زخم ابھی کچے ہیں

انسان مٹی کا بنا ہوا ایک بت ہے جس کے اندر روح پھونک کر اسے مختلف ادوار اور مختلف تجربات سے گزارا جاتا ہے۔ سب سے پہلے بچپن جو زندگی کا سب سے پاکیزہ اور معصوم دور ہے۔ ماں باپ کے لاڈ پیار اور محبت سے لبریز یہ دور جہاں نہ کوئی فکر، نہ پریشانی، نہ سوچیں جو زندگی کا گھیرا تنگ کر دیتی ہیں۔ نہ مادہ پرستی، جو سکھ اور سکون کے آڑے آ جاتی ہے۔ مگر یہ مختصر سا وقت آنکھ مچولی کھیلتے گزر جاتا ہے۔ بہت جلد بچپن ہم سے جدا ہو کر جوانی کا روپ دھار لیتا ہے۔ اپنی طاقت، حسن، جوانی کے بل بوتے پر دنیا پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات اور خوابوں کی تکمیل کے پیچھے دوڑ لگا دیتا ہے۔ جوانی دبے پاؤں جا رہی ہوتی ہے۔ حسن دھیرے دھیرے ڈھونگ بدل لیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے حسن خواب تھا جو آنکھ کھلنے پر ختم ہوگیا۔ ہر گزرا دن جو ماضی بن جاتا ہے وہ ایسا خواب ہے جس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ لیکن ماضی ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں پناہ گزیں رہتا ہے اور گاہے گاہے پرانی باتیں یاد دلا کر ہمیں بے قرار کر جاتا ہے۔ وہ ساری یادیں ایک ایک کرکے پردہ سکرین پر ابھرتی ہیں تو دل دکھی ہوجاتے ہیں۔
میرے ذہن کی سکرین پر بھی پرانی یادوں کے دیپ جل رہے ہیں، جہاں بہن بھائی ، کزنز، دوست احباب تھے، وہ تعلیم کا زمانہ، وہ کھیل تماشے، ہنسی مزاق، بے تکے قہقہے، فراغت، کھانا پینا، عیش و آرام کی زندگی گزارنا اور سکول کالج زندگی کے معمولات تھے۔ یہ زندگی کا وہ دور تھا جس کا بیشتر حصہ ہم نے اکٹھے گزارا۔ زندگی کا وہ دور بڑا پرکشش تھا اور ہمارے پیارے رشتے اس دور کا یک خوبصورت کردار، ان کی حسین یادیں، ان کی باتیں، زندہ دلی، ہنستے مسکراتے چہرے، طنز و مزاح، سیر و سیاحت، باغ کی بہاریں ناقابلِ فراموش ہیں۔ دوسروں کے دکھ کو بانٹنا، خوشیاں تقسیم کرنا، خلوص اوراحساس کی باتیں، مہمان نوازی، دلچسپ کہانیاں، کب اور کیسے واپس آئیں گی؟ بکھری ہوئی کرچیاں کب جڑیں گی؟ دامن میں گرے ہوے موتی کب خشک ہوں گے؟ زندگی کے تغیر و تبدل سے تو سمجھوتہ ہم کر ہی چکے تھے لیکن غم کی بھٹی میں کودنے کا سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔
میں اپنے پیاروں کو دکھ کے اس گرداب سے کیسے باہر نکالوں؟ ان کا چہرہ ہشاش بشاش کیسے ہوجائے؟
ایسے میں اے قلم ! تو ہی اپنی طاقت کو آزما لے۔
تیری طاقت سے کون نہیں واقف۔
تو نے کفر کے اندر ایمان کی روح پھونک دی۔
تو نے قوموں کے مقدر بدل دیے۔
تنزل کو سطوت میں تبدیل کر دیا
تو نے ظالم اور جابر بادشاہوں کے دل پھیر دیے
تو نے غمزدہ اور اداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں
تو بھٹکے ہوؤں کے لیے ہدایت کا موجب ہے۔
تو نے جہالت کو علم میں تبدیل کر دیا۔
اے قلم! تجھے اللہ تعالی نے کون سا فن نہیں دیا۔
تو ہنستے ہوؤں کو رلا دیتا ہے اور روتے ہوؤں کے چہروں پر خندیدگی کی لہر دوڑا دیتا ہے۔
تیرے اندر یاس کو آس میں بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔
تو میرے پیاروں کے زخموں پر مرہم رکھ دے۔ ان کے دکھ کو سکھ میں بدل دے۔
مگر آج تو، تو بھی غمناک ہے۔
یہ تیری نوک سے خون کے قطرے کیسے؟
اور یہ آنسوؤں کی لڑیاں کیونکر؟
آج میری ہر بات کا تیرے پاس یک ہی جواب ہے
کہ زخم ابھی کچے ہیں۔۔۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply