فکر اور اندازِ فکر/ادریس آزاد

فکر عقلی عمل ہے لیکن اندازِ فکر جذباتی۔ فکرکے لیے عقل استعمال ہوتی ہے لیکن اندازِ فکرکے لیے جذبات۔ فکرکے عمل سے نتائج وجود میں آتے اور ذخیرۂ علم میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جذبات کے متواتر اظہار سے مزاج مرتب ہوتا ہے اور شخصیت اپنی شناخت کے راستے پر آگے بڑھتی ہے۔ اندازِ فکر یعنی سوچنے کا انداز جذباتی عمل ہے جبکہ بذاتِ خود فکر یعنی سوچنا عقلی عمل ہے۔ ایک لحاظ سے یہ فکر اور جذبات کا مقامِ اتصال ہے، یعنی اندازِ فکر،مثلاً اندازِ فکر مایوس ہو سکتا ہے جسے قنوطی کہتے یا اندازِ فکر اُمید پسند ہوسکتا ہے۔

اسی طرح اندازِ فکر جارحانہ ہو سکتا ہے یا متحمل اور معتدل ہو سکتا ہے۔ اندازِ فکر مزاج کی وجہ سے ہے اور مزاج جذبات کے متواتر اظہار سے وجود میں آتے ہیں جبکہ فکری عمل یعنی سوچنا، یہ عقل کا وظیفہ ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک ہی نکتہ ہے، جس پر غور کرنا ہے اور غور کرنے والے دو مختلف المزاج اشخاص ہیں۔ ایک شخص طبعاً قنوطیت  پسند ہے اور دوسرا پُرجوش طبیعت کا مالک ہے۔ سوال یہ ہے کیا وہ دونوں ایک ہی نکتے پر سوچتے ہوئے ایک جیسے نتیجے پر پہنچیں گے؟

بظاہر دیکھا جائے تو جواب ہوگا کہ “ہاں”۔ وہ دونوں ایک ہی جیسے نتیجے پر پہنچیں  گے، کیونکہ جس شئے کے بارے میں نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں وہ تعقلی ہے۔ مثلاً اگر وہ سوچ رہے ہیں کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں تو دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہوگا کہ چار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات جتنی سادہ نظر آتی ہے، اتنی سادہ ہے نہیں۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں ایک منطقی مقدمے کا نتیجہ ہے اور لازمی بات ہے کہ جواب درست آئے گا اور ایسے منطقی نتائج پر مزاج اثر انداز نہیں ہوتا لیکن منطق جوں جوں پیچیدہ ہوتی جاتی ہے اندازِ فکر نتائج پر اثر انداز ہوتا چلا جاتا ہے۔

انداز فکر کئی طرح کا ہوتا ہے لیکن اس کی بڑی قسمیں دو ہیں۔ رجعت پسند اور رجائیت پسند،قنوطی اور پُراُمید، سکون پسند اور حرکت پسند، ساکن اور متغیر، سٹیٹک اور ڈائنامک۔

اندازِ فکر سے نتائجِ فکر بھی دو ہی طرح کے مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ دنیا میں دو طرح کے نظام ہائے فکر پروان چڑھتے چلے آئے ہیں۔ ایک ساکن دوسرا متحرک ہے۔

ڈارون کے نتائج پر غورکریں تو حیرت ہوتی ہے۔ درست ترین علوم تک رسائی کے باوجود ڈارون نے بالآخر نتائج اخذ کیے تو دنیا مایوسی اور قنوطیت کے دلدل میں گرتی چلی گئی۔ کیونکہ یہ ڈارون کا اندازِ فکر تھا جو چند مخصوص نتائج تک پہنچا۔ ڈارون کے نتائج نے غم و اندوہ کو ترقی دی ہے۔ دو عظیم جنگیں اس کی گواہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال یہ ہے کہ ایسے نظام ہائے فکر کیوں نمودار اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا تعلق معاشرے کی تاریخی ساخت اور حیثیت کے ساتھ ہے۔ تاریک ادوار میں لوگ وجودی ہوتے ہیں بایں ہمہ مایوس۔ تب “جاگ اُٹھو” جیسے نعرے اقوام کی ضرورت ہوتے ہیں اور بالآخر متحرک اندازِ فکرکے مفکرین پیدا ہوتے ہیں جبکہ روشن ادوار کے روشن معاشرے عظمت کی بلندیوں پر اپنے وجود کی سرمستیوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ سب کچھ تو رُک گیا۔ جبکہ سب کچھ رُک چکا ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply