معاذ بن محمود کی تحاریر
معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

میرا بے نیاز خدا ۔۔۔ معاذ بن محمود

میرے نزدیک خدا کی صفتِ بے نیازی وہ صفت ہے جسے اگر ٹھیک سے نہ سمجھا جائے تو انسان کے رب باری تعالی سے باغی ہونے کے امکان بہت بڑھ جایا کرتے ہیں۔ یہ صفت خدا کی Integrity پر دلیل ہے۔ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوتا۔ ہاں وہ ہر شے پر قادر ہے مگر اپنی مرضی سے۔ آپ اسے دہائی دے سکتے ہیں مگر وہ آپ کی سنے نہ سنے یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ آپ اسے اس کے پیارے نبی کا واسطہ دے سکتے ہیں مگر وہ یہ واسطہ مانے نہ مانے اس کا فیصلہ۔ کیونکہ وہ بے نیاز ہے۔←  مزید پڑھیے

مرا گھر بھی آج مکاں ہوا ۔۔۔ معاذ بن محمود

میں اس احساس کا مجرم بنا کھڑا تھا کہ کاش ان تمام چیزوں کی زباں ہوتی ضمیر ہوتا اور یہ میرے سامنے کھڑے ہوکر مجھے روک پاتیں۔ پھر میں ان کے کرب کے آگے ہار مان لیتا اور ان سے جان نہ چھڑانے کی کسی تدبیر میں لگ جاتا۔←  مزید پڑھیے

بیرون ملک سے واپسی، وفاق اور حکومت سندھ کی کارکردگی ۔۔۔ معاذ بن محمود

حکومت وقت کا شدید ترین ناقد ہونے کے باوجود دو بہترین کاموں کی داد نہ دینا صریحاً بددیانتی ہوگی۔ پہلا کام بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فیصلہ جس کے باعث چالیس ہزار کے قریب پاکستانی واپس اپنے ملک آرہے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے تاحال اس قسم کے قدم کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جاسکا۔ ←  مزید پڑھیے

شدید متفق ۔۔۔ معاذ بن محمود

معاشرے میں دانشوروں کا ایک مسلک ایسا بھی ہے جو عوام میں گھل مل کر ان سے مکالمہ کرنے کو برا نہیں سمجھتا۔ یہ گروہ اپنیدانش عوام الناس میں دان کرنے کی کوشش کرتے کرتے دار فانی کوچ کر جاتا ہے لیکن عوام العام کا عقلی معیار پھر بھی اس عامسے معیار پر ٹکا رہتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ میرے اور میرے مؤکلین کا راسخ عقیدہ ہے کہ دانشوروں کا یا جتھا دو نمبردانشور ہے۔←  مزید پڑھیے

مرغوں پر مضمون ۔۔۔ معاذ بن محمود

مرغا ایک نہایت ہی لطیف اور نازک جاندار ہے۔ اس کا سر، دھڑ کی نسبت پتلا اور لمبا جبکہ دھڑ سر کی نسبت بھاری اور بیضوی ہوا کرتا ہے۔ اس بھاری بھرکم دھڑ سے وہ کئی اہم کام لیا کرتا ہے جن کی منصوبہ بندی اس کے سر کے بالکل اوپری سرے پر واقع دماغ میں ہوا کرتی ہے۔ سر اور دھڑ کا یہ باہمی اشتراک ہی دراصل مرغے کی بقاء کا ضامن ہوا کرتا ہے۔ ←  مزید پڑھیے

یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔۔۔ معاذ بن محمود

یکم جنوری ۲۰۲۰ کو ہم سب کسی نہ کسی حال میں ہوں گے۔ یہ حال اچھا ہو سکتا ہے برا بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی مثال دوں تو میں یکم جنوری کو کعبہ کے گرد شاید ساتواں طواف کر رہا تھا یا غالباً کر کے فارغ ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھے سعی کرنی تھی۔ سعی سے پہلے دو نفل ادا کرتے ہوئے سجدے کی حالت میں کسی نے میرے بالوں کی ایک لمبی لٹھ پر پیر رکھا ہوا تھا۔ میں سجدے سے اٹھا تو پوری لٹھ جڑ سے باہر آئی اور کچھ اس طرح آئی کہ میری آنکھوں سے باقاعدہ آنسو نکل آئے۔ ←  مزید پڑھیے

عورت مارچ ۔۔۔ معاذ بن محمود

اس نے بلا روک ٹوک سڑک پر قدم بڑھائے۔ اپنے دوستوں سمیت دیگر شرکاء کو اکٹھا کر کے ہجوم بنایا۔ بغل سے پلے کارڈ نکالا جس پر جلی حروف میں آزادی کے حصول سے متعلق نعرہ لکھا تھا۔ ہجوم پورا←  مزید پڑھیے

میرا جسم میری مرضی ۔۔۔ معاذ بن محمود

“میرا جسم میری مرضی” ایک نعرہ ہے۔ ہو سکتا ہے آپ اس کی تشریح “میرے جسم کو میری مرضی کے بغیر نہیں چھوا جاسکتا” لے رہے ہوں جبکہ مقابل فرد اسے “میری مرضی میں جسے چاہوں چھونے کا حق دوں” سمجھ رہا ہو۔ جس جانب ہم چل رہے ہیں وہ دن بھی آ ہی جانا ہے بلکہ شاید آ ہی چکا ہے۔ آج کل کتنا مشکل رہ گیا ہے اپنے جسم کو اپنی مرضی کے فرد کے آگے دان کر دینا؟ ←  مزید پڑھیے

تم دینا ساتھ میرا ۔۔۔ معاذ بن محمود

افشین سرخ کپڑے زیب تن کیے دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔ وہ عاصم کو بھی ڈھونڈ رہی تھی اور کیک کی جانب بھی متوجہ تھی۔ افشین کے ایک ہاتھ پر پچھلے روز پیر پھسل کر گرنے کے باعث پلستر چڑھا ہوا تھا۔ وہ پھر بھی خوش تھی۔ وہی، ہر حال میں خوش رہنے والی عادت۔۔←  مزید پڑھیے

بزنس آئیڈیاز ۱۰۱: آن لائن عقیدت فروشی ۔۔۔ معاذ بن محمود

تمہید باندھنے کا مقصد ایک آپ کی قیمتی توجہ ایسی جنس کی جانب مبذول کرانا تھی جو سوشل میڈیا کے اس غیر مرئی بازار میں نئی بھی ہے، حقیقتاً چمکتی بھی ہے، جس کو پرکھنے کا کوئی طریقہ بھی موجود نہیں اور جس پر شدھ قسم کی عقیدت کا لیبل بھی چسپاں ہے۔ یہ ایک ہزار فیصد آرگینک بھی ہے۔ جس کی طلب رسد کا بندوبست قدرت کی جانب سے متعین ہے، اور جس میں مزید انوویشن کے امکانات بھی خوب ہیں۔ ←  مزید پڑھیے

لب کشائی ۔۔۔ معاذ بن محمود

اہم بات یہ ہے کہ آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے۔ جو سکون میسر ہے فی الوقت اسی پر قناعت کیجیے اور ایمان رکھیے کہ وزیراعظم ہاؤس کا مسکن مسکین آپ کے سکون کی خاطر رات دوگنی دن چھنکنی کوششیں کر رہا ہے۔ آپ کا سکون اس باوصف باکردار شخص کا نصب العین ہے۔ اور سکون آپ جانتے ہیں صرف قبر میں ہے۔ ←  مزید پڑھیے

خلیل الرحمن قمر پر اعتراضات کا جائزہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

یا تو آپ وفا کے تصور کو سرے سے خرافات مان لیجیے، تب تو بات سمجھ آتی ہے کہ رشتوں میں بندھے دو افراد کے درمیان وفا نامی بندھن ہی نہیں لہذا کل کلاں کسی بھی بات کو بنیاد بنا کر کوئی بھی ایک فرد رشتے کو توڑ سکتا ہے اور اس پر برا منانا بے کار ہے۔ تاہم جب تک وفا نامی شے کا وجود رہے گا تب تک پیسے یا کسی اور دنیاوی خواہش کے تحت نکاح توڑنا بے وفائی ہی کہلائے گا۔ یاد رہے، عورت یا مرد دونوں کو یہ اختیار قانون بھی دیتا ہے اور مذہب بھی کہ وہ جب چاہے نکاح کے بندھن سے آزادی اختیار کر لیں تاہم معاشرتی اعتبار سے اسے بہرحال غلط ہی سمجھا جائے گا۔ ←  مزید پڑھیے

اک عہد وفا تمام ہوا ۔۔۔ معاذ بن محمود

اپنے ابتدائی عہد میں اندرونی خلفشار و ریشہ دوانیوں کے عدم میں آپ نے مکمل یکسوئی کے ساتھ انہیں تخلیق کیا اور پھر اپنا پورا وقت ان کے خلاف جدوجہد میں گزارا۔ آپ کا آخری وقت مہم جوئیوں کا دور رہا۔ اس دوران آپ نے اپنے ادارے اور اپنے منصب کی پرواہ کیے بغیر بلا تفریق ہر گدھے، گھوڑے، کتے، بلی یعنی ہر سولین کے ساتھ کامیاب محاذ آرائی فرمائی۔ آپ تاریخ کے پہلے افسر اعلی تھے جو اپنا لکھا پھاڑ کر رجوع کے فضائل سے مستفید ہوا کرتے۔←  مزید پڑھیے

ہیں حاجی؟ توں ہن ایویں کریسیں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

سول سپریمیسی کے سابق ایڈووکیٹ ہونے کا اعزاز رکھنے کے باوجود اس نظریے کے ساتھ بالجبر کی توجیہہ دے کر آپ نے فواد چوہدریوں جیسے ف چ قسم کے انسانوں کی صف میں اپنا نام کامیابی سے لکھوا لیا ہے۔ ہماری جانب سے اس عظیم کارنامے پر اخراجِ تحسین قبول فرمائیے۔ ہو سکے تو اس کے بعد یہ مشورہ بھی دیجیے کہ ووٹ کو عزت دو کے نعروں کا کیا کرنا ہے؟←  مزید پڑھیے

قصہ حجر اسود تک رسائی کا۔۔۔ معاذ بن محمود

کافی دیر تک غور کرنے کے بعد غور فکر میں اور پھر ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کی شکل میں بدل گئی کیونکہ جس جانب میں نے جانا تھا وہاں سے تو ایک جم غفیر جسم پر کفن نما احرام باندھے میری ہی جانب چلے آرہا تھا۔ سوچا تھا تیس کے پیٹے میں چلتا “کڑیل جوان” ہوں، دیکھ لوں گا کون روکتا ہے۔ پر صاحب، دو چار گھڑی ٹس سے مس نہ ہو پایا تو کعبہ کے سامنے موت کی فضیلت دماغ میں ابھرنے لگی۔←  مزید پڑھیے

یہ کیا جج صاحب؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

کیا آپ بھی عوام کو گوبھیاں سمجھتے ہیں کہ جو ذاتی خلش کو گھٹیا پن کی اس نہج تک لے جائے گی؟ کیا آپ کو لگتا تھا کہ ہم مشرف سے اختلاف نہیں نفرت رکھتے ہیں اور نفرت بھی آپ کے درجے کی کہ جس پر ہم اس سطح پر چلے جائیں گے جہاں آپ ہیں؟ جج صاحب کیا ہم آپ کو ایک سازش کا حصہ مان لیں جس کے تحت آپ نے ایک درست فیصلے میں ایک ایسی ذیلی شق ڈال دی ہے جو پورے فیصلے پر حاوی ہو کر آئیندہ کے لیے ایسے فیصلوں پر پہنچنا مشکل تر بنا ڈالے گی؟←  مزید پڑھیے

گدھوں خچروں کا معرکہ اور لنگور کا فیصلہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

اس کے بعد ہر گروہ دوسرے کو نیچا دکھانے کے درپے ہوگیا۔ جنگل کے سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن جاری تھا۔ گدھے خچروں کو اپنی اولاد میں سے ہونے پر پھبتیاں کسے جارہے تھے۔ خچر تھے کہ گدھوں کو اپنی جسمانی فضیلت پر نیچا دکھانے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ طوفان بدتمیزی زور و شور سے جاری تھا کہ سرکار نے ان دونوں کے درمیان تصفیہ حل طلبی کے لیے لنگور کی عدالت میں بھیج دیا۔ ←  مزید پڑھیے

بخدمت جناب۔۔۔ معاذ بن محمود

بعد سلام عرض ہے کہ بندہ ناچیز محسوس کرتا ہے کہ احقر دور حاضر کے مقبول فنون لطیفہ و دلچسپیات ما بعد از کار ہائے وظیفہ کا کسی حد تک واقف کار ہے۔ غریب، قطعہ ریاست مملکت پاکستان کے ایک مخصوص حصے میں بند بھی نہیں رہا لہذا خود کی بابت کنویں کے مینڈک والا حساب بھی بعد از قیاس محسوس کرتا ہے۔←  مزید پڑھیے

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے ۔۔۔ معاذ بن محمود

جہاد کی اصل جہد ہے۔ جہد مطلب کوشش کرنا، دوڑ دھوپ میں جتے رہنا۔ نئی پیڑھ اقبال کو ہلکا لیتی ہے حالانکہ علامہ صاحب دہائیوں پہلے حیات مجاہدوں کے ذوقِ خدائی کے بارے میں تنبیہ دے گئے تھے۔ ظاہر ہے تب کی مجبوریاں الگ تھیں۔ سیدھی جگتیں مار نہیں سکتے تھے کہ سنجیدہ شخصیت تھے۔ اوپر سے مجاہد تب بھی ایسے ہی جلالی تھے۔ جوابِ شکوہ کو آپ ناروے واقعے کے بعد ٹیلی نار کی جانب سے معذرت خواہانہ ٹویٹ کا مترادف سمجھ لیجیے۔ زندگی بھلا کسے پیاری نہیں ہوتی۔ اقبال کو بھی پیاری تھی۔ تبھی مجاہدوں کے بارے میں ذوق خدائی جیسی ذو معنی حقیقت لکھ گئے۔←  مزید پڑھیے

خوف ۔۔۔ معاذ بن محمود

اس کے آگے کئی گاڑیاں خود پر مختلف نام سجائے طبقاتی تفریقات کے تکبر میں غرق رواں تھیں۔ اس کو مگر گاڑیوں کے رنگ نسل سے کہیں زیادہ اندھیرے میں ان کی سرخ روشنیاں پرکشش لگ رہی تھیں۔ وہ فاسٹ لین میں انہی روشنیوں میں گم اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا کہ اچانک۔۔۔←  مزید پڑھیے