اسلامک ٹچ یا سراسر منافقت۔۔عبدالرؤف

پچھلے دنوں ایک مشہور سیاسی جماعت کا اسلامی ٹچ والا  فقرہ مشہور ہوا تھا، جسے لوگوں نے چند دن  انجوائے کر کے فراموش کر دیا، مگر مجھے در حقیقت وہ شخصیت انتہائی ذہین اور شاطر لگی، کیوں کہ آنجناب  قوم کی نبض اور کمزوری کو سمجھ چکے تھے کہ اس قوم کو کس وقت کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے، یہی آج کل مروجہ طرز سیاست اور اسمارٹنیس ہے کہ کس وقت کون سا پتہ کھیلنا ہے۔ ایسی منافقانہ روش ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ ایک بندہ کمینگی کی انتہاؤں کو چھوتا ہوا چشم زدن میں اسلامک ٹچ کے ساتھ ایسے رنگ بدلتا ہے کہ دیکھنے والے گرگٹ کو بھول جائیں، کسی زمانے میں لوگ اس روش کو منافقت سے تعبیر کرتے ہوں گے مگر موجودہ زمانے میں یہ ایک بہترین آرٹ ہے، ایسے شخص کو اسمارٹ تھنکر اور کویک لرنر کہتے ہیں، ایسے شخص کو اپنے ماضی کے کسی قول و فعل کا پاس نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ ماضی کے کسی قول و فعل کا خود کو جواب دہ سمجھتا ہے۔
خیر ہمارے ملک میں قوم کو اسلامک ٹچ کے نام پر جس قدر دھوکہ دیا گیا ہے اتنا شاید کسی اور چیز سے نقصان پہنچایا گیا ہو، اسلامی جذبے کی شہہ پر ملک بنا تو اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اسلامی ٹچ دے دیا گیا، آئین اور قانون کی باری آئی تو قرآن و سنت کی بالا دستی کی چھتری اور وفاقی شرعی عدالت کی لاچار اور مجبور باڈی کی صورت میں اسلامی ٹچ دے دیا گیا، مقننہ اور قانون سازی کی بات ہوئی تو وفاقی مذہبی امور کے نام سے صرف سفارشاتی ادارے کا اسلامی ٹچ کے ساتھ لالی پاپ تھما دیا گیا، ملک کی معیشت کی بات ہوئی تو انہیں سرمایہ داروں نے ٹوپی تسبیح کے ساتھ بینکاری کو اسلامی ٹچ دیکر ایک آپشن کے طور پر مہیا کردیا گیا، ساتھ ہی ساتھ اللہ اور رسول کے خلاف اعلان جنگ کے لیے بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی رواں دواں معیشت میں موجودہ غیر سودی بینک کاری نظام ہی سب سے زیادہ فعال اور کارگر ہے مگرطبقہ منافقین اور آپرچیونسٹس کی بدنیتی سے آئندہ اس نظام کا کیا سے کیا ہو جائے کچھ معلوم نہیں، سود کے  خلاف حالیہ فیصلے پر اپیل میں ریاست پورے طور پر شامل ہے اور اس معاملے میں اداروں کی بدنیتی روز روشن کی طرح واضح ہے، اتنے اہم معاشی مسئلہ پر حکومت نے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی صورت میں اتنا بڑا چیلنج جو ہے اسے اسلامی صورت میں کیسے ڈھالنا ہے؟ ملک کے گردشی قرضوں کےلیے مستقبل میں کیا حل ہوسکتا ہے؟ ایسے سنگین اور سنجیدہ موضوعات کے لیے نہ کوئی کمیٹی بنائی گئی اور نہ ہی کوئی ریسرچ کانفرنس کی گئی، خاموشی سے جاکر اپیل درج کروادی، عدالت اور حکومت سے اپیل ہے کہ ایسے کام چوروں کو سخت جرمانے اور سزائیں دی جائیں اسی میں ریاست اور قوم کی فلاح ہے، ورنہ سودی نظام معیشت ملک و قوم کےلیے بربادی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply