چئیرمین نیب اور نظریاتی زومبی ۔۔۔ معاذ بن محمود

کئی ماہ ہوئے سیاست پر لکھنے سے طبیعت بیزار ہے۔ تبدیلی کے نام پر مایوسی کی جو دلدل سجائی گئی ہے اس کے ثمرات یہ ہیں کہ اب کئی سنجیدہ مقلدینِ طریق عمرانیہ بھی ہمارے لکھے کو پڑھنے لگے ہیں۔ قیامت یقیناً قریب ہے۔ یہی دلدل ہے جس کے باعث سیاسی منظر نامے سے بحیثیت مجموعی دل اچاٹ ہے۔ تاہم قوم الباکستانی کبھی مایوس نہیں چھوڑتی۔ مزاجی تنوع پر غور کیجیے گا کہ ایک جانب ایک پاکستانی دل کے اچاٹ ہونے کی شکایت کر رہا ہے تو دوسری جانب ایک اور پاکستانی بوس و کنار کے عزم کا اعادہ کر رہا ہے۔ بقول مدیر اعلی جناب انعام رانا، “ہم ایسی مذہبی قوم ہیں کہ چمی چاٹا بھی انشااللہ کہہ کر پلان کرتے ہیں۔ الحمداللہ”۔ 

تو صاحب، خبر جو کہ ان سطور کے شائع ہونے تک یقیناً باسی ہوچکی ہوگی، یہ ہے کہ چئیرمین نیب صاحب ایک خاتون کے ساتھ مبینہ طور پر انتہائی نجی خواہشات کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ قارئین کی اکثریت نارمل ہوگی اور یوں نہ آپ میں سے کوئی مدینہ سے پیدل آیا ہوگا اور نہ حکیم سے علاج جاری ہوگا۔ میرا مطلب ہے آپ سب کی بھی کوئی “پولی پولی” خواہشات ضرور ہوں گی لہذا حاجی بن کر چئیرمین کے خلاف دل کی جلن المعروف “ساڑ” نکال کر اپنے ظرف کی نمائش چاہیں تو کر سکتے ہیں مگر ایسی باتیں محض کوئی پچھلا حساب چکتا کرنے کے زمرے میں ہی مانا جائے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس طرح بشیرے چرسی سے آنے والے رمضان یا عید کے چاند کی شہادت اس کی وجہ تسمیہ کے باعث رد کر دی جاتی ہے ویسے ہی، اب کے بعد حاجی چئیرمین صاحب کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ضرور کھڑا ہوگیا ہے۔ یہ اعتراضات کوئی خاص معنی نہیں رکھتے کیونکہ انہیں پتھر مارنے والے ہاتھ خود معصوم بچیوں سے لے کر بے زبان کھوتیوں کے جنسی استحصال میں لتھڑے پڑے ہیں۔ ایسے میں مبینہ طور پر مرضی کے ساتھ ایسی کہانی کی بنیاد پر کردار کو لے کر واویلا مچانا منافقت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوگا۔ 

لیکن حضرات و خواتین، آپ کو کیا لگتا ہے ہم جیسے استقامت سے بھرپور (ڈھیٹ پڑھیے) شخص کا دل سیاست سے ویسے ہی اچاٹ ہوگیا؟ اجی اس قدر منافقت ہے کہ پوچھیے مت۔ چلیں مستقبل بہت قریب میں پیش آنے والی ایک ممکنہ خبر کا خباثت سے بھرپور غیر منافقانہ تجزیہ کرتے ہیں۔ اب سے کچھ دن بعد زیرِاعظم (“و” جانتے بوجھتے ہٹایا گیا) عمران خان نیب چئیرمین سے متعلق حالیہ ویڈیو کے بعد ان کے کردار کو لے کر موصوف کو برطرف کریں گے۔ میری بیچارگی دیکھیے کہ میں سوشل میڈیا کے “ھاھاھاھاھاھاھاھا” کا اپنے مضامین میں کھل کر استعمال کرنے سے قاصر ہوں کہ اسلوب کے خلاف ہے۔ چلیں آپ چشم زدن میں یہ “ھاھاھاھاھاھاھاھاھا” لائیے اور پھر ایک لمحے کو سوچئے۔ خان صاحب یا ان کی کابینہ، کردار کو لے کر کسی کو برطرف کریں گے۔ 

مسکرائیے کہ ایسا کرنے سے خون بڑھتا ہے۔ خون جلانے کو ڈالر ریٹ کافی ہے۔ مسکرائیے کہ یہی دارو اور یہی دوا ہے۔ 

نظریاتی طور پر ہم مردہ قوم ہیں۔ ہمارے ارد گرد ضمیر اور سوچ سے عاری زومبی پھرتے ہیں۔ اور یہ خبیث پھرتے بھی کھلے سانڈ کی طرح ہیں۔ آپ میں سے کچھ بھائیوں بہنوں کو یہ پڑھ کر جلال کا احساس ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو جواب دیجیے۔ چئیرمین نیب کی جانب سے حکومتی اراکین کی مبینہ کرپشن پر لب کشائی ہوتی ہے۔ وزیراعظم کے “دست راست” جناب مراد سعید انتخابات سے پہلے اور وزیرِاعظم خود آج تک بھی کرپٹ اپوزیشن کو الٹا لٹکانے کی وعیدیں سناتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے کا آئینی طریقہ کار نیب سے ہوکر گزرتا ہے۔ نیب حکومتی اثر و رسوخ میں ہونے کی حیثیت سے بدنام ہے۔ پھر عدالتیں بھی انہیں ذلیل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ وزیراعظم انہیں اپوزیشن کا سر قلم کرنے کی تاکید کرتے ہیں مگر اپنے دربار کے حواری بشمول خاندان کے افراد، کرپشن میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ نیب چئیرمین خان صاحب کے دباؤ پر پس و پیش، حیل و حجت سے کام لیتے ہیں۔ مدافعت کا عندیہ دیتے ہیں۔ نجم سیٹھی کی چڑیا چئیرمین نیب پر استعفی کے دباؤ کی خبر پہلے سنا دیتی ہے۔ اور پھر یہ آڈیو کالز اور ویڈیو سامنے آجاتی ہے۔ یہ خبر بریک کون سا چینل کرتا ہے؟ وہی جو “نامعلوم مارخوران” کا بھونپو ہونے کی وجہ سے زبان عام ہے۔ 

میرے جلالی بھائی، کیا آپ یہ چورن خریدنے کو تیار ہیں؟ اس لیے کہ اس وقت اس کی خرید آپ کی ممدوح حکومت کے مردہ گھوڑے کو دوام بخشے گی؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ بھی نظریاتی زومبی ہیں۔ 

یہ ملک “نامعلوم محکمہ زراعت” کا ہے اور ہم اور آپ ہیں خواہ مخواہ اس میں۔ انٹرنیٹ پر کل سے ایک ویڈیو گردش میں ہے جس میں ابناء العساکر مزدور کش افراد سے جھنڈے کی چمی چاٹی کروا رہے ہیں اور اس کے بعد ہی انہیں ایک خاص مقام سے آگے جانے دے رہے ہیں۔ یقین کریں، کل کو یہ موقع کئی جگہوں پر دیکھا جائے گا۔ 

چئیرمین نیب نے اسی قسم کی کسی شرط سے روگردانی کی ہوگی جس کا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔ اے ایمان والوں! ترس کھانا سیکھو۔ یقیناً بابے رحمتے کی بھی کوئی “مجبوری” ہوگی۔

سیاست سے دل بیزار ہے، منافقت سے طبیعت اچاٹ۔ “ان” کی مان لیجیے یا پھر نتائج بھگتنے کو تیار رہیے۔ بقول خبیث شاعر:

کوئی موچی وطن ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

آنکھ دکھانے والوں کی ویڈیو بھی نئی دیتے ہیں

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply