جاتی عمرہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق ولی کو بھی جوانی تک ولایت کا علم نہ تھا۔ تب مذکورہ سابق ولی گاڑیوں کے ساتھ شاہدرہ کی پہاڑیوں پر تصویریں کھنچوایا کرتا۔ پھر اس نے بحالت مجبوری ایک ڈنڈا پیر کے ہاتھ پر بیعت کا اعلان کیا۔ یہاں سے اس پر ادراک کے کشف منکشف ہوئے اور وہ صوبائی ولایت سے ہوتا ہوا وفاقی ولایت تک تین بار کامیابی سے پہنچا۔ یہ شخص ولایت کے درجے پر کئی دہائیوں تک فائز رہا۔ پھر ایک دن اسے معلوم ہوا کہ اسے تفویض کردہ ولایت تو محض نام کی ہے، اصل اختیار تو آج بھی پیرِ کامل کے پاس ہے۔ معاملہ اختیار تک ہوتا تو بات قابلِ فہم بھی رہتی، پیرِ کامل دراصل ولایت کے مالیات یعنی چندے کے ڈبے تک پر سانپ بن کے براجمان رہتے ہیں۔ جس دن سابق ولی کو یہ معاملہ سمجھ آیا، اس نے نے اختیار و مالیاتِ اعلی کے لیے جدوجہد شروع کر دی جو پیرِ کامل کو ہرگز پسند نہ آئی۔
← مزید پڑھیے