معاذ بن محمود کی تحاریر
معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

متنازعہ موضوعات سے متعلق مکالمہ پالیسی پر ایک جائزہ

زیر قلم اس مضمون کی ضرورت تب پیش آئی جب مکالمہ کے چند قارئین نے عورت مارچ پر رائٹ ونگ کی جانب سے شائع شدہ مضامین پر اعتراض اٹھایا کہ یہ “غلط افکار” معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ایسے خیالات کے حامل قارئین پر میں اس مضمون کے توسط سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مکالمہ حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ اختیار ہم قاری پر چھوڑتے ہیں اور اسے اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ کمنٹس میں اپنی جھنجھلاہٹ نکالنے کی بجائے ہمارے ایڈیٹرز کو اپنا جوابی مضمون بھیجیں تاکہ ہم اسے جواب یا جواب الجواب کے طور پر مکالمہ ویب سائٹ اور موبائل ایپ پر شائع کر سکیں۔ میں مکالمہ کے قارئین کو اس حقیقت کی یاددہانی کروانا چاہتا ہوں کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین اختلافات کا وجود عین قدرتی ہے تاہم انہیں ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش سے انکار معاشرتی سطح پر ایک جرم کی طرح ہے۔←  مزید پڑھیے

سانحۂ کرائسٹ چرچ اور منہ کے مجاہد ۔۔۔ معاذ بن محمود

تیسرا ردعمل ان لوگوں کا سامنے آیا جو افواج پاکستان کی غلطیوں اور نامناسب پالیسیوں پر نالاں رہتے ہوئے افریقہ کے جنگلات میں مارے جانے والے مچھر کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے جوڑ لیتے ہیں۔ اس طبقے نے اس سانحے پر سیدھی اور کھلی مذمت کی بجائے یہاں بھی کسی نہ کسی طرح بلوچستان اور گمشدہ افراد کا ذکر کر ڈالا۔ یہ راز رمز ہی رہے گا کہ یہ تعلق کیونکر اور کس طرح قائم کیا گیا تاہم حقیقت یہی کے کہ ایسے لوگ موجود ہیں اور بدقسمتی سے کئی سنجیدہ اور تعلیم یافتہ دوستوں کو ایسی باتیں کرتے دیکھا۔ ←  مزید پڑھیے

عورت مارچ اور جگت باز معاشرہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

مورخہ ۸ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ ویسے تو یہ عالمی دن پورے عالم میں منایا جاتا ہے تاہم اب کے برس پاکستانی عوام میں اس موقع پر خصوصی جوش و خروش دیکھا گیا۔ وہ←  مزید پڑھیے

رانی ۔۔۔ معاذ بن محمود

رانی کی نظر کونے میں لیٹی بیٹی شہزادی پر پڑی جس کی آنکھیں باپ کے خوف سے بند ہونے کے باوجود نم تھیں۔ اگلے کئی لمحات بشیرے کی جانب سے رانی کے بدن کو فتح کرنے کے سراب میں اپنی شکست سے آنکھیں پھیرنے میں صرف ہوئے۔ وہ لاکھ کوشش کے باوجود اب تک اس تمام عمل کی عادی نہ ہوپائی تھی۔ جس رات بشیرے کا نشہ زیادہ ہوتا یہ جنگ جیسے لامتناہی مدت پا جاتی۔ آج بھی یہی معاملہ تھا۔ ←  مزید پڑھیے

بغض اور غداری ۔۔۔ معاذ بن محمود

بغض ایک لاعلاج مرض ہے۔ یہ مریض کو اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے۔ بغض کے مارے افراد حقیقت، اصول پسندی اور دلیل کا استعمال کر کے مثبت طریقے سے نتائج حاصل کرنے کی بجائے اپنی نفرت کے زیراثر ریورس←  مزید پڑھیے

وڑجیکل سٹرائیک ۔۔۔ معاذ بن محمود

بھایا۔۔ کا کر رے ہیں؟ کچھ نہیں بس خالص بھری ہاتھ لگی تھی، سوچا دو دو ہاتھ کر لیں۔ آپ سُنائیے؟ ارے کچھ نہیں بھایا۔ اوپر سے حکم آیا ہے۔ ہم کا واک پہ جانا ہوگا۔  ناہی کیجیے۔ رات کے←  مزید پڑھیے

ول یو بی مائی ویلینٹائن؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

میرے ہونے والے نئے جانو۔۔۔ بعد سلام، جو میں نے کیا ہی نہیں، اور کروں بھی کیوں کہ میری ادائیں اور میرے نخرے مجھے روکتے ہیں، عرض ہے، بلکہ حکم سمجھو کہ میں اپنے موجودہ بوائے فرانڈ سے اکتا چکا←  مزید پڑھیے

باغی کون؟ آپ یا ہم گوبھیاں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

حضور والا، راؤ انوار نے کون سا کشتہ یا کون سی سلاجیت کھائی ہے کہ اس کے پاس اس قدر طاقت آگئی کہ چار سو قتل کر کے بھی وہ اپنے گھر میں عیاشی کر رہا ہے؟ سرکار، آپ لوگ بندوق والوں کی جی حضوری کرتے ہوئے کہتے ہیں انہوں نے بالکل خواتین کی بے حرمتی نہیں کی۔ ہم آپ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ خواتین سے دراندازی کا امکان ہم کم از کم پاک فوج کی جانب سے مکمل رد کرتے ہیں۔ ہمارے جوان اس نہج پر ہرگز نہیں جا سکتے۔ لیکن حضور، آپ کے کئی حوالدار یہ بات برملا مانتے ہیں کہ آپ ہی کے لوگوں نے خیسور کے حیات خان کے گناہوں کے بدلے اس کے باپ اور بھائی کو اٹھایا ہوا ہے۔ اور پھر آپ کہتے ہیں نامعلوم افراد بندے غائب نہیں کرتے؟ جناب عالی، سانحہ ساہیوال بیج بونے والی ریکی کس نے کی؟ آپ نمبر ون ہیں، جہاں تک ہمیں آپ کے حوالدار بتاتے ہیں۔ کیا یہ سوال اٹھانا ناجائز ہے کہ ایسے کتنے اور واقعات پیش آئے جہاں معصوم افراد کو دہشتگرد بنا کر ان کے اہل خانہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگایا جا چکا ہے؟ حضور، کیا ہم نہیں جانتے کہ نقیب اللہ جیسے جوان سمیت چار سو افراد کو قتل کرنے والا راؤ انوار ذاتی حیثیت میں ہرگز اس قدر طاقتور نہیں ہو سکتا کہ اسے چھوا بھی نہ جا سکے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ ریاست پاکستان میں وہ کون سی واحد طاقت ہے جس کے آگے تمام ادارے تمام قانون اور ضابطے بے بس پڑ جاتے ہیں؟ سرکار، کیا یہ حقیقت نہیں کہ راؤ انوار نے یہ سینکڑوں قتل اس دور میں کیے جب رینجرز کو سندھ میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی؟ ←  مزید پڑھیے

ہو جس سے اختلاف اسے مار دیجیے ۔۔۔ معاذ بن محمود

آج اگر ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ پولیس کے زیر حراست قتل ناجائز ہے تو پہلے اس ناجائز کو منطقی انجام تک پہنچائیے۔ جب خود کش دھماکے ہو رہے تھے تو ہمیں بیک آواز ان کی مذمت کرنی تھی پھر چاہے خود کش کے ذہن میں ستر حوریں چل رہی ہوں یا پھر ان کی برین واشنگ ہوئی ہو۔ جو سوالات ایک کھلے قتل کو سازش ثابت کرنے کے لیے آپ اٹھا رہے ہیں وہ ذیلی ہیں۔ اصل اور اہم ترین مدعا یہ ہے کہ یہ قتل ہوا ہی کیوں۔ احتجاج کرنے والے کو پولیس اٹھا کر کیوں لے کر گئی۔ کیا دھاندلی کے خلاف کنٹینر پر احتجاج کرنے والا، یا عدلیہ بحالی لے لیے لانگ مارچ کرنے والا کسی پشتون کے احتجاج کی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے؟ اگر نہیں تو جو حق انہیں تھا آج اپنا پرامن احتجاج کرنے والوں کو کیوں نہیں؟←  مزید پڑھیے

مردِ آہن ۔۔۔ معاذ بن محمود

یہ ایک وسیع ہال تھا جسے انگریز کے زمانے میں کوئلہ ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں دیواروں پر رنگ کی تہہ در تہہ جمی پڑی تھی جسے ذرا سا کھرچنے پر کوئلے کی کالک حال کو←  مزید پڑھیے

ٹنڈو بہاول سے ساہیوال تک ۔۔۔ معاذ بن محمود

وہ دونوں اپنے ہنستے بستے گھرانے کی تباہی کے بدلے انصاف مانگنے سربازار کھڑی ہیں۔ زندگی کا بوجھ اٹھائے وہ حاکم وقت سے انصاف کی بھیک مانگ مانگ کر تھک چکی ہیں۔ رات ماں سے لپٹ کر دونوں جس قدر ممکن ہوا جی بھر کر رو چکی ہیں۔ آنسو ہیں کہ خشک ہیں۔ زندگی اب ویسے بھی بے معنی ہے کہ ان کے محافظ منوں مٹی تلے دفنائے جا چکے ہیں۔ ماں کی پتھرائی آنکھیں اور معاشرے کی بے حسی اب انہیں احساس سے ماورا اقدام کی چٹان پر کھڑا کر چکے ہیں۔ ان کا احتجاج اب ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ شاید فیصلہ ہوچکا ہے تبھی تاخیری حربے آزمائے جارہے ہیں۔ مگر فیصلہ ان دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ شاید کوئی اور ہوتا تو رو دھو کر خاموش ہوجاتا لیکن ہر کوئی کہاں ان دونوں کی طرح ضدی ہوا کرتا ہے؟←  مزید پڑھیے

حاجی صاحب کا اسلامی ائیر لائن میں پہلا سفر ۔۔۔ معاذ بن محمود

دورانِ سفر قصیدہ بردہ شریف کے پر کیف الفاظ ہمیں ریاست مدینہ اوّل میں لے گئے تھے۔ اس پر مزید بہتری یوں ہوئی کہ سفر کے دوران کھانے میں دو عجوہ کھجوریں اور نصف کپ اونٹنی کا دودھ ملا۔ واللہ سفر کا مزہ دوبالا ہوا۔ مزید بھوک محسوس ہوئی تو ہم نے جیب سے کے ایف سی کا بچا ہوا زنگر نکال کر پیٹ کے تین حصے بھرے۔ ایک حصہ خالی چھوڑنا ضروری تھا لہذا جہاز کے استنجا خانے میں جا کر مارلبرو کی بیڑی پھونکی کہ خالی حصے میں کچھ ہوا بھر جائے تاکہ تین حصے کھانا اس حصے پر قابض ہونے سے باز رہے۔ بخدا بندے کی نیت صاف ہو تو اللہ تبارک و تعالی دماغ میں کوئی نہ کوئی راستہ سجھا ہی دیتا ہے۔ ←  مزید پڑھیے

قارئین کرام کی مختلف اقسام ۔۔۔ معاذ بن محمود

پچھلے چند سالوں میں انٹرنیٹ پر اردو لکھت پڑھت کے حوالے سے کافی مثبت پیش رفت ہوئی۔ تیزی سے معدوم اور رومن رسم الخط کے ہاتھوں برباد ہوتی اردو نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی تک←  مزید پڑھیے

موٹیویشنل سپیکنگ ۔۔۔ معاذ بن محمود

آپ نانبائی ہیں اور گاہک آپ سے بدتمیزی سے بات کر رہا ہے تو آپ تندور میں خاموشی سے تھوکنا شروع کر دیجیے۔ گاہک جا وقت تھوک والی روٹی خوشی خوشی آپ کو ذلیل کر کے اپنی جیت کے احساس کے ساتھ گھر لے جا رہا ہوگا عین اسی وقت آپ ایک کمینی سی خوشی محسوس کر رہے ہوں گے جو آپ کو موٹیویٹ کرے گی۔ آپ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں اور کسی بات پر غصہ ہے تو پروڈکشن سرور ڈاؤن کر کے نیٹورک ٹیم پر الزام لگا دیجیے۔ آپ خاتون خانہ ہیں اور بچوں پر تپی ہوئی ہیں تو اپنے شوہر سے الجھنا شروع کر دیں اسے ٹھنڈا ٹھنڈا جلانا شروع کر دیں، سکون پائیں گی۔←  مزید پڑھیے

قصہ ایک کوکین زدہ بادشاہ کا ۔۔۔ معاذ بن محمود

بادشاہ سلامت نے اپنے کمرہ خاص سے باہر نکلتے ملکہ عالیہ کو دیکھا جو گہری نیلی آگ کے گرد بلوچ موسیقی لگائے کوئی چلہ کاٹ رہی تھیں۔ بادشاہ کو اس لمحے وہاں کچھ غیر مرئی مخلوقات کی موجودگی کا شائبہ ہوا جو اس موسیقی پر لڈی ڈال رہی تھی۔ “بلوچ موسیقی پر لڈی؟” بادشاہ سلامت ابھی یہ سوالیہ سوچ ذہن ہی میں لائے تھے کہ ملکہ عالیہ کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ “تینوں کی؟ میری موسیقی میرے مؤکل میری مرضی”۔ بادشاہ سلامت کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے وقوعہ سے کلٹی ہونا مناسب سمجھا۔ ←  مزید پڑھیے

بیضوی خواب ۔۔۔ معاذ بن محمود

اس دوران اس کی نظر ساتھ بیٹھی ایک سو پچیس کلو وزنی خاتون پر پڑی۔ جانے کیوں خاتون کی نظریں اس کی شلوار پر جمی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے خاتون کی آنکھوں سے قہر برس رہا ہو۔ اب وہ پریشان ہو رہا تھا۔ جانے کیا بات تھی۔ ←  مزید پڑھیے

صور پھونک ۔۔۔ معاذ بن محمود

“ماما آپ رو کیوں رہی ہیں؟ اور بابا کیوں اداس خاموش بیٹھے ہیں؟ یہ آپ دونوں کی آنکھیں کیوں سوجی ہیں؟” اس نے سوال کیا مگر جواب نہ ملا۔  پچھلے کئی گھنٹوں سے جو کچھ ہو رہا تھا اس کی←  مزید پڑھیے

موبائل فونز ٹیکس، DIRBS سسٹم اور چند گزارشات ۔۔۔ معاذ بن محمود

پہلی اہم بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ یہ ایس او پی جون ۲۰۱۸ میں تخلیق کی گئی (لنک میں پی ڈی ایف دستاویز کی تاریخ لکھی ہوئی ہے)۔ ظاہر ہے اس پر کام اس سے کہیں پہلے سے جاری ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ قدم کئی زاویوں سے بہتر بھی ثابت ہوگا لہذا ہم اس کے مثبت اثرات سے بات شروع کرتے ہیں۔ ←  مزید پڑھیے

کتب خانہ ۔ ایک خبر ایک افسانہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

سفید پوش شخص کے پاس کھونے کے لیے عزت کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا۔ عزت پر حرف لانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کے بس میں نہ تھا۔ وہ سوچ میں غرق تھا کہ کیا کرے۔ لیکن حل بھلا کہاں ذہن میں آنا تھا کہ تھا ہی نہیں۔ وہیل چئیر بھی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے اپنا بستر اپنی لائبریری ہی میں لگوا لیا تھا۔ ←  مزید پڑھیے

سائینس اور مذہب: کیا ضد ضروری ہے؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

ذاتی حیثیت میں کم سے کم میں سائینس اور مذہب کو ٹکراؤ میں نہیں پاتا۔ سائینس جستجو کا نام ہے۔ مذہب ایمان باالغیب کا۔ جستجو کا حکم مذہب کی طرف سے دیا گیا ہے جبکہ جستجو بذات خود یقین کی جانب سفر کی تحریک ہے۔ آج ہم سائینس کے دائرے میں کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم علم کامل کے حامل نہیں لیکن اس کے حصول میں لگے رہیں گے تاکہ ہر نئے علم کو بنی نوع انسان کی خدمت میں استعمال کیا جاسکے۔←  مزید پڑھیے