غیرت اسلامی سے دور ہوتا ہوا مسلم معاشرہ :عمر فراہی

ہمارے ایک سنی دوست نے رمضان میں افطار کیلئے مدعو کیا تو میں نے مذاقاً ان سے کہا کہ بھائی سوچ سمجھ کر اور اپنے مولانا سے اجازت لیکر تو یہ دعوت دے رہے ہو نا ؟۔۔۔ انہوں نے کہاکیا مطلب؟
میں نے کہا اس دن جنازے میں دیکھا نہیں کیا ہوا تھا ؟۔۔۔ قہقہہ لگایا اوربولے یار یہ مولویوں کی بات الگ رکھو ایسا عام حالات میں ممکن نہیں ہے ۔۔قصہ مختصر یہ کہ کچھ سال پہلے دوپہر کے وقت ہمارے آفس میں یہی دوست آئے ہم نے چائے منگوائی ۔۔میری سوالیہ نظروں کے جواب میں کہنے لگے آپ کے قریب ہی قبرستان میں جنازہ آنے والا ہے ابھی اس میں وقت ہے اس لئے سوچا آپ سے ملتا چلوں ۔ میں نے کوئی سوال نہ کیا۔۔ اچانک ان کے نمبر پر کسی کا فون آیا اپنے مخاطب سے کہا کہ ابھی میں قاضی صاحب کے جنازے میں آیا ہوں بعد میں بات کرتا ہوں ۔
میں چونکہ ان کی یہ گفتگو سن رہاتھا اس لئے پوچھ بیٹھا کہ کون قاضی ؟ انہوں نے کہا وہ اکاؤنٹنٹ تھے۔۔ میں نے کہا کہ یار وہ تو میرے بھی اکاؤنٹنٹ تھے آپ نے بتایا نہیں ۔۔ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کے واقف کار ہوں گے۔میں نے بھی جنازے میں شرکت کا ارادہ باندھا۔وہاں پہنچے تو اچانک امام صاحب نے اعلان کیا کہ جنازے میں موجود دیوبندی,وہابی اور گمراہ فرقے سے تعلق رکھنے والےجنازہ نہ پڑھیں ۔۔ ہمارے کچھ دوسرے جاننے والے نکل کر جانے لگے اور ہم صف میں ہی کھڑے رہے تو کسی جاننے والے نے پھر کہا کہ چلئے کھڑے کیوں ہیں ۔ میں نے کہا دیوبندی وہابی اور گمراہ فرقے کو نکلنے کیلئے کہا ہے میں تو مسلمان ہوں ۔
انہوں کہا آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں لیکن کیا میت کے رشتے دار بھی آپ کے بارے میں ایسا ہی سوچ رہے ہیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو زبردستی نکالا جائے ۔ مجھے بھی ان کی بات سمجھ میں آئی اور میں شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنازے سے نکل آیا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ آپس میں نفرتیں ہی تقسیم کریں ۔۔
جیسا کہ اکثر سنی بریلوی اور دیوبندی آپس میں رشتہ دار بھی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے جینے مرنےمیں شریک رہتے ہیں لیکن کسی طرح کی مسلکی تفریق کا سامنا نہیں ہوتااور یہ عام لوگوں کی فطرت بھی نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے مسلک اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کریں لیکن اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم معاشرہ اس عصبیت سے پاک ہے ۔ عام آدمی اگر اسے پسند نہیں کرتا تو اسے اپنے علماءچار کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے لیکن کوئی اتنی جرات بھی نہیں کر پاتا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہم مسلم قلم کار اخبارات اور اپنی عام تحریروں میں مسلمانوں کی مسلکی شناخت جیسے کہ سنی،دیوبندیت،وہابیت اور اہلِ حدیث وغیرہ کے لاحقہ کے ساتھلعنت ملامت کرنے سے تو گریز کرتے ہیں لیکن دوسرے مذاہب کے فرقوں کے خلاف براہ راست یہودیت ، نصرانیت اور برہمنیت کا استعمال کرتے ہیں ۔ چونکہ قوم یہود سے مسلمانوں کی دشمنی اور سازش کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے اور فلسطینی مسلمانوں پر ان کے ظلم کی داستان بھی عیاں ہے اس لئے اگر مسلمان ان پر لعنت بھیجتا بھی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ اس کا حق ہے لیکن اکثر صحافی جس طرح برہمنوں کو بھی اپنا تاریخی دشمن سمجھتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔۔ہاں ذاتی گفتگو میں ایسے طنزیہ الفاظ کے استعمال تک تو بات ٹھیک ہےلیکن اعلانیہ طورپر کسی مذہب فرقے اور مسلک کے نام سے کراہیت ، نفرت اور بیزاری کا اظہار نہ صرف انسانی ادب اور فلسفے کے خلاف ہے بلکہ اسلامی ادب اور دعوت و اصلاح کی روح اور اقدار کے بھی منافی ہے ۔
ذہن میں یہ سوال سر ضرور اٹھاتا ہے کہجب اللہ نے انہیں دشمن کہا ہے تو ہم کیوں نہ کہیں ۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو جس بات کا اختیار ہے وہ اختیار بندے کو نہیں ہو سکتا ۔ وہ لوگ جو اس وقت زمین پر مسلمان ہونے کی صورت میں ایمان اور یقین کی دولت سے سرفراز ہیں انہیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ بحیثیتِ مسلمان ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال خاندان اور پڑوسی کے ساتھ ساتھ اسلام کےآفاقی پیغام کو جہاں تک ہوسکے دیگر قوموں تک بھی پہنچائیں اور اس کے لیئے ہر گز بھی یہ ضروری نہیں کہ قرآن پاک یا اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جائےبلکہ آپ کا اخلاق اور کردار خود انسانی ادب کی شکل میں آپ کی اپنی اسلامی شناخت کاترجمان ہونا چاہیے۔
چند فرقہ پرست طاقتوں کا مسلمانوں سے نفرت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ساری قوم ہی فرقہ پرست ہے۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ نفرت اور بغض کے یہ نمائندے تو خود مسلمانوں میں بھی موجود ہیں ۔ہندوستان اور اسرائیل میں ستر سالوں میں اتنے مسلمان قتل نہیں ہوئے جتنے پانچ سالوں میں ایران اور شام میں ہوئے۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ہمارے سیاسی رہنما ان ممالک کی دعوتوں میں مسلم امہ کے اتحاد کی بات کرتے ہیں ۔ دشمن کے ساتھ بھی امن اور صلح کی بات ہونی چاہیے لیکن سوال پھر یہ اٹھتا ہے کہ کیا اب ہندوستان کا مسلمان ایرانی اور پاکستانی سفارت خانوں کے تیار کردہ اتحاد کی حکمت عملی کا محتاج ہے ؟ اگر کل پاکستانی سفارت خانے میں یا کسی اسلامی کلچر ہاؤس میں اتحاد اُمہ کیلئے پاکستانی سفیر کو کسی مسلم تنظیم کی طرف سے مدعو کیا جاتا ہے تو غیر مسلموں میں اور خاص طور سے حکومت کو اس کا کیاپیغام جائے گا ۔۔؟
سچ تو یہ ہے کہ اگر ایک سفاک اور ظالم قسم کے مسلم ملک کے سفیر کے ساتھ بیٹھ کر اتحاد کی بات ہو سکتی ہے تو 2002 کے گجرات فساد میں دو سے تین ہزار مسلمانوں کے قتلِ عام کے ذمہ دار ہندو تنظیم آر ایس ایس اور ملک کے وزیراعظم نریندر مودی سے کیوں نہیں ؟ شاید اس لئے کہ ان کامذہب الگ ہے اس کا مطلب ہم قرآن کے اس نظریے کے مخالف ہیں کہ دنیا کے سارے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں ، کسی قوم کو عربی اور عجمی کی بنیاد پر فوقیت نہیں تو پھر مختلف انسانوں کے درمیان تفریق کے کیا معنی ؟ اتحاد و اتفاق اور بھائی چارگی کیلئے ہم جو محنت ایران اور غیر ملکی سفیروں کے ساتھ کر رہے ہیں اگر آر ایس ایس اور اس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں کرتے تو ملک کے امن و امان کا ماحول بھی کچھ اور ہوتا۔ یہ کام ایمرجنسی کے دوران جیلوں کے اندر جماعت کے لوگوں نے آر ایس ایس کے ساتھ کیا بھی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی آئے لیکن ایران کے ساتھ ہنی مون کے نشے میں ایک مثبت سوچ منفی سوچ میں بدل کر رہ گئی ہے ۔ سچ تویہ بھی ہے کہ برہمن نہ صرف مسلمانوں کا تاریخی دشمن بلکہ برہمنوں کا ایک طبقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عقیدت رکھتا تھا کہ جب نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کربلا کے میدان میں مشکل پیش آئی تو ایک طبقے نے حضرت حسین کے ساتھ مل کر یزید کی فوج کا مقابلہ کیا ۔ ہندوستان میں آج بھی یہ حسینی برہمن موجود ہیں ۔ ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم غیروں کیلئے یہود ونصاریٰ اور برہمنیت کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں کیا مسلمانوں کیلئے بھی وہابی،رافضی،سلفی، دیوبندی ،تحریکی اور بدعتی جیسے غیر روایتی القابات سے مخاطب ہو کر بات کی جائے؟ اور کچھ لوگ اپنے خطبات اور وعظ میں اس کا استعمال کر بھی رہے ہیں۔ لیکن فرض کر لیجئے کہ جس طرح ہم صہیونیت نصرانیت اور برہمنیت کیلئے نفرت اور بیزاریکا اظہار کرتے ہیں دوسری قومیں بھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے براہ راست اپنے مضامین میں قلم کا استعمال کرنے لگیں تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا ؟جو کہ فرقہ پرست ہندو لیڈران کرتے بھی ہیں اور ہمیں برا بھی لگتا ہے ۔ امریکہ کے موجودہ صدر اسی وجہ سے کچھ مہینوں سے میڈیا کی زینت بنے رہے ہیں لیکن قربان جائیے یورپ اور امریکی عوام پر کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت کے خلاف احتجاج پر آمادہ ہوئے اور ایک امریکی تنظیم نے ٹرمپ کے ذریعے سات مسلم ممالک کے مسلمانوں پر لگائی گئی پابندی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور امریکی جج نے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف تاریخی فیصلہ بھی سنادیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ بدل رہا ہے امریکی عوام آداب انسانی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟
کیا ہم آداب اسلامی اور اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اپنے لئے اور دوسروں کیلئے بھی محبت کی زبان کا استعمال نہیں کر سکتے ؟ آخر اتحاداُمہ کی نمائندگی کرنے والےایرانی عوام نے اپنے ایرانی اور شامی حکمرانوں کے قتل عام کے خلاف کوئی احتجاج اور مظاہرہ کیوں نہیں کیا ؟؟؟
شاید اب وہ دن دور نہیں جب ہمیں یورپ سے ہی اسلامی ادب کا سبق لینا پڑجائے ۔ تاتار کے افسانے سے یہ بات عیاں ہے کہ حرم کی پاسبانی کیلئے ایسا ہو بھی سکتا ہے !!!

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply