انگریزی مزاحیہ فلم سیریز سکیری مووی (Scary Movie) پانچ فلموں کا مجموعہ ہے جن میں اپنے دور کی مشہور خوفناک (ہارر) فلموں کی کہانی کو لے کر طنز و مزاح کیا گیا ہے۔ یہ فلم ہر کسی کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی بالکل ویسے ہی جیسے موجودہ دور حکومت کسی کے لیے خوفناک تو کسی کے لیے ایک مزاحیہ فلم کی طرح ہے۔ جس کا شمار موجودہ حکومت کے نابینا مداحوں میں ہوتا ہے اس کے لیے یہاں تک کا سفر ہی ناقابل برداشت ہوچکا ہوگا۔ ایسی صورت میں کمنٹ باکس گالیوں کے لیے حاضر ہے۔ البتہ جس کی حس مزاح جذباتیت اور سیاسی وابستگی سے مبرا ہے اس کے لیے سکیری مووی کے کچھ مناظر پیش ہیں۔
پہلا منظر تشدد بھری فلم “سا” (Saw) کے کسی حصے کی کہانی پر مبنی ہے۔ جن احباب نے “سا” نہیں دیکھی ان کے لیے کہانی کا پلاٹ کچھ یوں ہے کہ ایک سائیکو مگر انتہاء درجے کا جینیس قاتل اس فلم میں مختلف کرداروں کو کسی جگہ قید کر دیتا ہے جہاں انہیں کسی نہ کسی تکلیف دہ عمل سے گزر کر کچھ گتھیاں سلجھانی ہوتی ہیں تاکہ وہ قید سے آزادی حاصل کر سکیں۔ اب سکیری مووی میں اس کا مذاق کچھ ایسے بنایا گیا کہ ایک قید خانہ ہے جہاں دو بندے قید ہیں۔ ایک سیاہ فام باسکٹ بال کھلاڑی جسے احمق دکھایا گیا جبکہ ایک سفید فام شخص (ڈاکٹر فل) جس کی وضع قطع نہایت ہی نرم خو شخص کی دکھائی گئی ہے (اور جو بعد میں اعتراف کرتا ہے کہ وہ ایک الیکٹریشن ہے)۔ دونوں بندوں کا پاؤں دھاتی زنجیر میں بند ہے جسے کاٹنے کے لیے ان کے پاس دو منٹ ہیں۔ زنجیر کاٹنے کے لیے آریاں کچھ اس طرح سے لٹکی ہیں کہ باسکٹ بال کھلاڑی ہی اسے نیچے گرا سکتا ہے۔ سیاہ فام شخص کسی طرح یہ آریاں نیچے گراتا ہے جسے دونوں بندے فوری طور پر اٹھا کر زنجیر کاٹنا شروع کرتے ہیں مگر یہ جان کر مایوس ہوتے ہیں کہ اس آری سے دھاتی زنجیر نہیں کٹ سکتی۔ اب واحد حل وہ پاؤں کاٹنا رہ جاتا ہے جس میں زنجیر لگی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے پاؤں کون کاٹے گا۔ یہاں سیاہ فارم کسی طرح ڈاکٹر فل کو غیرت دلا کر اسے اپنے پاؤں کاٹنے میں پہل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر فل پیر کاٹنا شروع کرتا ہے اور باسکٹ بال کھلاڑی حیرت سے اسے دیکھتا ہے۔
اور جب ڈاکٹر فل اپنا پاؤں مکمل کاٹ کر ہاتھ میں پکڑتا ہے تو باسکٹ بال کھلاڑی اس پر انکشاف کرتا ہے کہ اس نے غلط پاؤں کاٹ دیا، زنجیر دوسرے پیر میں پڑی تھی۔
اب ذرا یہ خبر پڑھیے۔
“پشاور میٹرو میں ایک اور سنگین کوتاہی کا انکشاف، انتظامیہ نکاسی آب کا نظام بھول گئی”۔
ایک اور منظر ملاحظہ ہو۔
ایک باڈی بلڈر قسم کا سیاہ فام شخص “رے” زمین پر پش اپس لگاتے ہوئے ورزش کر رہا ہے۔ پاس ہی ایک جوکر کا پتلا کرسی پر براجمان ہے جس کے چہرے پر عجیب طنزیہ ہنسی ہے۔ رے ورزش سے فارغ ہوکر کرسی پر نگاہ ڈالتا ہے تو جوکر غائب ہے۔ اتنے میں رے کو بیڈ کے نیچے سے آواز آتی ہے “سنو، تم، یہاں آؤ”۔ رے چہرے پر خوف کے آثار لیے بیڈ کے نیچے جھانکتا ہے جہاں جوکر ایک خوفناک چہرے کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔ اگلے منظر میں جوکر کی ہنسی کے ساتھ رے کو بیڈ کے نیچے کھینچا جانا دکھایا جاتا ہے۔ جوکر کہتا ہے “آؤ یہاں، ایک کھیل کھیلتے ہیں” اور ساتھ رے کی چیخوں کی آوازیں آتی ہیں۔ کچھ دیر میں اچانک خاموشی چھا جاتی ہے اور اب جوکر کی حیرت زدہ آواز آتی ہے “یہ کیا کر رہے ہو۔۔ اپنی انگلی ہٹاؤ یہاں سے” اور اس کے بعد جوکر کی درد بھری چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ اگلے مناظر میں بیان کرنے سے قاصر ہوں تاہم بالغ حضرات کے لیے لنک حاضر ہے۔
مجھے اس منظر کشی میں جوکر حکومت جیسا لگا اور رے کا کردار عوام کا۔
تیسرا اور آخری منظر سنیے۔
ہیرو ایک بچے کو بچانے کے لیے بیس بال بیٹ سے اپنی طرف سے مونسڑ کو مار رہا ہے۔ خوب پٹائی کے بعد سامنے دیکھتا ہے تو بچہ ہی پٹ رہا ہے۔ کچھ سینز کے بعد مونسٹر کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ ہیرو پھر سے وہی بیس بال بیٹ اٹھاتا ہے۔ بچہ یہ دیکھتے ہی ہیرو کے پاس سے بھاگ کر مونسٹر سے لپٹ جاتا ہے کہ مجھے بچاؤ۔
بدقسمتی سے اس منظر کا کلپ نہیں ڈھونڈ پایا تاہم اس مناسبت سے خان صاحب کا ایک بیان ضرور یاد آتا ہے۔
“میں انہیں رلاؤں گا”۔
یقیناً یہ عوام ہی کا ذکر تھا جو غلط فہمی کی بنیاد پر ان سے منسوب ہوگیا جنہیں آج کل بڑے لڑکے رلا رہے ہیں۔
حکومت یا سکیری مووی؟ فیصلہ آپ کا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں