اس نے بلا روک ٹوک سڑک پر قدم بڑھائے۔ اپنے دوستوں سمیت دیگر شرکاء کو اکٹھا کر کے ہجوم بنایا۔ بغل سے پلے کارڈ نکالا جس پر جلی حروف میں آزادی کے حصول سے متعلق نعرہ لکھا تھا۔
ہجوم پورا ہونے کے بعد نعرے بازی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اب تک اسے کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ سڑکیں جیسے انہی سب کے لیے بنی ہوں ناکہ گاڑیوں کے لیے۔
“میں بھی لگاؤں گی نعرے” اس نے سوچا۔ اور لاؤڈ سپیکر آن کر کے باآواز بلد چلانا شروع کر دیا۔
“ہم چھین کے لیں گے آزادی”
وہ سڑک پر آنے کو بھی آزاد تھی، ہجوم کا حصہ بننے کو بھی آزاد تھی اور لاؤڈ سپیکر پر نعرہ لگانے کو بھی۔ مگر اسے مزید آزادی چاہئے تھی۔
پاس ہی کہیں کسی محلے میں جنت بی بی پانچویں بیٹی جننے کے قریب تھی۔ وہ آخری روٹی ڈال ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ روٹی جل نہ جائے یہ سوچ کر اس نے روٹی توے سے اتار کر دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ دستک تیز ہوتی رہی۔
روٹی اتار کر حمل کے ساتھ بھاگتی ہوئی دروازے پر پہنچی اور چٹخنی کھول ڈالی۔ سامنے نیاز کو دیکھ کر اس کا رنگ فق ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گلابی گالوں پر جڑا جا چکا تھا۔
“بہن چ** کی بچی۔۔۔ تو کس یار کے ساتھ مصروف تھی جو اتنی دیر لگا دی؟ وہاں ان کنجریوں نے سڑکیں بند کر رکھی ہیں اور یہاں تو مری پڑی ہے؟”

دور کہیں بیرون ملک بیٹھے دو جوان فیس بک پرعورت مارچ کو لے کر ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں