خصلت کی تسکین کے لئے کہیں نہ کہیں اپنی چونچ مارتے ہی رہتے ہیں۔اپنی جو شامت آئی کہ ایک دن ہم سے راستے میں مل لئے۔
بہ زبان مرزا۔۔۔
“اور خان صاحب آج کل دیدار نہیں کرا رہے ؟ طبیعیت پانی ٹھیک چل رہا ہے ناں ؟ ہم کو دیکھتے ہی وہ تڑاخ سے بول دیئے۔

اجی مرزا صاحب !ہم تو وہیں کے وہیں ہیں باخدا آپ کا چہرہ بھی کوئی بھول سکتا ہے کیا؟ ہم نے بھی کمالِ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
“اجی خان صاحب آج کل کر کیا رہے ہیں آپ؟ کیا شغل میلا ہے کچھ ہم کو بھی تو بتلاو! “مرزا نے گلا صاف کرتے ہوئے بلند آواز میں پوچھا۔
ایک بات کی یہاں وضاحت ہو کہ مرزا کا اصل نام نواز الدین مرزا تھا اُن کے دادا کا تعلق لکھنو سے تھا جو کہ تقسیم کے بعد کراچی آگئے تھے ۔ مرزا کے باپ اور دادا تو اب نہیں رہے تھے لیکن مرزا آج بھی اردو کو لکھنوی انداز میں بولا کرتے تھے جس سے اُس کے انداز گفتگو میں اور بھی مزاح پیدا ہو جاتا تھا۔
مرزا صاحب ہم کیا اور ہماری مصروفیات کیا بس کبھی یہاں کبھی وہاں سفر گزر رہا ہے زندگی کا وہی نوکری کا حصول اور اُس کے پیچھے خوار ہونا لکھا ہے ہماری قسمت میں! ہم نے بڑی عاجزی سے اپنا دکھڑا سنا ڈالا۔ بعد میں ہمارے اُس دکھڑے کی وجہ سے جو ہماری شامت آئی ۔ خدا کسی کی نہ کرے بغیر مرزا جی کے۔
“اخاہ !تو خاں آج تو ہم آپ کو چھوڑنے والے پھر ہیں نہیں لاکھ جتن کرلیں سرکار ہم جانے نہ دیں گے ۔ کچھ یار دوست کا بھی حق بنتا ہے بھائی جان پر! ”
مرزا نے فیصلہ کُن لہجے میں ہم پر اپنا مہر حق ثبت فرما لیا دل نے پریشانی کی عالم میں دماغ میں موجود خطرے کی گھنٹی بجا دی گھنٹی بجی بھی تو بجا بجی تھی۔ جب بھی ہمارا مرزا کے ساتھ کوئی ملاقات ہوتی کوئی نہ کوئی لفڑا ضرور ہوتا ایک بار تو بات تھانے تک پہنچی تھی تھانے دار صاحب نے مرزا کے رنگین طبیعت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے درگزر کیا اور ہم دونوں تھانے سے باہر۔
اب کے مرزا کے ساتھ کہیں جانے کا واللہ دل نہیں کر رہا تھا مگر وہ ٹلنے کا نام ہی نہ لے ایک نمبر کے ڈھیٹ اور الفاظ و وعدے کے پکے۔ خیر ہم نے کچھ سنجیدہ مزاج سے جناب مرزا سے مقامِ منزل دریافت کی تو وہ بے شرمی سے قہقہہ لگا کر بولا!
“اماں خاں صاحب تو نے مرزا کو کیا گلی کے نکڑ کا پان والا سمجھا ہے کیا جو کسی سینما یا کسی “بازار” جانے واسطے قصد کریں گے ؟ہم تو آج اپنے یار کو دنیاوی جنت کے نظارے کروایں گے جو واہ واہ نہ کہلوایا تم سے تو نام بدل دینا ہمارا کہہ دیتے ہیں۔”

دروغ بہ زبان مرزا ہم تو یقیں کرنے والے تھے نہیں ، لیکن اخر مروت بھی کسی چیز کا نام ہی ہے سو چل پڑے ہم اُن کے ساتھ دل میں یاد کئے ہوئے سب آیات کا ورد کرتے کرتے۔ کیا دیکھتے ہیں کے مرزا صاحب نے سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ پر سے رکشہ روکنے کے سڑک کے اندر تک بے توجہ کے چلتے گئے اور ایک رکشہ والے کو ہاتھ ہلانے کے بجائے ہاتھ دیکھایا اور سیاسی رہنما کی طرح بار بار ہوا میں لہراتے گئے۔ رکشہ والے نے بھی نہ جانے کیا سوچا کہ عین مرزا کے ناک کو بچاتے بچاتے رکشہ کا پچھلا ٹائر اس کے مخنی سے پاوں پر چڑھا دیا۔ یا اللہ خیر جو ہم نے فلک شکاف چیخ سنی تو گمان ہوا مرزا نے اجل کا فرشتہ رکشہ میں بیٹھا دیکھ لیا یا پھر رکشہ والا اس کے منگیتر کے ابا تھے جو وہ عین شادی میں یہ کہہ کر بھاگ آئے تھے کے اُس کی بیٹی کی شکل ہیما مالنی سے نہیں ملتی لہذا وہ شادی سے انکار کرتے ہیں۔ اُس دن کے بعد سے لڑکی کے ابا اُس کو ڈھونڈ رہے تھے ساتھ میں رام پوری چاقو لے کر جس سے وہ مرزا کے اخروٹ کاٹنے والے تھے۔ خیر جب ہم اُن خیالات سے چونک پڑے تو مرزا سڑک پر ماہی بے آب کی طرح پڑے لوٹ پوٹ ہوتے رہے موقعے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے رکشہ والا نو دو گیارہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرزا صاحب کے منہ سے ہائے اوئے افف مار ڈالا میرا ٹخنہ میرا پاوں جیسے الفاظ تواتر سے لکھنو کی ، شوخ اصلی اردو میں جاری تھے جن کے درمیاں میں ان مغلظات کی بھر مار تھی جن سے ہمارے گناہ گار کان پہلی دفعہ آشنا ہوئے۔
موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہم نے بھی راہ فرار کی سوچھی لیکن پھر خیال آیا کہ یہ تو وہ نامردوں والی بات ہوئی جو ہم جیسے خاں سے برداشت نہ ہوئی چار و ناچار مرزا کے قریب ہوئے تو جو حال احوال کا پوچھا ہ مرزا ایسے بھپرے شیر کی طرح دھاڑے ر”کشے والا حرام خور کو پہچانا؟ ”
اب ہم مرزا کو کیا سمجھاتے کہ جب وہ رکشہ روکنے کیلئے آدھی سڑک پار کر کے وہ کھڑے ہوئے تھے تو ہم جیسے مسکین کی کیا مجال جو اِس ٹریفک کی طوفانِ بدتمیزی میں کودنے کی جرت کر سکیں۔
مرزا صاحب! اُس کو ہم نے نشانے پر رکھ لیا ہے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بھاگ کر شہر سے جا نہیں پائے گا انتقام ضرور ہوگا۔ ہماری اِس بات سے مرزا کی طبیعت کچھ ہلکی ہوئی لیکن درد کی شدت شاید زیادہ تھی اِس لئے اپنے انداز سے ہم کو داد نہ دے پائے۔بیچ سڑک پر مرزا پڑے خوب تماشہ بنا گئے تھے تماش بینوں کے لئے۔ ہم نے اس کا ایک ہاتھ آپنے کندھے پر ڈال کر اُسے اٹھانے کی جو کوشش شروع کی تو مرزا کے منہ سے جیسے حکم اعلی جاری ہو چلا۔۔
“نہیں نہیں ہم سے چلا نہ جائے گا! ”
اب ایک ہی صورت جو بچی تھی کہ مرزا کو گود میں اُٹھا کر لیں جائیں سڑک کے کنارے ۔ تو دل میں ایک کسک سی اُٹھی کیا کیا خواب دیکھے تھے کسی کو گود میں اٹھانے کے اور کیا ہماری شامت کہ مرزا ہی کے نصیب میں تھی کنواری گود ہماری۔ مرزا کو اُٹھا کے ہم سڑک پار کرنے لگے تو دور سے ایک پبلک ٹرانسپورٹ کی جو بڑی سی بس آتی دیکھی تو دل میں لاحول ولا قوة پڑھ کر مرزا کو دیکھا، عین اُسی وقت شاید اُس نے بھی وہ طوفان کی طرح تیز آتی بس دیکھ لی تھی ہماری اور مرزا کی آنکھیں بیک وقت جو چار ہوئی تو اُس کا حال وہی کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں شاید اُس نے ہمارے ارادے کو بھانپ لیا تھا جو کے مرزا کو سڑک پر گِرا کر خود دوڑ کر اُس پار پہنچنے کا تھا۔
مرزا صاحب نے خود کو ہم سے ایسے زور لگا کر جوڑ لیا جیسے کوئی اژدھا خود کو اپنے شکار سے لپیٹ لیتا ہے۔ ہم نے جو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سوچا تھا کہ بس کے پہنچنے سے پہلے ہی اُس طرف جانا ضرور ہے اور ہم نے اپنی پیدائش سے لیکر جوانی اور کچھ عرصے کے جوانی سے لیکر بڑھاپے کے نزدیک تک ساری طاقت کو یکجا کر کے دوڑ لگائی تو مرزا کے منہ سے صرف یہ الفاظ سنے۔
“عالم نزاع میں اگر مجھے موقع نہ ملا تو تم یہ کہنا کے ہماری قبریں ساتھ ساتھ بنا دی جائیں ۔”
شاید مرزا کا دماغی توازن کچھ ڈھیلا پڑ گیا تھا یا پھر اُس کو ہم پر یقیں نہ تھا کہ ہم ان کو صحیح سلامت سڑک کے کنارے پہنچا سکیں گے۔ اُس کے پاؤں کا درد یا تو ختم ہو چکا تھا یا پھر وہ موت کے منہ سے جو کچھ لمحے پہلے بچا تھا اُس کی خوشی میں محسوس نہ ہو رہا تھا۔
فٹ پاتھ پر مرزا کو بیٹھا کر ہم نے مرزا سے اُس کی طبیعت پوچھی تو زبان گنگ لب خاموش آنکھیں بے نور ۔ ہم کو لگا جیسے کہ اُس کو دل کا دورہ پڑنے والا ہے تو تڑاخ سے ایک گھونسا اُس کے سینے پر جما دیا کہ شاید اِس سے اُس کی دھڑکن کچھ بحال ہو، لیکن ہم غلط تھے جو ہم کو تب پتہ چلا جب مرزا الٹے ایسے گِرے کے سر نیچے اور پاوں دونوں آسمان کو!
ناجانے اور کیا کیا کہاں تھا بیاں کرنے سے قاصر سمجھیں ہمیں۔
مرزا کے وه الفاظ جو ہم نے سنے کہ جب وہ سیدھے ہوئے۔”خان کونسے جنم کا بدلہ لیا ہے ہم سے یا ہم تیرے دشمنوں میں شمار ہونے لگے ایسا پشاوری گھونسہ بھلا کیونکر صادر فرما گئے بھلائی کا زمانہ ہی نہ رہا ایک ہم ہی بہ مثل وہ چار پاوں کے جانور کے ہیں جس کو لوگ انساں نہیں سمجھتے؟
“مرزا صاحب آپ کی جو حالت ابھی ہوئی تھی اب آپ کو کیا بتلائیں ؟ہم کو تو لگا جیسے گھڑی چند گھڑی کے مہمان ٹہریں گے آپ !رنگ پیلا ، آنکھیں دھنسی ہوئی ، ہونٹ خشک اور پھر آج مرا کل دوسرا دن ایسی لئے تو ہم سے گستاخی ہوئی ہم دیکھنا چاہ رہے تھے کہیں ہمارا جِگر ہم کو چھوڑ کے جا تو نہیں رہا؟ ”
مرزا نے جو ہماری زبان سے اپنے لئے جگر کا لفظ سنا تو کچھ ٹھنڈے پڑ گئے اور اپنے پاوں کی طرف دیکھنے لگے۔ ہم کو بھی اُس کے درد کا کچھ احساس ہونے لگا جو بعد میں کچھ ناگوار گزرا خیر ہم نے انتہائی پر سکوں انداز میں بھلے آدمی کی طرح فٹ پاتھ سے ہی خالی رکشہ دیکھنے کی کوشش شروع کی جو آدھے گھنٹے بعد ملی اور ہمارے دس روپے شھر کے سرکاری ہسپتال تک کھا گئی۔
مرزا کو وہیل چیئر پر بیٹھا کر اُس کے لئے پرچی کروا دی پرچی دینے والے نے پولیس کیس کا بتا کر پھر ہمارے بیس روپے لوٹ لئے اللہ اللہ کر کے مرزا کا نمبر لگا اور وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچے ڈاکٹر نے ایکسرے اور کچھ دوائیوں کے نام پر پھر ہم کو لوٹا اور مرزا کو روزانہ پاوں کی مالش کرنے کی نصیحت کرکے ہم کو رخصت کیا۔
ہسپتال سے باہر آکر ہم نے مرزا کو اُس کے پتے پر پہنچانے کے لئے پھر ایک تاڑو سے رکشے والے کو پکڑا اور مرزا کو وارڈ بوئے کی مدد سے اُس میں ٹھونس دیا۔ رکشہ والے کو کرایہ دیتے وقت اختیاط سے چلنے کی تلقین کی جو ہم نے رسمی طور پر کہا تھا آنکھوں کے اشارواں سے ڈرائیور کو رکشہ اڑانے کا عندیہ دیا تھا جو کے پانچ روپے زیادہ دیتے وقت یقیں تھا کہ ضرور رکشہ اُڑے گا۔
مرزا صاحب سے رخصت لیتے وقت چہرے پر اُس کے لئے ہمدردی کے جذبات لے کر آیا تو مرزا نے ہنس کر کہا” خان صاحب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں سمجھ سکتا ہوں آپ کے دل میں وہ جگہ دیکھنے کی کسک رہ گئی جہاں اِس شہر کی پریاں رہتی ہیں مگر اگلی بار میں تم کو ایک اور جہاں میں لے کر جاوں گا جہاں ہماری قسمت جاگ اُٹھنے کا پورا یقیں ہے ساتھ میں نازک اور ہوشربا حسُن بھی دیکھنے کو ملے گا ”
میرا جواب انتہائی موزوں تھا۔ رکشہ والے کو چلنے کا اشارہ کر کے ایک ہاتھ سے اُس کے زخمی پیر کو پوری قوت سے دبایا اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے پیٹ میں گھونسا جما دیا۔اِس بار اُس کی چیخ انتہائی دِلدوز تھی

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply