قومی اتفاقِ رائے مشکل نہیں، ناممکن

ہم ایک منقسم معاشرے کے باسی ہیں جہاں ہم تقسیم کے ساتھ ساتھ بے سمتی کا بھی شکار ہیں۔ کوئی بحث یا مسئلہ درپیش ہو تو مجال ہے کہ ہم کسی ایک نکتے پر آسانی سے متفق ہو سکیں۔ایسے حالات میں ہمارے بیچ سوشل میڈیا نام کی ایک ایسی عفریت در آئی ہے کہ جو مزید تقسیم کا باعث بن رہی ہے۔
سمارٹ فون تھامے ہر شخص لکھنے،بولنے کیاخلاقی بندش سے آزاد ہے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ہے۔اگر کسی نےحقیقی آزادی کی عملی شکل دیکھنی ہو تو ہمیں دیکھ لے۔ کسی مسئلے پر دو کے علاوہ کتنی آراء اور نکتہ ہائے نظر ہو سکتے ہیں، تین یا چار یا بہت حد ہو گئی تو پانچ لیکن ہمارے ہاں ایک ہی مسئلے پر سینکڑوں نکتہءنظر مل جاتے ہیں۔ ہر ایک کی الگ بولی ہے ،مختلف رائے ہے ایسے میں قومی اتفاقِ رائے کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
آپریشن ضربِ عضب اور فوجی عدالتوں کے قیام پر قومی اتفاق ہوا تھا لیکن اُس میں زیادہ عمل دخل جنرل راحیل شریف کی بارعب شخصیت کا تھا۔ راحیل شریف اپنے ہاتھ میں ڈنڈا تھامےتنی ہوئی گردن اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ سیاستدانوں کی بیٹھک میں نہ بیٹھتے تو قومی اتفاقِ رائے حاصل نہ ہو سکتا۔ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشتگردی نچلے ترین درجے پر پہنچ گئی لیکن گزشتہ ماہ پے درپے ہونے والے دہشتگردی کے واقعات نے ایک بار پھر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوئی تو توسیع کیلیے اتفاقِ رائے کا حصول ایک بار پھر مصیبت بن گیا۔ بظاہر سب ہی دہشتگردی کے خلاف متفق ہیں لیکن دہشتگردی کے محرکات پر کوئی بھی متفق نہیں۔
میری مطابق دہشتگردی کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ہوتا ہے، میرے لبرل دوست کی نظر میں دہشتگردی ضیاءالحق کی وجہ سے ہے، میرا مذہبی دوست دہشتگردی کی وجہ پرویزمشرف کو سمجھتا ہے۔ ایک بڑی تعداد ہر مسئلے کی طرح اس مسئلے کے پیچھے بھی امریکہ کو دیکھتی ہے، کسی کو ایم آئی سکس کا ہاتھ نظر آتا ہے، کوئی اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، ایک مسلک ایران پر انگلی اٹھاتا ہے اور دوسرا سعودی عرب پر الزام دھرتا ہے اور اس ساری کج بحثی میں عام پاکستانی کا خون بہہ رہا ہے۔ دن دیہاڑے اور سرِعام بہہ رہا ہے خود ریاست بھی دہشتگردی کے پیچھے چھپے ہاتھوں کا تعین کرنے میں گومگو کا شکار ہے اور ریاست کی اسی کشمکش کی بدولت یہ بحث لاحاصل ہے۔ دہشتگردی تو ایک مسئلہ ہے اِس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ایسے ہیں جن پر ہم ایسی ہی لاحاصل بحثوں میں الجھے رہتے ہیں۔
میرے خیال میں قومی اتفاقِ رائے کا حصول اُس وقت تک ممکن ہی نہیں ہے کہ جب تک ہم ایک قوم نہ بن جائیں اور ایک قوم ہم اُس وقت تک بن ہی نہیں سکتے جب تک ہم ایک طرح سے چیزوں کو دیکھنے والے نہ بن جائیں اور ایسا تب تک نہیں ہو سکتا جب تک یکساں نظامِ تعلیم اختیار نہیں کیا جائے گا۔
اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں چھے سو طرح کے نظامِ تعلیم کام کر رہے ہیں۔ کوئی آکسفورڈ کا نظام پڑھا رہا ہے تو کوئی کیمبرج کا ،ایک سکول امریکن نظامِ تعلیم کا دلدادہ ہے تو کسی میں تُرک نصاب رائج ہے۔ کوئی وفاقی حکومت کے تحت چلنے والا سرکاری سکول ہے جو دوسرے سرکاری سکولوں سے نسبتاً بہتر ہے تو کہیں صوبائی حکومت کے تحت سرکاری سکول چل رہا ہےجس میں پانی ہے تو گلاس نہیں ہے، استاد ہے تو طلباء نہیں ہیں، طلباء ہیں تو فرنیچر نہیں ہے۔ بھانت بھانت کے نجی تعلیمی ادارے اس کے علاوہ ہیں۔
مارکیٹ میں نصاب بیچنے والے کئی دکاندار موجود ہیں ہر سکول میں پڑھایا جانے والا نصاب مختلف ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت تعلیم کو صوبائی مضمون قرار دے دیا گیا ہے جس کی رُو سے تعلیمی نصاب، پلاننگ اور پالیسی اب صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہر صوبے میں اب الگ نصاب پڑھایا جائے گا اور پھر ایسے میں کون کافر قومی اتفاقِ رائے کے حصول کا خواب بھی دیکھ پائے گا!
مذہبی تعلیم کے مدارس اِس کے علاوہ ہیں جہاں پر اسلام اور مذہب نہیں بلکہ مسلک پڑھایا جاتا ہے اور ہر مسلک دوسرے کو اگر کافر نہیں تو گمراہ تو کم ازکم ضرور سمجھتا ہے۔ ملک مٰیں اِس وقت رائج نظام برائے تعلیم ایک طرف عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد اور جبران ناصر جیسے لوگ پیدا کر رہے ہیں تو دوسری طرف سے ملا فضل اللہ اور بیت اللہ محسود جیسے لوگ نکل رہے ہیں۔ کیا کوئی ہوشمند انسان یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ اِن دو مختلف قسم کے ذہنوں کو کسی ایک نکتے پر متفق کیا جا سکتا ہے؟
اگر ریاست واقعی ملک میں قومی موافقت پیدا کرنا چاہتی ہے تو ملک بھر میں یکساں نصابِ تعلیم ترتیب دینا ہو گا۔
ایک زمانے میں بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت تعلیمی اداروں کو بھی قومیا لیا تھا لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سکولوں کے بڑے بڑے برینڈز کو کام کرنے دیا جانا چاہیےمدارس کو بھی چلتے رہنا چاہیےلیکن ریاست تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک ایسا نصاب تیار کرے جو سب کیلیے قابلِ قبول اور قابلِ عمل بھی ہو بیکن ہاؤس اورمدرسہ ایک ہی نصاب پڑھانے کا پابند ہو۔ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے بھی وہی نصاب پڑھائیں۔ ایک نصاب پڑھنے اور پڑھانے سے کم ازکم ایک طرح سے سوچنے اور چیزوں کو ایک طرح سے دیکھنے کی صلاحیت قوم میں پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ یقیناً ایک طویل مدتی منصوبہ ہے لیکن اِس کو کہیں سے شروع تو کیا جائے۔ اگر یہ نکتہ بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بن سکتا تو نیشنل ایکشن پلان کو مزید مؤثر بنایا جا سکتا تھا۔
اِس کے ساتھ پرائیویٹ سکولز کیلئے البتہ کوئی پالیسی ضرور ترتیب دینی چاہیے۔سکولوں کیلئے عمارت کا ایک سٹینڈرڈ مقرر کیا جائے جس میں کھیل کے میدان کا ہونا لازم قرار پائے۔چھوٹی چھوٹی اور بند عمارتوں میں طلباء کی ذہنی نشوونما بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا جو سکول سٹینڈرڈ پر پورا نہ اترتا ہو اس کے مالک کو سکول چلانے سے روک دیا جائے۔ ایک جامع، مربوط اور یکساں تعلیمی پالیسی اپنائے بغیر ہم قومی اتفاقِ رائے کے حصول کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اُسے حاصل نہیں کر سکتے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply