چین نے کل یعنی 7 دسمبر 2018ء کو چاند کی جانب چانگ 4 نامی مشن لانچ کردیا ہے۔اس مشن کی خاصیت یہ ہے کہ یہ چاند کے تاریک حصے پہ لینڈ کرے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ چاند زمین سے قریب ہونے کے باعث tidally lock ہے یعنی اس کا ہر وقت ایک ہی حصہ ہماری جانب رہتا ہے، چاند کا جو حصہ ہماری جانب رہتا ہے اسے روشن حصہ کہتے ہیں جبکہ دوسرے حصے کو تاریک حصہ کہتے ہیں.۔ چاند کا تاریک حصہ انسان نے اس وقت دیکھا جب اپالو مشنز چاند کی جانب گئے لیکن آج تک تمام مشنز چاند کے “روشن حصے” پہ لینڈ ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ چاند کا تاریک حصہ چونکہ زمین کی جانب نہیں رہتا جس وجہ سے اگر کوئی مشن اس جانب لینڈ ہوجائے تو اس کے سگنل زمین تک نہیں پہنچ سکتے۔
لیکن اب چین پہلی بار چاند کے تاریک حصے پہ اپنی خلائی گاڑی اتارے گا، یہ خلائی گاڑی زمین سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے سب سے پہلے سگنلز چاند کے گرد گھومنے والی چینی سیٹلائیٹ Queqio کو بھیجے گی۔ یہ سیٹلائیٹ چین نے چاند کے گرد مئی 2018ء میں بھیجی تھی، چانگ 4 سے آنے والے سگنلز کو Queqio سیٹلائیٹ وصول کرے گی اور زمین کی جانب پھینکے گی،. یوں ہمارا چانگ 4 سے رابطہ بحال رہے گا۔
ہمیں معلوم ہے کہ چاند زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے اس دوران قمری مہینوں کے پہلے اور آخری ہفتے میں جب ہماری جانب موجود چاند کا حصہ black ہوتا ہے تو اُس وقت چاند کے پچھلے حصے یعنی “تاریک حصے” پہ سورج کی روشنی پڑ رہی ہوتی ہے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ چاند کا 14 دن ہماری جانب والا حصہ روشن رہتا ہے اور 14 دن دوسری جانب والا حصہ روشن رہتا ہے یعنی اگر آپ چاند پہ کسی مقام پہ موجود ہو تو 14 دنوں تک دن رہے گا اور 14 دنوں تک رات رہے گی۔
یہی وجہ ہے جب جنوری 2019ء میں قمری مہینے کی آخری تاریخیں ہونگی تو چین اپنی خلائی گاڑی کو چاند کے “پچھلے حصے” پہ لینڈ کرے گا،کیونکہ اس دوران سورج کی روشنی اس حصے پہ موجود ہوگی، ہمیں معلوم ہے کہ چاند پہ atmosphere نہ ہونے کے باعث atmospheric pressure زیرو ہے جس وجہ سے وہاں کوئی جاندار کھلی فضا میں زندہ نہیں رہ سکتا،اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خلائی گاڑی میں ایک سائنسی تجربہ بھی انجام دیا جائے گا۔ اس خلائی گاڑی میں ایک کنٹینر میں بیج اور کیڑوں کے انڈے رکھے گئے ہیں، اندازہ ہے کہ چاند پہ لینڈنگ تک ان بیجوں میں سے پودے نکل آئیں گے اور انڈوں میں سے لاروے۔ لاروا کاربن ڈائی آکسائیڈ produce کریں گے اور پودے آکسیجن۔ یوں ان دونوں میں ایک combination قائم ہوجائے گا جس پہ نظر رکھی جائے گی… ساتھ میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ چاند پہ کم کشش ثقل کی موجودگی میں ان کا behavior کیسا ہوتا ہے۔
اس خلائی گاڑی کے ذریعے چاند پہ پانی کی تلاش کے ساتھ ساتھ دیگر معدنیات کا بھی جائزہ لیا جائے گا، اس کے علاوہ یہ مشن چاند کے درجہ حرارت پہ بھی کڑی نظر رکھے گا، اس مشن سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد انسان کا اگلا مشن چاند کے تاریک حصے میں ایک دیوہیکل ٹیلی سکوپ نصب کرنا ہوگا کیونکہ ہمارا اندازہ ہے کہ چونکہ زمین سے منعکس ہونے والی روشنی اس حصے تک نہیں پہنچ سکتی لہذا وہاں جب 14 دنوں تک رات رہے گی تو اس دوران کئی ایسے کائناتی اسرار دیکھنے کو مل سکتے ہیں جنہیں ہبل ٹیلی سکوپ بھی miss کررہی ہے، اس کے علاوہ چاند اپنے axis پہ ایک ماہ میں سپن مکمل کرتا ہے لہذا اگر اُدھر ٹیلی سکوپ نصب کی جائے تو کسی ایک جانب ٹیلی سکوپ کو فوکس رکھنا بھی آسان ہوگا،انسان اپنے زمینی بِل سے نکل کر کائنات کی گُپ اندھیری کھائیوں میں چھلانگ لگانے کو تیار ہے۔یہ بہت قیمتی وقت ہے۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جب انسان “کائناتی فرش” پہ چلنا سیکھ رہا ہے… مجھے یقین ہے کہ یہ “معصومانہ دور” مستقبل میں سنہری حروف سے تاریخی پنوں کا حصہ بنے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں