کتب خانہ ۔ ایک خبر ایک افسانہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

اس کی آنکھوں میں اچانک چمک پیدا ہوگئی۔ 

“سات کتابیں، ایک ساتھ، وہ بھی آدھی قیمت میں؟”

اسے یہ کتابیں حاصل کرنی تھیں۔ کسی بھی قیمت پر۔ لیکن سات کتابوں کی “کوئی بھی قیمت” تو درکنار، وہ شاید ایک کتاب کو نصف دام خریدنے کے قابل بھی نہ تھا۔ 

“روٹی، کپڑا اور مکان” یا اس جیسے دیگر نعرے عموماً وہیں سے بلند ہوا کرتے ہیں جہاں افراد کے منہ میں سونے کا نوالہ، تن پر ابریشم و استبرق کے لباس اور رہنے کو عظیم الشان محلات ہوا کرتے ہیں۔ ریاستوں کے والی، بین الاقوامی جامعات سے فارغ التحصیل، مال و دولت کی فراوانی میں غرق انسانوں کی تالیف قلوب سے اطمینان کسی قدر کم کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں جو لوگ خداوند کریم کے اس اشارے کو سمجھ کر اپنے پرتعیش خول سے باہر نکل کر حقیقی سکون کے متلاشی بن نکلتے ہیں تاریخ انہیں سدھارتھ اور گوتم بدھ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ جو لوگ اس تلاطم کو مادی دنیا میں مزید کی ہوس سمجھتے ہیں وہ “نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم” کے مصداق دنیا میں بھی مزید کی تلاش میں خوار رہتے ہیں اور آخرت میں بھی جہنم کی پکار “ھل من مزید” کا شکار بنتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ مالدار جو راہ بھی اپنائے، اصل امتحانی مرکز خال جیب والے اشخاص ہی ہوا کرتے ہیں۔

وہ بھی قدرت کی جانب سے متعین کردہ خالی جیب والے ٹیسٹ کیسز میں سے ایک تھا۔ سفید پوش گھرانے میں پیدا ہوا۔ والدین اسے تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ خود بھی علم کا متلاشی تھا۔ روٹی لاتے ہوئے نانبائی جس اخبار میں روٹی لپیٹ کر دیتا وہ اسے کھانا کھاتے پڑھتا رہتا۔ اخبار کے فقط ایک حصے میں ہی ایسے کھو جایا کرتا کہ روٹی ٹھنڈی ہوکر اکڑ جاتی۔ والدین نے علم کا اشتیاق دیکھتے ہوئے اسے اپنی طرف سے اوسط سرکاری سکول میں داخل کروا دیا۔ واجبی سی فیس، اور عموماً جان چھڑانے والے اساتذہ کے سامنے یہ بچہ اپنی کوششوں سے آگے بڑھتا رہا۔ اخبار کے تراشے، گھر میں موجود مذہبی کتابیں، ابا جی کے رسالے، جو ملا جہاں ملا پڑھ ڈالا۔ 

“ہاں بھائی، لینی ہیں یا نہیں؟ بازار پھر لو، اتنی کتابیں اس دام میں کوئی نہیں دے گا۔”

اسے دوکاندار کی بات ٹھیک بھی لگی اور غلط بھی۔ وہ ردی کے بازار میں استعمال شدہ کتابوں کی فقط ایک دوکان تھی۔ یہاں استعمال شدہ کتابیں چسپاں قیمت کے نصف یا چوتھائی کے حساب سے ملا کرتیں۔ یوں دوکاندار کی بات ٹھیک تھی۔ مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ ردی والا خود یہ کتابیں وزن کے حساب سے کوڑیوں کے مول خریدا کرتا تھا۔ 

“ایک منٹ رکنا، میں بس پانچ منٹ میں واپس آکر تم سے یہ کتابیں خریدتا ہوں۔”

کتابیں خریدنی ضروری تھیں۔ اس نے ایک دن اپنی ذاتی لائبریری بنانی تھی۔ یہ اس کے زندگی کے مقاصد میں سے ایک تھا۔ مطالعے کے رسیا اس نوجوان کو کتابوں پر اور کتابوں کر اس پر فخر تھا۔ 

پانچ منٹ کے اندر اندر وہ چار دوکانیں چھوڑ کر گھڑی ساز کو اپنی سکہ سکہ جمع کر کے خریدی گھڑی بیچ کر بدلے میں ملی رقم سے کتابوں کا وزن ایک ٹرافی کی طرح گھر لے آیا۔ 

انٹر تک اس کے پاس تین سو کے لگ بھگ کتابیں جمع ہوچکی تھیں۔ 

“روٹی کپڑ اور مکان” سے بات اب اسلامی نظام کے نفاذ تک پہنچ چکی تھی۔ جانے یہ کون سا اسلامی نفاذ تھا کہ جس کا نفاذ ہو کر نہیں سے رہا تھا۔ غریب پہلے سے غریب تر ہوتا جارہا تھا اور امیر امیر تر۔ سربراہ مملکت آئے دن غرباء و مساکین میں زکوات خیرات تقسیم کرتے نظر آتے مگر وہ لوگ کیا کر سکتے ہیں جن کی شرافت انہیں دھوکہ، فریب، رشوت خوری سے دور رکھتی ہے اور جن کی سفید پوشی انہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے روکتی رہتی ہے؟ ان سفید پوشوں کے پاس دو وقت کی روٹی، سال میں دو تین جوڑے کپڑے اور سر پر چھت جاری رکھنے کے لیے واحد طریقہ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنا ہی بچتا ہے۔ 

بی ایس سی تک اس کی ذاتی لائبریری کی خواہش بھی دم توڑنا شروع کر چکی تھی۔ گھر میں والدین اور بہن بھائیوں کے اخراجات کے بعد کتابوں کے پیسے بھلا کہاں بچتے۔ پھر بھی وہ مر مار کر اپنے مطالعے کی بھوک مٹاتا رہتا اور کہیں نہ کہیں سے جتنی ممکن ہوں کتابیں اپنی لائبریری میں سجاتا رہتا۔

ماسٹرز کے بعد والدہ نے اس کی شادی کروا دی۔ اب گھر والوں میں ایک نفر کا اضافہ ہوچکا تھا۔ حالات مشکل تر ہونے کے قریب تھے لیکن پھر اس مشکل دور میں خوشی کی کرن نوکری کی شکل میں عطا کی گئی۔ اب وہ ایک کالج میں بحیثیت لیکچرار متعین ہوچکا تھا۔ گھر والوں کی خدمت اور ساتھ ساتھ اپنی لائبریری کا خواب، دونوں ایک بار پھر ممکن نظر آنے لگے۔ 

کچھ عرصے میں اللہ تعالی نے اسے اولاد سے نواز ڈالا، اور اولاد بھی جڑواں بیٹیاں۔ اس کا آنگن بھر چکا تھا۔ چند سال بعد ایک چاند سا بیٹا اس کے آنگن کو مکمل کر گیا۔ اسے محسوس ہوتا کہ شاید زندگی میں اب کوئی کمی باقی نہ رہے گی۔ ایک بار پھر اپنی توجہ مطالعے اور ذاتی لائبریری کے شوق پر مرکوز کر ڈالی۔ لیکن خرچے بھلا کب، کہاں اور کیسے گھٹتے ہیں۔ پہلے صرف اپنے لیے دال چاول، لباس اور گھر کا بندوبست کرنا تھا۔ اب کے اپنے ساتھ ساتھ بیوی بچوں کی ذمہ داریاں بھی کاندھوں پر تھی۔

بچوں کی پیدائش تک چھوٹی بڑی تمام ملا کر دو ہزار کے قریب کتب جمع ہوچکی تھیں۔ ان میں کئی کتابوں کے نادر اور نایاب نسخے بھی شامل تھے۔ اب تک وہ پروفیسر بھی بن چکا تھا۔ یوں اس کی ذاتی لائبریری کالج کے دیگر اساتذہ کے لیے ایک حیثیت رکھنے لگی تھی۔ اپنی لائبریری میں ہر شخص کے قدم داخل ہوتے ہوئے اسے ایک عجیب سا فخر محسوس ہوتا اور اس کا سر ایک خوشی سے سرشار ہوجاتا۔ 

بچے دن بدن بڑے ہورہے تھے اور اس کا سکوٹر روز بروز پرانا۔ ایک دن بارش میں روٹی، کپڑے اور مکان کے حصول کی تگ و دو کے دوران اس کا سکوٹر حادثے کا شکار ہوگیا۔ کہتے ہیں روٹی کپڑے اور مکان کا وعدہ کرنے والے کا بیٹا نشے میں دھت اس کا سکوٹر کچل گیا تھا۔ خیر، ملک میں قانون کا بول اس قدر بالا ہے کہ واقعے کی ایف آئی آر بھی درج نہ ہوسکی۔ یوں عین اس وقت جب بچوں کی ذمہ داری سکول سے کالج کے عہد میں منتقل ہورہی تھی، وہ وہیل چئیر کا سہارا سیکھنا شروع کر رہا تھا۔ 

کالج والوں کہ مہربانی کہ اس کی نوکری بحال رکھی۔ اس کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اس کے بچوں نے اس کی لائبریری اوپری منزل سے اس کے برابر والے کمرے میں شفٹ کر دی۔ یہ فیصلہ دونوں بیٹیوں کا تھا جو باپ کی خواہش کے لیے اپنا کمرہ اوپر منتقل کر گئیں۔ اس دن اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ خوشی کے آنسو۔ اور دکھ کے آنسو۔ اپنی کتابیں واپس دسترس میں آنے کی خوشی۔ اپنی بیٹیوں کے عنقریب بیاہ ہونے کا دکھ۔ 

اور بیاہ ہوگا کیسے؟ یہ وہ نہیں جانتا تھا۔

ذاتی کتب خانے کا خواب پورا ہونے کے قریب تھا۔ ساٹھویں سالگرہ پر بچوں نے مل کر اپنے جیب خرچ سے آخری بیس کتابیں تحفے میں دیں۔ آج اس کا خواب پورا ہوچکا تھا۔ 

ساری زندگی جہیز کو ایک لعنت سمجھنے کے باوجود، وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ وقت پڑنے کر اسے بھی اس لعنت کا شکار ہونا پڑے گا۔ اب وہ ساٹھ سال کا ہونے کو تھا۔ بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ اس کے پاس جمع پونجی کے نام پر فقط اتنا ہی پیسہ تھا کہ گسی حادثے کی صورت میں استعمال ہوسکے۔

ساری عمر پروفیسر بن کے جو عزت کمائی وہ اسے ہاتھ پھیلانے سے منع کرتی تھی۔

لیکن بیٹیوں کا بیاہ؟ 

قرض پر اس کا دل تیار نہ تھا۔ ریٹائرمنٹ میں دو سال باقی تھے مگر جلد ریٹائرمینٹ کا فیصلہ لینا پڑا۔ اب امید تھی کہ کسی حد تک مالی مسائل حل ہوجائیں گے۔ 

انتخابات حال ہی میں گزرے تھے۔ شہر میں ہر سیاستدان ابھی کچھ ماہ پہلے تک ایک بار پھر روٹی کپڑا اور مکان کی طرز کے نعرے لگوا رہا تھا۔ لیکن انتخابات ہوتے ہی ہر بار کی طرح ایک بار پھر غریب کا استحصال شروع ہوچکا تھا۔ پیٹرول ہو یا آٹا، دال، چاول، ہر چیز پر ایک نیا ٹیکس نافذ ہوچکا تھا۔

اس کی وہیل چئیر اب پرانی ہوچکی تھی۔ اکثر اوقات پہیہ پھنس جاتا اور پھر کسی نہ کسی کی مدد لازمی پڑ جاتی۔ بیٹیوں کے رشتے بھی آچُکے تھے۔ استخارہ بھی بہترین آیا۔ وہ اپنی لائبریری میں بیٹھا کتاب بینی سے فارغ ہوکر شادی کے خرچے کا حساب لگا رہا تھا۔ اس کے سامنے ہندسے ہی ہندسے تھے۔ ایک جانب ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں کے معدودے ہندسے۔ دوسری جانب اخراجات دکھاتے ہندسے ہی ہندسے۔ کچھ دیر تک وہ اخراجات کے ہندسے دبانے کی کوشش کرتا رہا جو قریب قریب اتنے ہی تھے جتنے سرکار سے ملے پیسے۔ لیکن پھر اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنے لگا۔ سرد پسینوں کے ساتھ دل میں گویا ایک خنجر سا چبھنے لگا۔ اس نے وہیل چئیر سرکانے کی کوشش کی مگر ہاتھوں نے ساتھ نہ دیا۔ چلانے کی کوشش کی مگر جیسے جسم میں آواز نکالنے کی قوت بھی نہ رہی ہو۔ وہیل چئیر پر موت سے لڑتے ہوئے وہ اوندھے منہ گر پڑا۔ وہیل چئیر ساتھ ہی پڑی تھی۔ 

ہوش آیا تو ہسپتال میں تھا۔ پتہ چلا دل کا دورہ پڑا ہے۔ تین سٹنٹ ڈلے، دو لاکھ روپیہ خرچہ۔ زندہ تھا، زندگی سے لڑنا جانتا تھا سو مسکرا دیا۔ روتی ہوئی بیٹیوں کو تسلی دی اور ایک بار پھر سوچنا شروع کیا کہ پیسے کہاں سے پورے کرنے ہیں۔ 

سفید پوش شخص کے پاس کھونے کے لیے عزت کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا۔ عزت پر حرف لانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کے بس میں نہ تھا۔ وہ سوچ میں غرق تھا کہ کیا کرے۔ لیکن حل بھلا کہاں ذہن میں آنا تھا کہ تھا ہی نہیں۔ وہیل چئیر بھی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے اپنا بستر اپنی لائبریری ہی میں لگوا لیا تھا۔ 

فجر کے وقت آنکھ کھلی اور ایک خیال آیا۔ آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر تبسم کا وہ امتزاج کچھ ایسا تھا کہ کوئی سمجھتا تو شاید سب کچھ لٹانے کو تیار ہوجاتا۔ لیکن قرضہ بھلا کیونکر اور کیسے لے؟ اس نے فیصلہ کیا کہ یہی واحد راستہ ہے اس مسئلے سے نکلنے کا۔ 

اگلی صبح اخبار میں ایک اشتہار چھپا معاشرے، عوام اور حکومتی اشرافیہ کے چہرے پر تھپڑ مار رہا تھا۔ 

“برائے فروخت”

“ایک ریٹائیرڈ پروفیسر اپنی ذاتی لائبریری کی ۵ ہزار کتب فروخت کرنا چاہتا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے افراد فوری رابطہ کریں۔”

Advertisements
julia rana solicitors

خود کو غریب سمجھنے والے اس شخص کی نظر میں شاید یہ لائبریری کوئی خاص قیمت نہ رکھتی لیکن اس لائبریری کی ایک ایک کتاب انمول تھی جسے خریدنے کو کروڑوں روپے کم تھے۔ دوسری جانب معاشرہ اور ریاست اس جیسے لاکھوں کروڑوں افراد سے منہ موڑے کھڑے تھے۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply