حقوقِ نسواں،مذاہب اور رویے ۔۔۔ معاذ بن محمود

دیکھا گیا ہے کہ ہم اپنے مؤقف کو بہت زیادہ بلیک اینڈ وائٹ میں لے جاتے ہیں جبکہ معاملہ کہیں گرے میں پڑا ہوتا ہے۔ حقوق نسواں کے موضوع پر پیش ہونے والی آراء بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔

اسلام سے پہلے جہاں اسلام سب سے پہلے ظاہر ہوا وہاں یہودیت اور عیسائیت بطور عام مذاہب موجود تھے۔ ادیانِ ابراہیمی کے علاوہ تاریخ بہت واضح نہیں۔ قدیم روم میں عورت وراثت میں برابر کی حصے دار تھی۔ قدیم یونان میں عورت یہ حق نہ رکھتی تھی۔ یہود کے یہاں بیٹی کا جائداد میں حصہ نہیں تھا۔ عیسائیت بطور مذہب اس بابت یہی مؤقف رکھتی ہے۔ دیگر مذاہب کے حساب سے اسلام نے عورتوں کے معاملے میں لچک دکھائی۔ تاہم نمائیندگانِ اسلام جدت اپنانے اور دنیا کے بدلتے حالات کے حساب سے مذہب کو سمجھنے میں ناکام اور سمجھانے میں ناکام تر رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام جو اپنے آغاز میں دیگر مذاہب کی نسبت عورتوں کے لیے بہتر تھا آج اپنے نمائیندگان کے سخت گیر مؤقف کی وجہ سے سخت بن کر رہ گیا۔

میری ناقص رائے میں یہود بھی اپنی الہامی کتب کے حوالے سے عورت کے معاملے میں کنزرویٹو ہیں اور عیسائی بھی۔ اس کے باوجود اسلام سے پہلے کی روایات اور معاشرہ کچھ ایسا تھا کہ سیدہ خدیجہ رض نے نبی کریم ص کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ کہیں اسے برا سمجھنے کی روایت نہیں ملتی۔ آج کے اسلامی معاشرے کی عام عورت ایسا کرے تو اکثر اسے کم سے کم بھی عجیب ضرور کہیں گے۔ مطلب تب بیشک معاشرتی روایات مذہبی احکامات سے نہ ٹکراتی ہوں مگر اب  ایسا ہوتا ہے۔

ایک اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے غلامی جیسی روایت کی مکمل نفی نہیں کی۔

غلامی جیسی روایت تو ابھی ایک صدی پہلے تک انسانی حقوق کے چیمپین ممالک میں جائز تھی، اس بنیاد پر چودہ سو سال پہلے کے مذہب سے شکایت کرنا عجیب ہے۔ خاص کر اس وقت جب غلامی قریب ہر معاشرے کا نارم ہو۔ مذہب عموماً معاشرتی روایات سے ۱۸۰ درجہ زاویہ نہیں کھایا کرتا۔ یہ کوئی اصول نہیں۔ مشاہدہ کہہ لیں۔ ٹالسٹائی کی کتاب “ہمارے عہد کی غلامی” پڑھ لیجیے۔ بقول بھٹی صاحب، “غلامی آج بھی قائم ہے، غلامی رہتی دنیا تک ختم نہیں ہونی ۔ غلامی کی شکل بدل جانے سے غلام مطمئن ہیں کہ وہ آزاد ہو گئے ہیں۔”

حقوق نسواں کے حوالے سے یکطرفہ تقدیس اور عظمت چند دعووں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ویسے اتنی تقدیس ہوتی بھی نہیں کہ کسی کو الجھن ہونے لگے۔ پھر بھی یہ عظمت بتائی ضرور جاتی ہے۔ اس عظمت کے بیان کی بنیاد یہی ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کی وہ عزت یا وہ مقام بھی نہ تھا جو اسلام نے متعارف کروایا۔ سوال وہیں آجاتا ہے کہ اسلام سے پہلے کیا مقام تھا عورت کا۔ سکرپچرز اور غیر سکرپچرز کے احکامات کے ماضی میں اطلاق کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا تو یکطرفہ عظمت اور تقدیس پر پھبتی کسنا بھی اتنا ہی عجیب ہے جتنا اس عظمت و تقدیس پر فخر کا اظہار کرنا۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ کسی بھی دوسرے مذہب کے برعکس اسلام نے باقاعدہ طور پر قرآن کے ذریعے حقوق نسواں وضع کیے۔

باقی مذہب کو جدید خطوط پر سمجھنے کی ضرورت تھی، ہے اور رہے گی۔

کچھ دوستوں کا ماننا ہے کہ مذہب کسی بھی درجے میں حتمی سچ نہیں ہے۔ فرض کرنے پر فتوی نہیں ہے۔ فرض کرتے ہیں یہ رائے ٹھیک ہے۔ اب اگر کوئی اس مغالطے میں میری شخصی آزادی کو ڈسٹرب کیے بغیر اور ریاستی قانون کو توڑے بغیر رہنا چاہتا ہے تو اسے بھی آزادی ہے اس کی۔ کچھ دوست فرماتے ہیں مذہب کی بنیاد تضاد ہے۔ آپ کہتے ہیں تو شاید ہو، لیکن اتنے تضاد ہیں نہیں جتنے بنا دیے گئے ہیں۔ مذہب کی تشریح کا ٹھیکہ جب تک ایک انسان کے ہاتھ میں رہے گا تضادات بڑھتے ہی رہیں گے۔ باقی بقول روبینہ شاہین بہن اس بات سے اتفاق ہے کہ مذہب جامد کر دیا گیا ہے ورنہ کم از کم اسلام اپنی روح میں اچھا خاصہ لچکدار مذہب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذہب کا جمود ویسے تو ایک وسیع موضوع ہے، پھر بھی جس طرح سے آج مذہب کو جامد دکھایا جاتا ہے مذہب اس طرح جامد ہے نہیں۔ باقی ہر نظریہ کم از کم اپنی تعریف یا اپنے تشخص کے لحاظ سے جامد ہی ہوگا ہے۔ سوشلزم بحیثیت نظریہ آج بھی وہی ہے جو دو سو سال بعد ہوگا۔ ہاں مذہب کے فریم ورک کی تشریح کوئی اپنے تئیں دوسروں پر تھوپے تو مذہب اس حساب سے جامد نہیں۔ سب اپنی سہولت والی تشریح پر جیتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں تاوقتیکہ ریاست کے آئین کے تابع رہیں۔ اگر کوئی مذہب کو تضادات سے بھرپور کسی قسم کا مغالطہ سمجھتا ہے تب بھی کوئی شخص جانتے بوجھتے کسی مبینہ مغالطے میں رہنا چاہتا ہے تو رہتا رہے۔ یہ بھی شخصی آزادی ہی کا ایک حصہ ہے۔ میرے خیال سے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply