دو دن پہلے ایک تحریری مباحثے پر نظر پڑی جس میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں پولیس کی ناکامی پر اظہار خیال جاری تھا۔ بحث میں ایک قانون فہم محترم اور دو سابقہ پولیس اہلکار بھائیوں کی جانب سے پولیس کی سطح پر انٹیلیجینس کے کردار پر دلائل جاری تھے۔ لب لباب یہ تھا کہ پولیس کے پاس اوّل تو وسائل کی کمی ہے جبکہ دوسری جانب کرپشن کے باعث یہ وسائل مزید کم ہوجایا کرتے ہیں۔ یوں بالواسطہ اثر پولیس کی کارکردگی پر پڑتا ہے اور یہ اثر اپنی قدرت میں منفی ہوا کرتا ہے۔ ذیل مضمون اسی موضوع کی ایک کڑی ہے۔
وسائل کی کمی مثلاً پولیس وین میں معمول کے گشت کے لیے پیٹرول کی فراہمی تک ادھوری ہونا اور اسی نوعیت کی دیگر قلت اس وقت پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس بات سے مجھے وسطی اور جنوبی پنجاب میں محکمۂ پولیس سے تعلق رکھنے والے حاضر اور سابق سروس دوست کئی بار نجی محافل میں آگاہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم مسائل ہیں۔ مثلاً ڈی پی او کی تعیناتی کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں۔ جو بندہ سرکارِ وقت کو پسند آجائے اس کے نام ڈی پی او کا قرعہ فال نکل آتا ہے۔
یہاں سے میڈیا کی بے جا اثر اندازی ایک خرابی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ہر افسر کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ میڈیا کے سامنے رہے تاکہ سرکار کی نظروں میں آکر یہ عہدہ حاصل کر سکے۔ اس کوشش میں ناصرف قابل افسران جو ریاکاری سے بیزار رہنا پسند کرتے ہیں ان کا حق مارا جاتا ہے بلکہ کئی بار منہ کے مجاہد ایک اہم عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ اکثر نااہلی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ میڈیا کا کردار بذات خود جانے انجانے میں سوالیہ بن جاتا ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے میڈیا کی جانب سے اٹھائے جانے والی ہیجان کا نتیجہ سب سے پہلے بغیر کسی تفتیش و تحقیق پولیس افسران کو برطرف کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس طرح تمام پولیس افسران ایک انجانے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے پر معطل نہ ہوجائیں۔
اس کے بعد پولیس کے غیر معمولی اور حساس فرائض کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کے جوانوں کی تنخواہیں کسی طور قابل توجیہ نہیں۔ پولیس کے جوان سرکاری کلرک درجے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ آج کے دور میں کم سے کم عہدے پر بھی کسی جوان کو ۱۵۰۰ روپے بطور ہاؤسنگ الاؤنس اور ۲۲۰۰ روپے راشن الاؤنس دینے کی کیا وضاحت دی جا سکتی ہے؟ ۲۰۱۹ میں کون سا گھر ۱۵۰۰ روپے ماہانہ میں دستیاب ہوتا ہے؟ ۲۲۰۰ روپے میں راشن کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ مزید ستم یہ کہ ہر چھ ماہ بعد تبادلے کی وجہ سے ایک پولیس اہلکار کو دو گھر درکار ہوتے ہیں۔ ایک اپنے لیے ایک گھر والوں کے لیے۔
اس کے بعد مقدمات کے سلسلے میں اوسط ۷ چکر ہائی کورٹ اور ۱۰ چکر ڈی پی او آفس کے لگانے پڑتے ہیں۔ رحیم یار خان کے ایک تھانے کے لیے فی چکر پیٹرول کا خرچ ۲۰۰۰ روپے پڑتا ہے۔ کھانا پینا اس کے علاوہ۔ اس خرچ کو پورا کرنے کے لیے TA/DA الاؤنس نامی الگ سے کوئی شے اب وجود نہیں رکھتی۔ پہلے اس کا نفاذ تھا جو مختلف وجوہات بشمول کرپشن کے ختم کر دی گئی۔ وردی میں پبلک ٹرانسپورٹ قابل عمل نہیں۔ اہلکار کسی طرح ذاتی ٹرانسپورٹ خرید بھی لے تب بھی فیول کا خرچ ایک آسیب سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ کسی اہلکار کے گھر بیماری یا پریشانی یا بچوں کے شادی بیاہ کے لیے نہ کسی قسم کا قرضہ دستیاب ہوتا ہے نہ کوئی امداد۔ ایسے حالات میں رشوت انتخاب نہیں مجبوری بن جاتی ہے۔ یاد رہے ہر اہلکار رشوت لیتا بھی نہیں اور نہ ہی لینا چاہتا ہے۔
محکمے کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کانسٹیبل درجے کا اہلکار تو پھر کسی قدر سکون سے ۱۲-۱۴ گھنٹے کی ڈیوٹی کر کے سونے نکل جاتا ہے تاہم اے ایس آئی اور سب انسپیکٹر سب سے زیادہ خوار کیے جاتے ہیں۔ سارا دن یہ بیچارے ملزموں کو لیے عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں، ان کی پیشیاں بھگتتے ہیں، عدالتوں کے باہر دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں، وکیلوں کی جھڑکیاں دھمکیاں سنتے ہیں، جج کی گالیاں سنتے ہیں، اس کے بعد اسی دن ان کی کسی ایس پی، سی پی او، ایس ایس پی آپریشن کے پاس پیشیاں بھی لگی ہوتی ہیں جو انہیں بھگتانی ہوتی ہیں، پھر ان کی کا رات کو گشت یا پیٹرولنگ بھی لگی ہوتی ہے جو آٹھ گھنٹے تک انہوں نے کرنی ہوتی ہے، انہی مسکینوں نے گاڑی میں پیٹرول بھی ڈلوانا ہوتا ہے اور انہوں نے ہی ساتھ بیٹھے اہلکاروں کو کھانا بھی کھلوانا ہوتا ہے جو نہ کھلوانے پر پیٹھ پیچھے گالیاں بھی کھانی پڑتی ہیں۔
سنہ ۲۰۰۸ کا ایک قصہ بطور مثال ملاحظہ ہو، پانچ نوجوان ۱۷-۱۸ سالہ لڑکوں کا ایک گروہ موبائل چھیننے کی وارداتوں کے سلسلے میں پکڑا گیا۔ ایک پستول بھی برآمد ہوا۔ مخبری کے نتیجے میں یہ سیدھی سیدھی کاروائی تھی جس میں گواہان نے پانچوں مجرمان کو شناختی پریڈ کے دوران پہچان بھی لیا تھا۔ کیس بڑا سادہ سا تھا تاہم پانچ میں سے چار لڑکے اچھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ایس ایچ او پر ڈی پی او کی جانب سے دباؤ تھا کیونکہ ایک سیاسی جماعت کے لڑکے بھی ملوث تھے۔ ایس ایچ او پر یہ دباؤ بھی تھا کہ ان پر عمومی طریقۂ تفتیش جس میں مار پیٹ شامل ہوتی ہے، استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ ایس ایچ او نے سب باتوں پر عمل کیا سوائے آخری بات کے اور تمام لڑکوں کو لتر پریڈ سے گزار دیا۔ تمام لڑکوں ۷۰ کے قریب وارداتوں کا اعتراف بھی کیا۔ اگلی صبح علاقے کا ناظم، جس کی عموماً نہ کوئی خاص پہنچ سمجھی جاتی ہے نہ اثر و رسوخ، نے تھانے پہنچ کر پہلے ایس ایچ او کو برہنہ گالیوں کے تمغے سے نوازا اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس کا تبادلہ بھی کروا دیا۔ پھر ہمیں پولیس کے رویے سے بھی شکایت ہوتی ہے۔
نصف سے زیادہ پولیس فورس زیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن اور جوڑوں کے درد میں مبتلا ہے۔ ۱۸ سالہ ملازمت کے بعد فوجی کو پلاٹ دے کر ریٹائرڈ کیا جاتا ہے۔ محکمۂ پولیس میں ساٹھ سال کی عمر میں بمشکل ریٹائرمنٹ ملتی ہے اس کے باوجود بھی نصف سے زائد پینشن سزاؤں میں کٹ جاتی ہے اور بقایا علاج معالجے میں نکل جاتی ہے۔ پولیس عوامی تعطیلات کے دوران بھی حاضر ڈیوٹی پر ہوتی ہے۔ میرے ایک نہایت ہی قریبی دوست کو ساڑھے تین سالہ دورانیے میں کل ۲۵ چھٹیاں مل پائیں جن میں شادی کی چھٹیاں بھی شامل تھیں۔ یوں۔ حیثیت مجموعی پولیس کا مورال مکمل ڈاؤن ہونا فطری ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ پولیس کے بارے میں عوامی تاثر بھی اچھا نہیں۔
ان تمام مسائل کے ساتھ جان بوجھ کر کی جانے والی کرپشن اور گھوسٹ ملازمین (چاہے تعداد میں بکثرت ہوں یا معدودے) شامل کر دیے جائیں تو وسائل کا شدید قحط پولیس کے نارمل آپریشن کو جاری رکھنے میں ناممکن رہ جاتا ہے۔
ان عمومی مسائل کے علاوہ پولیس کے بنیادی تکنیکی ڈھانچے میں جائے بغیر سرسری الفاظ میں بیان کیا جائے تو ہر تھانے کے پاس ریکی کے لیے کم از کم ایک اہلکار ضرور ہوتا ہے جس کا کام علاقے کے حالات، واقعات اور افراد پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ محکمۂ پولیس کا بنیادی ڈھانچہ انگریز کے زمانے کا مروجہ ہے۔ تب شاید ریکی کرنے والا ایک شخص کسی بھی علاقے کے لیے کافی ہوتا ہو، مگر آج آبادی میں اس قدر اضافے اور روابط کے لیے زیر استعمال جدید طریقوں کے رائج ہونے کے بعد یہ فرد واحد بغیر کسی ٹیکنالوجی اپگریڈ کے نہ تو کافی ہے اور نہ ہی قابل عمل۔ میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں وہاں خود کار نظام کے تحت فون کالز میں خاص منتخب الفاظ کے استعمال پر الرٹ دیے جا سکتے ہیں۔ پاکستانی پولیس کا حال یہ ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک کسی بھی تفتیش کے سلسلے میں موبائل یا فون کل ریکارڈز کے لیے بھی انٹیلیجنس ایجنسیز سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ شاید اب اس معاملے کچھ بہتری آئی ہو لیکن پھر بھی انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم کی تفتیش ایک پولیس اہلکار کرنے سے قاصر ہے۔
ہمارے ماحول میں دو ہی ادارے ایسے ہیں جو معاشرے میں مکمل طور پر اس حد تک گھلے ملے ہیں کہ انٹیکیجنس تحقیقات یا نظر رکھنا ممکن ہو۔ یہ دو ادارے اوقاف (مقامی مساجد کی شکل میں) اور پولیس (تھانوں کی صورت میں) ہیں۔ مولوی کو انٹیلیجینس ذمہ ذمہ داریاں تفویض کیا جانا ناممکن ہے اور پولیس وسائل کی قلت اور کرپشن کے خلاف اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پولیس کو علاقے پر نظر رکھنے کے لیے جو جدید وسائل درکار ہیں وہ کسی اور ادارے کے پاس ہی موجود ہیں۔
ایسے میں ہماری گزارش شاید بلکہ یقیناً کچھ احباب کو بری تو ضرور لگے گی لیکن پھر بھی اپنی ڈھٹائی یا ثابت قدمی جو بھی کہہ لیجیے، کی بدولت ہم عرض ضرور کریں گے کہ ایک خاص ادارے کا بجٹ ہر سال بڑھانے کی بجائے کاٹ کر پولیس کے محکمے پر لگایا جانا چاہیے اور اسے مکمل از سر نو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہیے تاکہ ناصرف یہ محکمہ اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے سکے بلکہ سیکیورٹی معاملات پر جاری ایک محکمے کی اجارہ داری ختم کر کے باقی تمام ایجنسیوں کا مددگار ہاتھ بھی ثابت ہو۔ ماضی میں جو ہوا فرض کریں وہ نری نااہلی تھا لیکن اگلے پانچ سال یہ معاملات ہنگامی بنیادوں پر حل نہ ہوئے تو اس کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہرگز نہیں ٹھہرائی جا سکیں گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں