غزوہ بدر کے متعلق ایک روایت ۔۔۔ چند گزارشات

غزوہ بدر جو کفر و اسلام کا پہلا معرکہ تھا، اس کے متعلق پہلے بھی پڑھ رکھا تھا اور چند روز قبل ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب مد ظلہ نے بھی تحریر فرمایا کہ ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں مارے جانے والے 70 کفار میں سے 35 یا 30 صاحب ذوالفقار حضرت علی ؑ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ یہاں یہ عرض کر دوں کہ مذکورہ روایت کی صحت کی چھان بین کرنا مذہبی علماء کا کام ہے لہٰذا اسے انہی پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
ڈاکٹر ہاشمی صاحب کی پوسٹ اور چند ایک دوسری پوسٹس پر بھی بعض لوگوں نے اس روایت کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ 313 مجاہدین نے کُل 70 کفار کو موت کے گھاٹ اتارا، یہ کیسے ممکن ہے کہ 30 یا 35 جناب علیؑ کے ہاتھوں مارے گئے ہوں اور بقیہ 35 یا 40 کو 312 مجاہدین نے مارا ہو۔
یہاں ہمیں فرقے اور مسلک کو چھوڑ کر ان حقائق کی جانب توجہ دینی چاہئیے جو اس غزوہ کے بارے میں بیان ہوئے ہیں اور تاریخ میں ان کا ذکر “متفق علیہ” کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس غزوہ میں مکی لشکر کی تعداد 900 سے ایک ہزار بیان ہوئی ہے جو پوری طرح مسلح تھا جبکہ مسلمانوں کا دستہ صرف 313 افراد پر مشتمل تھا۔ بعض روایات کے مطابق ان 313 میں سے بھی آٹھ صحابہ کرام وہ تھے جو کسی عذر کے باعث میدان جنگ میں حاضر نہ ہو سکے۔ ہم اس روایت کو ایک جانب رکھتے ہوئے میدان بدر چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ 313 کے لشکر میں 77 مہاجر اور 236 انصار ہیں۔(بعض روایات کے مطابق 60 مہاجر اور بقیہ انصار ہیں)۔ ابھی رسول خدا کو مدینہ آئے ہوئے دوسرا برس ہے اور مسلمانوں کی معاشی حالت ناگفتہ بہ۔ بے سر و سامانی کا یہ عالم ہے کہ 313 افراد کو مدینہ سے بدر تک 120 کلومیٹر کے سفر کے لیے مناسب سواریاں بھی دستیاب نہیں کیونکہ پورے دستے کے تصرف میں صرف دو گھوڑے اور 70 اونٹ ہیں۔ اس ناکافی سواری کی تفصیلات آپ جانتے ہی ہوں گے لہٰذا اس سے آگے بڑھ کر یہ دیکھتے ہیں کہ 313 افراد کے پاس جنگی ساز و سامان کیا ہے؟
اس دور کے عرب میں میدان جنگ میں تین ہتھیار سب سے زیادہ استعمال ہوتے تھے ۔۔۔ تلوار، نیزہ اور تیر کمان۔ جبکہ دفاع کے لیے ڈھال اور زرہ بکتر۔ اس کے ساتھ اس دور کی کیولری صرف گھوڑے پر مشتمل تھی۔ اب دیکھیے کہ مسلمانوں کے پاس اس سازوسامان میں سے کیا دستیاب تھا۔ (جنگی ساز و سامان کی اس انتہائی قلت کو تاریخ کے علاوہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 123 کی تصدیق بھی حاصل ہے) مسلم جنگی دستے میں تین سو تیرہ مجاہدین کے پاس صرف آٹھ تلواریں تھیں۔ ان کے علاوہ چند ایک نیزے جو رومن لانسز نہیں بلکہ لاٹھیوں پر دھاتی پھل لگا کر بنائے گئے تھے اور چند تیر کمان تھے۔ دفاعی سازوسامان میں صرف دو زرہیں اور کچھ ڈھالیں تھیں۔ ان ڈھالوں میں سے بھی معدودے چند ہی دھات اور چمڑے سے بنی تھیں اور صرف دو گھوڑے جن کے مقابلے میں قریش کا گھڑ سوار دستہ 100 جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلحے کی اس قدر کمی تھی جس سے بمشکل چند درجن افراد مسلح ہو سکتے تھے تو باقی مجاہدین کن ہتھیاروں سے لڑے ہوں گے؟ ۔۔۔۔ اس کا سیدھا اور سادہ جواب ہے لاٹھیوں اور پتھروں سے۔ جس کو لاٹھی ملی، اس نے وہ اٹھا لی اور جسے وہ بھی نہ ملی، اس نے جھولی میں پتھر بھر لیے۔
اب ذرا جذبہ ایمانی اور شوق جہاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے بتائیے کہ کفار مکہ کے 900 سے ایک ہزار کے لشکر پر جو جارحانہ اور دفاعی سازوسامان دونوں سے پوری طرح مسلح تھا، پتھر اور ڈنڈے کس قدر کارگر ثابت ہو سکتے تھے؟ اگر ہم میدان بدر کی تفصیلات پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قریشی سردار جو قبائلی غرور میں بری طرح مبتلا تھے، سوائے سرادران اوس و خزرج کے، بقیہ انصار کو اپنے مقابلے کے قابل ہی نہیں گردانتے تھے۔ مبارزت طلبی سے لے کر ہنگام جنگ تک، انہوں نے بار بار ہاشمی اور قریشی جنگجوؤں کو مقابلے کے لیے للکارا اورانہی سے مقابلے کو ترجیح دی۔
اگر مسلمان دستے میں آٹھ تلواریں تھیں تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ صرف آٹھ مجاہد ہی شمشیر زنی کے جوہر دکھا سکے۔ ان آٹھ میں جناب علی، جانب حمزہ، جناب عبیدہ پہلی مبارزت میں آگے بڑھے اوریوں دست بہ دست جنگ شروع ہوئی توحضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن ربیعہ کو واصل جہنم کردیا۔ جب کہ حضرت علی حیدر کراررضی اللہ عنہ نے ولید بن عتبہ کو جہنم رسید کیا، جب کہ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہو گئے، یہ دیکھ کر شیر خدا حضرت علی المرتضی آگے بڑھے اور اپنی ضربِ حیدری کے ایک ہی وار سے شیبہ بن ربیعہ بھی کو جہنم رسید کردیا۔ تینوں مشرکین سرداروں کی لاشیں زمین پر ڈھیر پرہو گئیں۔ گویا پہلے معرکے ہی میں اسد اللہ کے ہاتھوں دو سرداران قریش مارے گئے۔ جنگ کی نفسیات سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ دشمن ہمیشہ اس جنگجو کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے جس نے اسے زیادہ نقصان پہنچایا ہو۔ چونکہ مولٰی علی آغاز ہی میں دو نامی گرامی قریشیوں کو فنا کے گھاٹ اتار چکے تھے، اس لیے یہ قیاس کرنا چنداں مشکل نہیں کہ انتقام کی آگ میں جھلستے ہوئے مکی جنگجو بار بار انہی کی طرف بڑھتے ہوں گے اور ذوالفقار کا شکار ہوتے ہوں گے۔ لہٰذا حیدر کرار کے ہاتھوں 30 یا 35 کفار کے جہنم واصل ہونی کی روایت میں کوئی حیرت یا اچنبھے والی بات نہیں ہونی چاہیے۔ شیر خدا کی ذات اور شجاعت کسی ایک فرقے کی نہیں، تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے۔
یہ معرکہ حق و باطل، جو اسلامی تاریخ میں تو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن دنیا کی جنگی تاریخ میں ایک جھڑپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، بمشکل دو اڑھائی گھنٹے میں اختتام پذیر ہوا کیونکہ اپنے 70 جنگجو گنوا لینے کے بعد مکی لشکر نے فرار ہی میں عافیت جانی اور اس کے نتیجے میں 70 افراد کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہئیے کہ اگر مسلم دستے کے تمام ارکان مسلح ہوتے تو شاید قریشی لشکر میں سے کوئی واپس نہ جا پاتا۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”غزوہ بدر کے متعلق ایک روایت ۔۔۔ چند گزارشات

  1. بھائی آپ کو ہر جگہ مسلکی اختلاف کیوں نظر آجاتا ہے . اگر کسی نے اختلاف کیا تو عقلی بنیادوں پر کیا ہوگا

Leave a Reply