• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مجھے زبردستی تخلیق کرکے خدا نے جبری ظلم کیوں کیا؟

مجھے زبردستی تخلیق کرکے خدا نے جبری ظلم کیوں کیا؟

مجھے زبردستی تخلیق کرکے خدا نے جبری ظلم کیوں کیا؟
سوال: میں نے خدا کو کوئی ایپلیکیشن (درخواست) نہیں دی تھی کہ وہ مجھے پیدا کرے. مجھے زبردستی تخلیق کرکے خدا نے جبری ظلم کیوں کیا؟
جواب: گستاخی معاف مگر خدا کے خلاف پرچہ کٹوانے سے پہلے آپ کو چاہیئے کہ اپنے والدین پر جبر کا مقدمہ دائر کردیں. انہوں نے مل کر آپ کی کسی درخواست یا اپروول کے بغیر آپ کو اس دنیا میں لانے کی سازش کی. آپ کی والدہ نے آپ کو جبری طور پر نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا. پھر ان دونوں نے آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف اسکول میں ڈال دیا. جہاں آپ کو اساتذہ کے ساتھ مل کر سختی سے وہ بھی پڑھوایا جو آپ پڑھنا نہیں چاہتے تھے. زبردستی امتحان دلوائے. اس طرح کے جرائم کی طویل فہرست موجود ہے. جو انکے مسلسل جبر کی داستان بیان کرتی ہے. اس لئے اگر اس دنیا میں کوئی آپ کیلئے سب سے بڑا مجرم ہے تو وہ آپ کے والدین ہیں. لیکن یہ کیا؟ آپ تو اپنے والدین سے ناراض نہیں ہوتے. آپ تو ان کی ان جبری سازشوں پر ان کا شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں. آپ تو ان والدین کو کوستے ہیں جو حمل ضائع کردیں. موت سے بچنے کیلئے آپ اپنا مال پانی کی طرح لٹا دیتے ہیں. آپ کے کسی عزیز کی جان کسی حادثے میں بچ جائے تو شکرانے کے نوافل پڑھتے ہیں. آپ تو ہر سال اپنی سالگرہ کی مبارکبادیں سمیٹتے ہیں. اپنے بچوں کی پیدائش پر سارے علاقے میں مٹھائیاں بانٹتے ہیں. اولاد نہ ہو تو مہنگے سے مہنگا علاج کرتے ہیں. خدا سے منتیں مانگتے ہیں. اگر خدا نے آپ کو پیدا کرکے آپ پر ظلم کیا ہے تو آپ کے والدین اسی منطق سے کیوں ظالم نہیں؟ اور آپ جو اولاد پیدا کرتے ہیں تو آپ خود ظالم کیسے نہیں؟
.
میرے عزیز سچ یہ ہے کہ عمومی طور پر ہم بحیثیت انسان یہ خوب جانتے ہیں کہ زندگی ایک عظیم ترین تحفہ اور عطیہ خداوندی ہے. بیش قیمت تحفہ پر دینے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ میں نے تحفہ کیلئے کوئی ایپلیکیشن تو نہیں دی تھی. میں جانتا ہوں کہ بعض افراد کیلئے زندگی ایسی سخت ہوجاتی ہے کہ وہ خودکشی تک کربیٹھتے ہیں مگر اس میں قصور ان حالات و واقعات کا ہوتا ہے جو دوسرے انسان اسکے لئے کھڑے کردیتے ہیں یا اس کی اپنی ان حماقتوں کا ہوتا ہے جو زندگی جیسی نعمت کو بھی اس پر بوجھ بنا دیتی ہیں. وگرنہ ایسی حالت میں بھی اگر خودکشی کرنے والے شخص کو بہتری کی کوئی صورت نظر آجائے تو وہ کبھی زندگی کی نعمت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا. اب آپ کو میں بتاتا ہوں کہ آپ کا اصل مسلہ کیا ہے؟ آپ کی اصل شکایت یہ ہے ہی نہیں کہ آپ کو زندگی کی نعمت کیوں دی گئی؟ آپ کا اصل شکوہ یہ ہے کہ آپ کو اس زندگی میں خدائی ہدایات پر عمل کیوں کرنا ہے؟ آپ خفاء اس بات پر ہیں کہ اگر آج آپ نے تقویٰ نہ اختیار کیا تو کل جہنم آپ کا ٹھکانہ بن جائے گی. یہ ہے وہ اصل اشکال جو کسی مسلم کے ذہن میں ایسے سوالات پیدا کرتا ہے. یہ سوچ بڑی تباہ کن اور حماقت پر مبنی ہے. یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اعتراض کرے کہ کسی اچھے کاروبار یا نوکری کرنے کیلئے مجھے پہلے محنت سے پڑھنا اور سیکھنا کیوں ہے؟ ایسی راہ فرار ڈھونڈھنے والے انسان کو نکما تو کہا جاسکتا ہے لیکن درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا. پورا قران انسان کو جنت کی نوید سنا رہا ہے اور حقوق کی ممکنہ تلافی کیساتھ سچی توبہ پر گناہوں کے معاف ہوجانے کی خوشخبری دے رہا ہے. ایسے میں جنت کے اونچے سے اونچے درجات کی چاہ رکھنے کی بجائے کسی ناکارہ وجود کی طرح اپنے پیدا ہونے کو ظلم سمجھ لینا نہایت عجیب ہے.
.
یہ تو تھی بنیادی باتیں جنہیں ہر مسلم کی سوچ کا جزو ہونا چاہیئے. اب اس بات کا بھی جائزہ لےلیتے ہیں کہ کیا فی الواقع خدا نے ہم سے پوچھے بناء ہمیں اس دار الامتحان میں بھیجا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ ہماری تخلیق ‘خلیفہ الارض’ کے طور پر کی گئی. جیسے بیان ہوا {اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرْضِ خَلِیۡفَۃً: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔} لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے اس جسدی وجود سے قبل ہمارے ایک روحانی وجود کو بھی پیدا کیا گیا. جو ہماری اصل شخصیت کا ماخذ ہے. قران حکیم میں بیان ہوا کہ ہمارے اس روحانی وجود میں نیکی اور بدی کے شعور سمیت کئی حقیقتوں کو الہام کردیا گیا. جیسے سورہ الشمس میں ارشاد ہوا {فَأَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقْوَاہَا: ہم نے ا نسان پر اسکی نیکی و بدی کو الہام کردیا ہے-} ہماری اسی شخصیت نے رب سے مکالمہ کیا اور ان کے رب ہونے کا اقرار کیا. ہم میں سے ہر ایک کی روح نے اپنی زمینی منتقلی سے قبل یہ وعدہ اپنے رب سے کیا، اسی وعدے کو عہد اَلَسْتُ سے تعبیر کیا جاتا ہے. ملاحظہ ہو سورہ الاعراف [173-7:171]
.
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ
.
“اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا “کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” انہوں نے کہا “ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں” یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ “ہم تو اس بات سے بے خبر تھے.”
.
بات یہاں تک ہی نہیں ہے بلکہ اس امتحان اور ذمہ داری کو بحیثیت امانت کائنات کی مخلوقات پر پیش کیا گیا تھا. مگر سوائے انسان کے باقی تمام مخلوقات نے اسے قبول کرنے سے عاجزی اختیار کی. سورہ الاحزاب کی ان ٧١ سے ٧٣ آیات پر غور کیجیئے
.
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
.
“ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے”
.
اس آیت کی مختصر تشریح میں یہ جان لیں کہ مفسرین میں اختلاف ہے کہ لفظ امانت سے حقیقی مراد کیا ہے؟ بعض کے نزدیک اس کا مطلب شریعت، بعض کے نزدیک آزادی ارادہ و فکر، بعض کے نزدیک قران حکیم اور بعض کے نزدیک ‘خلیفہ الارض’ کی ذمہ داری ہے. بات جو بھی مراد ہو ، یہ صاف ظاہر ہے کہ قران کے بیان کے مطابق یہ ذمہ داری ہم نے اپنی مرضی سے قبول کی تھی. لفظ ظالم اور لفظ جاہل سے اردو والا ظالم اور جاہل مراد نہیں ہے. عربی میں ظالم وہ بھی ہوتا ہے جو خود کو اپنی استعداد سے زیادہ مشقت میں ڈال لے. اور جاہل وہ جس کی عقل پر جذبات کا پردہ پڑ جائے.
.
یعنی اگر قران کی مانی جائے تو ہم اس جسدی خاکی وجود سے قبل کچھ فیصلے، کچھ وعدے اپنے رب سے کرکے آئے ہیں. ہمیں یہ وعدے یاد کیوں نہیں؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ امتحان کی غرض سے اس یادداشت کو جزوی معطل کر دیا گیا ہے. دوسرا جواب یہ ممکن ہے کہ چونکہ ان کا ارتکاب ہمارے روحانی وجود نے کیا تھا ، اسلئے اس کی روحانی یادداشت بھی ہمارے جسدی یاداشت سے قدرے مختلف ہے. ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ ہم میں اچھائی اور برائی کا شعور کیسے اور کب الہام ہوا؟ مگر یہ شعور ہر انسان میں موجود ہے، اسکے ہم سب گواہ ہیں. ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ ہم نے کب اللہ سے ان کے رب ہونے کو تسلیم کیا تھا؟ مگر ہم اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ایک بنانے والے پر ایمان رکھنا انسانی فطرت میں پنہاں ہے. ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ہم نے اس امتحان کی خدائی ذمہ داری کب اور کیوں قبول کی تھی؟ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس کائنات کی موجود مخلوقات میں اگر کوئی مخلوق ایسی ہے جو کائناتی قوتوں کو مسخر کررہی ہے تو وہ صرف انسان ہی ہے.
.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply