چائے والا ۔ ۔ رابعہ خرم درانی

وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا . رات کے روٹی کے بچے ٹکڑے صبح کالی چائے میں بھگو کر پیٹ کے جہنم میں ڈالتا اور باہر گلی میں اپنے جیسے بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلنے نکل جاتا . بےفکری کا دور تھا پر لگا کر اڑ گیا . ہاتھ پیر چلنے کے قابل ہوئے تو چھوٹے لڑکے کو بڑا بھائی ایک چائے کے ڈھابے میں چھوٹا بھرتی کروا آیا.

اب روز صبح کام پر جاتا تو ماں اس کی بلائیں لیتی اور بہنیں نظر اتارا کرتیں اور یہ دل ہی دل میں تلخ ہنسی ہنستا لیکن بظاہر پرسکون رہتا . جب ماں میرا چاند کہہ کر کالا ٹیکا لگاتی تو اس کی نظر اپنے لباس کے داغوں پر پڑتی. جسے اس کی بوڑھی ماں بےحد محنت سے بےداغ رکھنے کی کوشش کیا کرتی. جب بہنیں شہزادہ بھائی پکارتیں تو یہ ہنس کر انہیں ٹالتا اپنی ٹوٹی چپل گھسیٹتا ڈھابے پر جا پہنچتا ..

آنے جانے والے گاہک آواز لگاتے اوئے ارشد اوئے چھوٹے اور چھوٹا ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے آڈر بھگتاتا رہتا . اب یہ چھوٹا چند روپے گھر لے کر جاتا اور گاہکوں کی بچی دودھ پتی پیتا تھا اس لیے گھر کا بڑا بنتا جا رہا تھا ایک دن ایک صاحب نظر گاہک کو چھوٹے کے حسن نے متاثر کیا تو اس نے اونچی آواز میں اسے چھوٹے کی بجائے ”اوئے پیارے” کہہ کر پکارا . اس دن سے چھوٹے کی ترقی پیارے پر ہوگئی . جب کبھی ڈھابے کا چائے والا کسی حاجت سے اپنی گدی چھوڑتا تو عارضی طور پر چائے کا پوا چھوٹے کے ہاتھ میں پکڑا دیتا یوں چائے کی دھاریں کھینچے کھینچے پیارا چائے کے عمدہ رنگ اور ذائقے سے نہ صرف واقف ہو گیا بلکہ عمدگی سے چائے بنانے پر قادر بھی ہو گیا . جب وہ چائے کی کیتلی میں پوئے سے دھار گراتا یا چائے کی پونی کیتلی میں ہلاتا تو لگتا اپالو اپنی نگری میں سحر طراز ہے .یوں پیارا کبھی کبھار چائے بنانے لگا .

ایک روز بھٹے کے مالک نے اسے چائے بناتے دیکھا تو اس کی چائے پھینٹنے کی مہارت دیکھ کر پرانے چائے والے کو چلتا کیا اور پیارے کو چائے کی دھاریں گرانے پر مامور کر دیا .

پیارا چائے کے سنہری رنگ سے اکتاتا تو نیلے آسمان پر اپنی نیلگوں آنکھیں جما دیتا اور آزاد پنچھیوں کی اڑانیں دیکھنے لگتا . ایسے وقت میں وہ اپالو کا حسین مجسمہ دکھائی دیتا جیسے وقت تھم گیا ہو. بس تصویر میں پوئے سے گرتی چائے اور کتیلی میں جھاگدار چائے سے اڑتی بھاپ اس مجسمے کے زندہ ہونے کا احساس دلاتی. پیارے کے دل میں خیال آتا میں اس جگہ کے لیے نہیں میرے حصے کا آسمان کہیں اور ہے. یہ چھوٹا سا چائےخانە میرا کینوس نہیں کہ ایک روز ایک بی بی صاحب اپنے بڑے جدید کیمرے کے ساتھ اس چائےخانے پر چائے کے لیے رکیں.

یہ بی بی صاحب یونانی حسن مجسم کے لیے قسمت کی دیوی ثابت ہوئی. اور لمحوں میں پیارے کا حسن اس کا تعارف بن گیا. پڑوسی ملک کے نازک دلوں کو لہولہان کیا اور اپنے ملک کی ماوں کے لیے داماد کے انتخاب کے لیے ایک نیا اسٹینڈرڈ فکس کر دیا. سوشل میڈیا نے پڑوسی ممالک کے دو چائے والوں کی تصاویر اکٹھے لگا کر پاکستانی چائے والے کے حسن کو پہلا نمبر دیا. ملکی میڈیا اس چائے والے کی ویڈیوز بنا کر بریکنگ نیوز چلانے لگا .. راتوں رات کالی چائے میں باسی روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے بھگو کر نگلنے والا چھوٹا ملک کی نازنینوں کے دلوں میں براجمان ہو گیا جبکہ پڑوسی ممالک کی صنف کرخت کے دلوں پر سانپ بن کر لوٹنے لگا.

Advertisements
julia rana solicitors

یوں وہ ایک لمحہ پیارے چائے والے کی زندگی کا ٹرن پوائنٹ ثابت ہوا جس میں قسمت کی دیوی کی بگھی کے کوچوان نے بگھی کو اس چائے خانے کے سامنے روکا یا وہ لمحہ جب قسمت کی دیوی نے حسن کو مجسم کرنے والا جادوئی آلہ اپنے ساتھ لے کر سفر کرنے کا فیصلہ کیا. یا وہ لمحہ جب پیارے ارشد نے عید والا اپنی آنکھوں کا ہمرنگ سحرطراز جوڑا پہننے کافیصلە کیا ..یہ سب فیصلے ایکدم نہیں ہوتے. ایسے خوشگوار حادثوں کی پرورش تاریخ صدیوں کیا کرتی ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply