مذہب،معاشرہ اور خواتین کی آزادی۔۔کاشف حسین سندھو

مجھے خواتین کی آزادی کے لیے لبرل سیکولر کا ٹیگ لگوانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ مذہبی دوستوں کی عام رائے کے مطابق تو چونکہ مجھے بطور لبرل سیکولر پرسن بے راہ روی کا شوق تھا تو اس لیے میں نے ایسا کیا ہو گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہے، مجھے اسکی ضرورت قطعی داخلی احساسات کی وجہ سے محسوس ہوئی مثلاً
مجھے بچپن میں جب بھی گھر سے باہر والدہ بہنوں کے ساتھ نکلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایسے ہر پاکستانی مرد کی طرح میرے دماغ میں بھی ان سکیورٹی جگہ بنا لیتی تھی جو خواتین کے ساتھ گھر سے نکلا ہے اور سماج کے مردوں کے رویے ہی اس انسکیورٹی کی وجہ ہوتے ہیں میں کبھی اپنی فیملی کے ساتھ مکمل تحفظ کے احساس کے ساتھ ایسی گیدرنگ کو انجوائے نہیں کر پایا مجھے اس بات سے بھی چڑ ہونے لگی کہ اسلامی جمہوریہ کہلانے والے ملک میں مجھے اپنی والدہ، جوان بہنوں کے تحفظ کے لیے عام طور پہ چاہے انہیں شاپنگ پہ جانا ہو یا دو گھر چھوڑ کر گلی میں کسی ہمسائے کے گھر جانا ہو ساتھ جانا پڑتا تھا (آپ اسلامی بھائیوں پہ اتنا اعتبار بھی نہیں کر سکتے اکیلی عورت کا کہیں بھی جانا آسان نہیں ہے، مرد کا ساتھ نہ  ہو تو وہ کسی دوسری عورت کو ساتھ لے گی اور کچھ نہ ملا تو کسی بچے کی انگلی پکڑ کر اسے ساتھ گھسیٹ لے گی ) پھر میری شادی ہوئی مجھ میں بہت مدت بعد دوبارہ سے فیملی کے ساتھ آؤٹنگ کی خواہش پیدا ہوئی لیکن اسکے لیے بھی مخصوص جگہیں ہی میسر تھیں ریسٹورینٹس ، آئسکریم پارلر، شاپنگ مال وغیرہ ۔ اگر میرا اور مسز کا دل کرے کہ ہم گلی میں ریڑھی پہ کھڑے ہو کر گول گپے کھائیں ،بارش میں پیدل واک پہ نکل جائیں گھر کے پاس موجود پارک میں بینچ پہ بیٹھ کر گپیں لگائیں تو یہ ممکن تو شاید تھا لیکن لوگوں کی مرتکز نگاہیں آپکو اس ایکٹیویٹی کو انجوائے نہیں کرنے دیتی تھیں ہاں آپ ڈھیٹ بن کے یہ سب کر سکتے ہیں (چند بڑے شہروں کے پوش ایریاز اس سے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ وہ عموم کی ذیل میں نہیں آتے)
میری مسز اپنے کالج میں ایتھلیٹ تھیں انہیں رننگ کا شوق تھا شادی کے بعد کچھ عرصہ تو انہیں اسکی یاد نہ  آئی لیکن جب جسم پھیلنے لگا تو اس نے گھر میں ہی ایکسرسائز شروع کر دی لیکن اسکی تسلی نہیں ہوتی تھی کیونکہ اسے جو ایکسرسائز سب سے زیادہ پسند تھی وہ اسے انجوائے نہیں کر پاتی تھی گھر کے پاس پارک تو ہے لیکن ظاہر ہے کہ ہم مڈل کلاس سماج میں رہتے ہیں اور اگر میں اسے ساتھ لے جا کر بھی رننگ کرواتا تو پورا پارک اپنا کام چھوڑ کر اسی تماشے کو انجوائے کرنے لگتا تب ایک دن اسکے منہ سے نکلا کہ ہمارے مرد کتنے خوش قسمت ہیں کہ وہ جو چاہیں جب چاہیں کر سکتے ہیں ہمیں قدم قدم  پر اپنی جائز ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دل پہ پتھر رکھنا پڑتا ہے میں نے اسکی بات پہ غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا سماج عورت کے لیے قیدخانہ ہے، میں گرمی کے موسم میں کسی نہر دریا ٹیوب ویل پہ جب چاہوں کپڑے اتار کر ڈبکی لگا سکتا ہوں لیکن میرے سماج کی عورت اس نعمت سے پورے کپڑوں میں بھی مستفید نہیں ہو سکتی اسکا بھی کبھی دل کرتا ہو گا کہ وہ زندگی کی بوریت سے اکتا کر اکیلی کہیں گھوم پھر آئے لیکن وہ اس خواہش کو دل میں دبائے رکھتی ہے، آج بھی ہماری عورت کار چلا لیتی ہے بائیک نہیں چلا سکتی کیوں؟
شاید آپ نے بھی کبھی اس بات پہ غور نہ کیا ہو کہ ایسا کیوں ہے لیکن اگر آپ غور کرینگے تو نہایت آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ اسکی واحد وجہ ہمارے سماج میں چھیڑچھاڑ کی روایت ہے کوئی بھی مرد بائیک پہ جاتی عورت کو ہاتھ لگا  سکتا ہے کار میں یہ ممکن نہیں ہے، ہماری عورت اگر خاوند کی بیماری یا بیروزگاری کیوجہ سے کمانے پہ مجبور ہو جائے تو اگر وہ پڑھی لکھی نہیں ہے اور میڈیکل ٹیچنگ کا شعبہ نہیں اپنا سکتی تو وہ چند مخصوص کام ہی کر سکتی ہے وہ مرد کی طرح گلی محلے میں دکان نہیں کھول سکتی کباب کا ٹھیلہ نہیں لگا سکتی ٹیلرنگ کوکنگ اور ایک دو اور شعبے چھوڑ کر وہ بیشمار دیگر شعبوں میں قدم ہی نہیں رکھ سکتی وہ میسن پلمبر فٹر الیکٹریشن نہیں ہو سکتی یعنی پڑھی لکھی یا ان پڑھ ہر دو صورتوں میں وہ سیلیکٹو جابز ہی کرے گی اسی طرح آپ غور کرتے جائیں گے تو آپ بیشمار پابندیوں کو جان سمجھ لیں گے جو عورت پہ نافذ ہیں لیکن آپ نے کبھی اس بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کی ہے اور آخر میں دو لفظی بات جو میں کئی بار دوہرا چکا ہوں کہ سوال یہ ہے کہ آخر ہمارا مرد عورت کے بارے اتنا شوہدا کیوں ہے ؟ وجہ صرف ایک ہے کہ ہم نے مرد عورت کو پیدا ہوتے ہی الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا، دونوں کے بیچ مذہب کے نام پہ دائرہءکار کی دیوار کھڑی کر دی، دونوں کو ایک  دوسرےپہ اعتبار نہیں سکھایا، بے اعتباری سکھائی پردہ کرو ,مردسے دور رہو ،بات مت کرو، نتیجہ یہ کہ مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد ہوّا بن گیا ،جب آپ بچے میں تجسس کو  جنم دینگے تو وہ اسے ختم کیے بناء مطمئن نہیں ہو گا ،مرد عورت کے بیچ موجود اس پردے کو ختم کر دیں وللہ اس نے فائدہ نہیں نقصان کیا ہے ،دونوں جنسوں کو درسگاہ سے ایک ساتھ پالنا شروع کریں ،مغرب سے مطمئن نہیں ہیں تو ملائشیا ہی کو فالو کر لیں، جہاں عورت حجاب لے کے مرد کے ہمراہ ہر شعبہء زندگی میں صدیوں سے موجود ہے، دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے جبکہ ہماری لڑکیاں مولانا طارق جمیل کے کہنے پہ مکمل نقاب کے ساتھ عملی زندگی چھوڑ کر گھروں میں بیٹھنا پسند کر رہی ہیں کہ یہی اسلام کا حکم ہے اور مزید یہ کہ مرد ایکٹرز شوبز چھوڑنے کے فخریہ اعلان کرتے پائے جاتے ہیں ۔ذرا سوچیے تو سہی کہ کیا عرب کلچر کے رواج جس پردے کو شرعی بتایا جاتا ہے اسے اختیار کر کے ہماری دیہی عورت اپنے وہ کام انجام دے سکتی ہے، جو وہ صدیوں سے کرتی آ رہی ہے ؟ جانے دیجیے یہ چونچلے صرف شہری مڈل کلاس عورت ہی پال سکتی ہے کبھی تو دین کو سماج کے عمل کے ساتھ جوڑ کر دیکھیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply