مرغوں پر مضمون ۔۔۔ معاذ بن محمود

راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس سے پہلے مختلف وجوہات کے باعث دیگر حیوانات مثلاً کتوں، گدھوں اور بکروں پرمضامین شائع کر چکا ہے۔ بظاہر یہ کوئی کارنامہ نہیں تاہم انعام بھائی کے نئے عشق، زیرِ اعلی بزدار کے فیس بکی وکیلوں اور شریفبرادران کے گونگے پن کو مدنظر رکھتے ہوئے بالترتیب کتوں، گدھوں اور بکروں پر مضامین اہمیت اختیار کر لیتے ہیں۔ حال ہی میںخان صاحب کے کتے ٹائیگر کے نام سے غیر معمولی طور پر حیران کن (اتفاقیہ) مماثلت رکھنے والی ٹائیگر فورس کے قیام پر چند انصافیبرادران اپنے سیاسی مخالفین کی ماؤں بہنوں پر مغلظات بکتے دکھائی دیے۔ اس وقت احقر بس یہ بتلانا چاہے گا کہ مرغوں پر یہ مضمونلکھتے ہوئے تخیل میں فقط ایسے ہی خرافاتیوں کی تصویر ہے۔ ایسے مرغوں کو انگریزی میں Cock کہتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا مرغے کو انگریزی میں Cock کہتے ہیں۔ کہتے تو Rooster بھی ہیں۔ شاید کچھ اور بھی کہتے ہوں۔ میرا خیال ہےCock اور Rooster کے درمیان یہ فرق ماہر لسانیاتِ انگلیسی ہی واضح کر سکتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ لندن میں مقیم میرے ماہرلسانیات دوست روزانہ کی بنیاد پر اپنی وال پر ۱۰۱۲ Cock ذبح کر کے بلاکستان بھیجتے ہیں لہذا اس ضمن میں ان کی تحقیق قابل دیدہوگی۔

مرغا ایک نہایت ہی لطیف اور نازک جاندار ہے۔ اس کا سر، دھڑ کی نسبت پتلا اور لمبا جبکہ دھڑ سر کی نسبت بھاری اور بیضوی ہواکرتا ہے۔ اس بھاری بھرکم دھڑ سے وہ کئی اہم کام لیا کرتا ہے جن کی منصوبہ بندی اس کے سر کے بالکل اوپری سرے پر واقعدماغ میں ہوا کرتی ہے۔ سر اور دھڑ کا یہ باہمی اشتراک ہی دراصل مرغے کی بقاء کا ضامن ہوا کرتا ہے۔

مشاہداتِ انسانی، ذخیرۂ علم کے ارتقاء میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے یہ باور کرواتے ہیں کہ مرغا اپنی صنف مخالف کی جانب سے بے حدزیادہ کشش کا سامنا کرتا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جائے کہ آج کل ہر دوسرا مرغا صنف مخالف کا پیچھا کرتا دکھائی دیتاہے۔ ظاہر ہے کشش ہے تو پیچھا کرنا پڑ جاتا ہے وگرنہ مرغا اتنا فارغ کہاں؟ مرغا اپنی صنف نازک کے پیچھے کہیں سڑک پر بھاگتا توکہیں دیواریں پھلانگتا اور کہیں جگہ مانگتا دکھائی دیتا ہے۔ صنف مخالف سے اس مضمون کے توسط سے استدعا ہے کہ اپنی کشش یارسائی کسی ایک پر نظر ثانی کیجیے۔ شاید اس طرح ہم اپنے معصوم چوزوں کو بکرا خصلت کلغی بردار مرغوں کے عتاب سے بچانےمیں کامیاب ہوجائیں۔

راقم یہاں حلفاً بیان دیتا ہے کہ اس مضمون کی تحریک اسے ایک خواب کی شکل میں ملی۔ ناچیز اسے بشارت کہنے سے قاصر ہے کہبشیر کی جانب سے بندہ بشر کو اس قسم کی بشارت کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آتی۔ وبائی ایام میں خودکشی کی جانب رواں دواںاجسام کے چہرے پر تبسم کا ظہور البتہ ایک اور فقط ایک جائز وجہ ہو سکتی ہے۔ فقہاء کی جانب سے البتہ بشارت دینے پر قادر قادر کاتصور اس قدر سخت ہے کہ بندہ کسی قسم کی توہین سے پاک رہنا بہتر سمجھتا ہے۔ پس میرا ماننا ہے کہ مذکورہ بالا خواب پچھلی راتکو تناول شدہ لوبیے کا ثقیل اثر رہا ہوگا۔ زندگی بھلا کسے پیاری نہیں؟

ہمارے پیارے ملک پاکستان میں مرغے کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہاں جانوروں کے حقوق کا تصور دیگر حیوانات کےمعاملے میں عنقا ہونے کے باوجود مرغوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مانا کہ مرغا حلال طریقے سے تیار ہوا ہو تو بھوک مٹانےواسطے عین حلال ہے تاہم اس کے باوجود مرغوں پر کی جانے والی محنت قابل ذکر ہے۔ ہمارے یہاں انواع اقسام کے ماہرینلاتعداد کشتے کشید کر کے مرغوں کی پرورش کرنے میں بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ ان ماہرین کا دعوی ہوتا ہے کہ ان کے کشتے مرغوں کیاکڑ اور تندرستی کے لیے اکسیر کا کام کیا کرتے ہیں۔ راقم الحروف ایسے تجربات سے دور رہتا ہے لہذا ایسے دعووں کی حقانیت کیبابت خاموشی بہتر سمجھتا ہے۔

ہمارے گاؤں دیہات میں مرغے لڑانے کا قبیح فعل آج بھی جاری و ساری ہے۔ مرغوں کی یہ لڑائی سروائول آف دی فٹیسٹ کیکلاسیکی مثال کے طور پر لی جاسکتی ہے۔ مرغوں کی اس لڑائی میں عمر کی تخصیص نہیں کی جاتی البتہ دیکھا گیا ہے کہ مرغے لڑانے کایہ شوق پکی عمر کے ٹرک ڈرائیورز سے کسی قدر زیادہ منسوب ہے۔ ریاست میں معاشرتی، مذہبی اور قانونی طور پر عملِ بد سمجھے جانےکے باوجود یہ قبیح فعل رفتہ رفتہ دیہات سے شہروں کی جانب رخ کر چکا ہے۔ شہری علاقہ جات میں کئی رنگوں والے جھنڈوں کےذریعے مرغے باز اس فعل کو جائز کرنے کی تحریک چلانے کے درپے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لکھاری کی دانست میں مرغا ایک معصوم جانور ہے تاہم واقعات و مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ بسا اوقات انسان مرغے کو پالنےکی بھائے مرغا انسان کو پالنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں مرغے کی حیوانی جبلت انسانیت پر غالب آجایا کرتی ہے اور حیوانیتکے ظالمانہ مظاہر سامنے آنے لگتے ہیں۔ راقم کا ماننا ہے کہ مرغے کو ہمیشہ انسان کے زیراثر ہونا چاہئے ناکہ مرغے کو سر پر چڑھا کرفیصلے کرنے چاہئیں۔ اسی میں ملک و قوم اور ہمارے چوزوں کا بھلا ہے۔ اسی میں فلاح اور اسی میں عزت ہے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply