سیاسی اسلام

اس دور میں اسلام کی ایک روشن خیال تشریح کی جتنی ضرورت ہے وہ شاید کبھی اتنی نہ تھی۔ مگر اس بیانئے میں بہت سی باتیں مدغم کر دی گئی ہے میرا خیال ہے کہ سیاسی معاملات پر الگ سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے شیعہ اسلام اور سنی اسلام میں بنیادی فرق یہی تھا کہ اہل تشیع کا دعوی تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے امامت اور خلافت کا ایک نظام اللہ تعالی کی طرف سے پیش کردیا تھا اور ان کے بعد آئمہ کرام بھی اللہ کی جانب سے مامور تھے مگر اہل سنت نے اس تشریح سے اتفا ق نہیں کیا۔ ان کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جانشینوں کے لئے کوئی نظام متعین نہیں کیا تھا۔ ریاست مدینہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے صحابہ کرام نے باہمی مشاورت ایک خلافت کا نظام قائم کی پہلے یہ خلافت نیابت رسول کی نسبت سے خلیفہ رسول سے نام سے قائم کی گئی پہلے خلیفہ کا انتخاب کثرت رائے سے ہوا کیونکہ ایک بہت ہی سینیئر صحابی سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر کی خلافت کو پوری زندگی تسلیم نہیں کیا اور اس کی بنا پر ان کو اہل سنت کے کسی فرقے نے بھی ان کی تکریم میں کمی نہیں کی۔ پہلے چار خلیفہ کو خلافت راشدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کسی بھی خلیفہ کا انتخاب کسی متعین طریقے سے نہیں ہوا۔ جب حضرت امیر معاویہ نے حضرت علی کی خلافت سے انکار کیا تو کسی نے ان پر کفر کا فتوی نہیں لگایا بلکہ جنگ صفین کے بعد صحابہ کرام نے دو الگ علاقوں پر دو الگ خلفا کے تصور کو قبول کرلیا اور دونوں خلفا میں علاقوں کی تقسیم ہوگئی۔ اس کے بعد کضرت معاویہ نے خلافت راشدہ کی جگہ وراثتی ملوکیت کو رائج کردیا تو بھی اس کو اہل تشیع کی مزاحمت کے باوجود بترریج تسلیم کر لیا گیا حتی کہ عباسیوں کے بعد سلاطین ترک نے قریشی خلیفہ کی شرط بھی قائم نہ رہنے دی تو بھی کسی مستند عالم دین نے غیر قریشی ہونے کی بنا پر ان کی خلافت کا ناجائز نہیں قرار دیا۔ بعض سلاطین نے تبرکا خلیفہ سے اپنی حکومت کی توتیق کروائی اور بعض نے خلیفہ سے زبردستی اپنے حق میں اجازت لی اور ہم ان سلاطین کو اپنا ہیرو مانتے ہیں سلاطین ہند میں بھی کچھ ہی سلاطین نے خلیفہ کی تبرکا اجازت کی ضرورت محسوس کی وگرنہ زیادہ تر نے اس کا تکلف نہیں کیا اور حتی کہ مغل بادشاہوں نے خود کو خود مختار بادشاہ قرار دیا اور مجدد الف ثانی وغیرہ جیسے علما نے بھی اس کو غلط نہیں قرار دیا، اس تمام پس منظر کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ اسلامی فلسفیوں نے بھی کسی واضح نظام حکومت کا تصور پیش نہیں کیا فارابی، ماوردی اور کندی کے مباحث نے خلیفہ کی جو شرائط بیان کی ہیں وہ یونانی فلسفیوں کی نقالی کی گئی ہے۔ تین سو سال پہلے جب قومی ریاست کا تصور پیش ہوا تو عالم اسلام میں افغانسان، ایران اور ترکی جیسے ممالک میں حکومتیں قائم تھیں اور کہیں بھی مسلم قوم کی بات نہیں ہوئی حتی کہ جب عرب قومیت کے نام پر ترکی کے خلاف بغاوت ہوئی اور آزاد عرب ریاستیں قائم ہوئیں تو کہیں بھی مسلم قومیت کی بات نہیں ہوئی اور عبدالعزیز نے جب علی بن حسین شریف مکہ کے خلافت کے دعوی کو تسلیم نہیں کیا اور حجاز پر قبضہ کرلیا تو کسی بھی مسلم عالم نے خلافت کے خاتمے پر عبدالعزیز کو کافر نہیں کہا اور انتہا پسند اسلام کے اس اہم داعی نے کبھی یہ ضرورت نہیں محسوس کی کہ خود خلیفہ ہونے کا دعوی کرے اس لئے یہ بات کم از کم اہل سنت کی حد تک عالم اسلام میں اجماع کی حیثیث رکھتی ہے کہ اسلام میں نظام حکومت کی کوئی متعین شکل نہیں ہے اور نہ کوئی مسلم قوم کا تصور ہے یہ ہندوستانی مخصوص حالات تھے جہاں برصغیر کے سیاسی راہنمائو ں نے مسلم قومیت کی بات کی مگر مسلم قومیت کے اہم مخالفین میں حسین مدنی اور ابوالکلام آزاد جیسے لوگ تھے جن کو انتہا پسند بھی اس اختلاف پر گمراہ نہیں ٹہراتے اور مسلم قومیت کے داعیوں نے بھی کبھی برصغیر کے باہر کے مسلمانوں کو اپنی قومیت کا حصہ بنانے کی بات نہیں کی۔ ۔ خلافت کبھی بھی اہل سنت کے نزدیک ایک متعین نظام حکومت نہیں رہا

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply