یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ۔۔۔۔ خورشید احمد

دیکھا اور سناہے کہ جب بھیڑیں سفر پر ریوڑ کی صورت میں نکلتی ہیں تو سب سے کمزور بیمار نحیف اور لاغر بھیڑ گلے کے آخر میں سر جھکائے زبان منہ سے لٹکائے لنگڑاتی ہوئی آہستہ آہستہ چل رہی ہوتی ہے۔ سفر کے دوران اگر سامنے سے خدانخواستہ کوئی آفت یا عذاب آجائے، راستہ بند ہو یا ناقابل عبور چڑھائی آجائے یا کوئ درندہ حملہ آور ہوجائے توسارا گلہ پلٹ جاتاہے جسکے بعد آخر میں چلنے والی وہی کمزور، لاغر اور نخیف بھیڑ؛ میر کاروان بن جاتی ہے اور پھر ساری بھیڑیں اسے لیڈر مان کر سرجھکاے آہستہ آہسہ چلنا شروع کردیتی ہیں تا وقتیکہ کوئی دوسری آفت ان کو دوبارہ پلٹنے پر مجبور نہ کردے۔

اس مثال لامثال کا تذکرہ اسلئے کیا کہ مجھے نہیں خبر کونسی آفت اور عذاب اور کونسا بانجھ پن تھا جو ان ١٨کروڑ مسلمانوں کے اس ریوڑ پر آن پڑا کہ انہوں نے اپنا رخ ہی بدل دیا اور ذہنی طور پر لولے لنگڑے بہرے اور نابالغ ہوگئے اور اسی لاغر بھیڑ کے مانند لوگ ہی میر کاروان بن گئے؟

ورنہ تو یہ خطہ ان اذہان او افکار کا متحمل نہ تھا اور نہ رہے گا  لیکن ٹھہریے، میں غلط سمجھا ہوں بلکہ یہ خطہ اور مظلوم خطہ ان حالات کا متحمل ضرور اور بطریق اولی ہے۔ آخر کیوں؟ اسلیئے کہ ہم مسلمان ہیں نا۔ تو کیا ہوا؟ مسلمان تو شرافت کا بھرم رکھتا ہے؟ ہاں بالکل رکهتا هے. لیکن ہم ذرا الگ قسم کا بھرم رکھتے ہیں اور وہ ہے فرقہ پرست مسلمانیت ۔ ہم دیوبندی مسلمان ہیں۔ ہم بریلوی ہیں، ہم شیعہ ہیں، ہم اہل حدیث ہیں اور ہم ہی غامدی مسلمان ہیں۔ بابا یہ مسلمانیت کیا بلا ہے؟ بھلا بات کرو تو سنی، شیعہ، غامدی، بریلوی، اہل حدیث ملحد کی کرو۔ بصورت دیگر کسی چیز کو ہم مسلمان اور پاکستانی مسلمان منہ لگانے کو تیار ہر گز نہیں۔ ۔جہاں اس قسم کی عظیم الشان مسلمانیت رائج ہوجائے وہاں پھر خطہ مجبوراً حالات مذکورہ کا حامل بن جاتا ہے۔

بات کریں تو کس کی؟ روئیں تو کس کے نام؟ لکھیں تو کس کے لئے اور کس شے پر؟ سیاست کس کی کریں۔ فرقہ واریت پھ لکھیں؟ لیکن کب تک اور کہاں تک؟ جس قوم کے ایک فرد پر کفر کا لیبل لگنا نہایت ہی آسان ہو وہاں مسلمانیت انگشت بدندان ہی رہ جاتی ہے۔ جہاں فتوی لگنا اور لگانا مزاج اور طبعیت شاطرہ کا اہم حصہ بن چکا وہاں فرقہ واریت کے اندھیرے اور نحوست کے بادل بچے بچے کو اپنے لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اور ان کو دیکھ کر یہود بھی  شرما جاتے ہیں۔

لیکن ایک سوال میں اپنے آپ سے یعنی ان مولوی حضرات سے کرنے کی ہمت کر رہا ہوں کہ حضور آپ حضرات پیداشی اور خاندانی فتاوٰی نویس تھے یا بعد میں کوئ کورس کر ڈالا لوگوں کو کفرستان پھنچانے کا؟ کیا شریعت مطہرہ اس بات کی ایک فیصد بھی اجازت دیتی ہے کہ کسی کے کے کردار ظاہری کو دیکھ کر اسے کفر کی راہ پر نکال دو؟ کیا اسلام جیسا پاکیزہ اور معتدل مذہب اس بات کی اجازت دے گا کہ هری پگڑی والا کافر اورکدو اور حلوہ کو برا کہنے والا زندیق ہو چلا؟ کیا اکا برین امت نے اپنے کردار سے یہ تاثر دیا کہ کل جب تم آؤ تو فتاوی کفر کے انبار لگادو؟ اگر ہاں تو پھر جیتے رہیں، نھیں تو پھر ٹھنڈےدل و دماغ سے سنیں۔

بابا یہاں کوئ مولانا مودودی ہوتے تھے جن کی فکر کی روشنی آج تک لوگوں کو اندھیروں میں روشنی کا راستہ دکھاتی ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی تھے جنکی باتیں دلوں پرلگی مہریں توڑدیتی تھی۔ مولانا احمد علی لاہوری تھے جن کی محفل پتھر کو پارس بنادیتی تھی۔ احتشام الحق تھانوی تھے جو بھٹکے ہوؤں کو شراب خانے سے لا کر مصلے پھ کھڑا کر دیتے تھے۔مفتی محمود جیسے عالم تھے جنہوں نے مغربی یلغار کو ایک بازو کی قوت سے روکا۔ جو مردہ روحوں کو زندہ کرنے۔کا کام کرتے تھے ۔ سید۔مظفر حسن تھے جنہوں نے زندگی میں کبھی شیعہ سنی کی تفریق پیدا۔نہ ہونے دی۔…… اگر یہی لوگ آپ کے بڑے تھے تو اب آپ بتائیے اور زور ایمانی سے بتائیے کہ آپ اپنے اکابرین سے کس قدر وفا نبھارہے ہیں۔ ؟ کیا یہ ان کی روحوں کے ساتھ مذاق نہیں؟

میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہ کہنے کی ہمت کرتا ہوں کہ اسلام کے خلاف جتنی نفرت اس دور میں اسلام ہی کے ذریعے پھلائی گئی ۔ مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابل برداشت بنا یا گیا، مدرسہ کو جتنا مدرسہ کے ذریعے قابل نفرت بنا یا گیا۔ اتنا پچھلے دو تین سو برسوں میں یہودیوں اور عیسایئوں کے بیانات خطبات اور تحریروں نے نہیں کیا۔ آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو آپ یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے۔

آخر کیوں ہماری باہر کی تلخی اندر کی تلخی سے مل کر زہر بن چکی؟ اور یہ زہر دل کی ہر حرکت کے ساتھ ہماری رگوں سے الجھتا اور سانسوں سے جھگڑتا ہے؟ ہم کیوں معاشرے کے بیوپاری بن چکے؟ روزانہ اس معاشرہ سے کڑواہٹ کیوں خرید تے ہیں؟ اور پھر اسی کڑواہٹ اورتلخی کو چند شرمندہ سانسوں کے بدلے اسی معاشرہ کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ صدافسوس ! وہاں ایسا ہی ہوگا جہاں ایک مولوی دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو توہین سمجھتا ہے۔ جہاں لوگ معمولی سا۔اختلاف برداشت نہیں کرسکتے۔ اپنی مسجد میں دوسرے لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت نہی دیتے۔ وہاں کے لوگ اسلامی روایات کی کیا خاک پاسداری کریں گے۔

جی ہاں اپنے آپ سے سوال کیحئے۔کہ کیا یہ واقعی وہ اسلام ہے جس کی بنیاد آقاء نامدار صلی اﷲ علیہ وسلم نے رکھی تھی اور جسے بعد ازاں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے پوری دنیا میں پھیلایا۔ پوچھیئے اپنے آپ سے۔ کیا آپ کا اسلام طبقاتی تفریق مٹاتا ہے؟ گورے کالے کی تمیز ختم کرتا ہے؟ عربی، عجمی، دیوبندی، بریلوی اہل حدیث، غامدی، شیعہ کی دیواریں گراتا ہے؟ انسان کو انسان سمجھتا ہے؟ مظلوم کی آہ سے ڈرتا اورخدا کے قہرسے کانپتا ہے؟اگر جواب نفی میں ہے تو پھر آپ کون سا اسلام نافذ کرنے چلے ہیں سرکار؟ جس کے دامن میں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نہیں۔ اصلاح نہ ہی کوئی تبدیلی۔؟

لیکن ایک بات تو هے هی نا.! اور وه یه که ہم پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں اور ہربات کا جواب پتھر ہی سے دینا جانتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وضع میں تم ہو نصاریٰ  تو تمدّن میں ہنود
!یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply