بڑھتی آبادی کے مسائل۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

سادہ تجزیئے میں معاملات اتنے خراب نہیں دکھائی دیتے، جتنا کہ اس مسئلے پر آوازیں بلند کی جا رہی ہیں، مثلاً اگر انسانوں کی زمین پہ کثافت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ کچھ ممالک میں آبادی کی کثافت فی مربع کلومیٹر بہت زیادہ ضرور ہے مگر مجموعی طور پر زمین کا خشک حصہ، موجودہ کُل آبادی سے چار گُنا زیادہ بھی اپنے اندر سمونے کی گنجائش رکھتا ہے،
اسی طرح خوراک کا معاملہ ہے، کہ زمین پر پیدا ہونے والی خوراک کی اگر منصفانہ تقسیم کی جائے تو پچیس ارب انسانوں کیلئے کافی ہوگی، اس کے علاوہ سائنس کی ترقی، زراعی مصنوعات کی سالانہ مقدار بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، دوسرے الفاظ میں انسانیت کو کم ازکم مستقبل قریب میں بھوک کا کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیئے۔
تو پھر آبادی کے بڑھنے سے مسئلہ کیا ہے؟ آخر کیوں ھماری زمین بڑھتی آبادی کو برداشت نہیں کر پا رہی؟ درحقیقت وسائلِ فطرت کو اپنی بحالی میں ایک مخصوص وقت درکار ہوتا ہے کہ وہ زمین پر آباد جانداروں کی ضروریات کو پورا کرتے رہیں، مگر روزمرہ کی بنیاد پر انسانوں کی بڑھتی آبادی، فطرت کو اس کی سانسیں بحال کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کا کام دے رہی ہے، آبادی میں اضافہ فطرت کی تباہی کا سامان ہے، بالخصوص ہوا، زمین اور پانی کے ذخائر کی آلودگی، زمینی فطرت کی نبضوں پر بندِ آہنی ثابت ہو رہے ہیں۔
فطرت اس زمین پر طاقتور ترین شے ہے، اور اپنے خلاف اٹھتی قوتّوں پر قابو پانا خوب جانتی ہے، روزمرہ بنیادوں پر سینکڑوں ایسے میکانزم ہیں جو فطرت کی صحت کو بحال رکھنے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، مگر تہذیبی ترقی نے ایک طرف جن سہولتوں کو انسان کیلئے لازم قرار دیا ہے، دوسری طرف انہی سہولتوں کی فراہمی ، فطرت کی آلودگی کا باعث بنی۔ پانی کے ذخائر، ہوا اور زراعی زمینیں اس آلودگی سے خود کو پاک کرنے کی فطری صلاحیت رکھتی ہیں، مگر اس کیلئے انہیں وقت درکار ہے، اور ہماری تعداد و مطالبہ جات اتنے ہیں کہ فطرت کو اپنی بحالی کیلئے وقت نہیں مل پارہا۔بڑھتی آبادی کا خطرناک ترین پہلو یہی ہے، باقی نقصانات صرف تفصیلات کے زمرے میں آتے ہیں۔
ضروری ہے کہ آبادی کے بڑھنے کی وجوہات پہ ایک نظر ڈالی جائے، سب سے بڑی اور پہلی وجہ گرم ممالک میں رہائش ہے، ایسے ممالک میں انسان چار دیواری کے بغیر بھی زندگی کے دن گزار سکتا ہے، جبکہ سرد علاقوں میں یہ ممکن نہیں، سرد ممالک کے باسیوں کی جدوجہد کا بنیادی مرکز، سرد موسم ہی رہا ہے، یہ والدین اچھی طرح سوچ سمجھ کے فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہر بچے کو موسم کے خلاف زندگی کی جنگ جاری رکھنے کیلئے چار دیواری میسر کر پائیں گے؟ اگر نہیں تو بہتر ہے کہ کم سے کم بچے پیدا کئے جائیں، جبکہ گرم علاقے کے باسی نے کبھی اس بارے سوچنے کا تکلف نہیں فرمایا کیونکہ ان کے ہاں، چار دیواری زندگی کے دن پورے کرنے کیلئے اہم ترین عنصر نہیں، ” چار دن کی زندگی فٹ پاتھ یا کسی پیپل کی چھاؤں میں بھی گزاری جا سکتی ہے”۔
دوسری وجہ اجتماعی تعلیم اور شعور کا فقدان ہے کہ انسان اپنی ضروریات اور میسّر مواقع کے تناسب کا درست اندازہ نہیں کر پاتا، انفرادی طور پر بھی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کا مشاہدہ عام سی بات ہے۔
بے شمار ممالک میں ثقافتی و مذہبی روایات کسی قسم کی خاندانی منصوبہ بندی میں آڑے ہیں، یعنی کہ ایسے فعل کو گناہ یا غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے، ایسے ہی معاشروں میں عموماً خواتین کی مصروفیات گھریلو کاموں تک ہی محدود ہوتی ہیں، اور یہ مصروفیات کافی نہیں کہ بطور فرد اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے شخصی اطمینان حاصل کیا جا سکے، اس لیے بچے جننا ہی بہترین حل قرار پاتا ہے۔
آبادی میں اضافے کی ایک حیران کن وجہ غربت ہے، یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے، اگر مال و دولت کی فراوانی ہے تو گھر میں افراد کی تعداد بڑھانے کی طرف دھیان نہیں جاتا، کہ وگرنہ اس دولت کو زیادہ حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا، اور ایسے خاندان میں بڑھاپے کا سہارا بھی درکار نہیں ہوتا کہ نوکر چاکر دستیاب ہوتے ہیں، یہ غریب خاندان ہے جسے یہ فکر رہتی ہے کہ بڑھاپے میں کوئی ہاتھ بٹانے والا ہونا چاہئے، جو دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی کرے، اس لیے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کئے جاتے ہیں، اور کوشش ہوتی ہے کہ لڑکا ہی ہو کہ جسمانی طور پر زیادہ محنت مزدوری کے قابل ہوتا ہے۔
دنیا میں آبادی کے بڑھنے سے انسانی زندگی پر منفی اثرات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں،
سب سے پہلا مسئلہ پینے کے پانی کی فراہمی کا ہے، چند دہائیاں پہلے تک شاید ہی پانی کی کمی سے انسانی جانوں کے نقصان کے بارے کبھی سنا جاتا ہو، مگر آج ،بالخصوص افریقی ممالک میں، یہ عام سی بات ہے اور آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، پانی کی کمی ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو صاف پانی کی قلت، یا پینے کیلئے آلودہ پانی پہ تکیہ کرنا ہے، بے شمار ممالک ،بشمول پاکستان، کا یہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے، اسی آلودہ پانی کے استعمال سے ہی انسان وقت سے پہلے قبروں میں اتارے جا رہے ہیں۔ بے شمار تنظیمیں اس مسئلے کے حل کیلئے عرق ریزی کرتی دکھائی دیتی ہی، مگر جن قوموں کا یہ مسئلہ ہے، وہ خود اس کیلئے سنجیدہ نہیں۔
منصوبہ بندی کے حوالے سے جو حضرات اسے اسلامی خاندانی نظام کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں، ان دوستوں کو اس نکتے پہ غور کرنا چاہیے کہ صرف گزشتہ چالیس سالوں میں، صومالیہ ،کی آبادی میں تین گنا بڑھوتری واقع ہوئی، اسی آبادی کی مہربانیوں سے پیدا ہوتی آلودگی نے ماحول کو اس حد تک متآثر کیا کہ ان چار دہائیوں میں بارشوں کی شرح چار گنا کم ہوئی، نتیجتاً آج پینے کا پانی وہاں ناپید ہے، کیا یہ کسی غیر مسلمان کی سازش ہے؟ یہی حال دوسرے ممالک کا ہے۔
پانی کے بعد دوسرا مسئلہ خوراک کا ہے، سبزی و پھل وغیرہ زمین پہ ہی کاشت کئے جا سکتے ہیں،اور بڑھتی آبادی کے ساتھ زرعی زمین کی حدود سکڑتی چلی جا رہی ہیں، یقینا ایسے میں جانوروں سے لی گئی خوراک کی طرف دھیان جاتا ہے، مگر جانوروں کے چارے کیلئے پیداواری زمین کا ہونا ضروری ہے، اور زرعی زمین کے ساتھ انسان کا سلوک سوتیلی سے بھی بدتر ہے، آبادی میں بے پناہ اضافہ مزید خوراک کا مطالبہ ہے، اگرچہ زمین پچیس ارب انسانوں کو کھانا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر دنیا کے آدھے سے زیادہ ممالک خوارک کی قلت کا شکار ہیں، کیونکہ زمین ، آب اور ہوا کو آلودہ کرتے ہوئے انسان خشک سالی کو اپنا مقدر بنانے کی ضد پہ اڑا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے ممالک کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی سرّے سے بے روزگار ہے، گویا کہ صرف اناج کے دشمن ہیں، مصنوعی خوراک کی طرف دنیا قدم اٹھا چکی ہے، مگر اس کے انسانی جسم و دماغ پہ کیا اثرات ہونگے، اس بارے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ توانائی اور ایندھن کے ذخائر یقینا لامحدود نہیں، ان کا استعمال ایک خاص وقت تک ہی ممکن ہوگا، جتنی تیز رفتاری سے آبادی میں اضافہ ہوگا، ان وسائل کی معیاد اتنی محدود ہوتی جائے گی، بشرطیکہ انسان ان وسائل کا نعم البدل دریافت کر لے، ان ناگزیر وسائل کا استعمال فطرت کی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے اور ان کے بغیر چارہ بھی نہیں، اس لیے ان کا ہوشمندانہ استعمال ہی خطرے کو ٹالے رہنے میں مددگار ہوگا کہ فطرت کو بحالئ صحت کا موقع دیا جاتا رہے۔ بڑھتی آبادی میں روزگار کے مواقع کا بڑھانا ناگزیر عمل ہے کہ بے روزگاری تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ اور وجۂ بھوک ہے، اور یہی انسان کو جنگوں میں دھکیلنے کا باعث ہے، گویا کہ آبادی کے بڑھنے سے ، اسی تناسب میں روزگار کے مواقع بڑھانا ناگزیر ہے اور اس کیلئے کارخانے ، فیکٹریوں اور مختلف پاور سٹیشنز و دیگر انٹرپرائزز وغیرہ کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا، یہ عمل پھر آلودگئ فطرت کا باعث بنے گا، گویا کہ جس طرف سے بھی مشاہدہ کیجئے، آبادی کا بڑھنا، فطرت کی آلودگی کا موجب ہے، اگر اس پہ قابو نہ پایا گیا تو فطرت بدلہ لینا خوب جانتی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ایک چھوٹی سی مثال پر غور کیجیے، آبادی کی بدولت ،کاشت کاری کے قابل زمین روزبروز گھٹتی جا رہی ہے، اور جو ہے، وہ آلودگی کی بدولت اپنی صلاحیت کھوتی جا رہی ہے، اس آلودگی میں صرف پلاسٹک بیگ کے ہولناک کردار پہ ایک علیحدہ سیمینار منعقد ہونا چاہیے، مگر پلاسٹک بیگ کے بغیر کیا چارہ ہے؟ یہی کہ کاغذ کے تھیلے استعمال کئے جائیں، ہماری آبادی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہمیں کاغذی تھیلوں کی جو تعداد چاہئے ہوگی، اس کو پورا کرنے کیلئے چترال سے کراچی تک کے جنگلات، جڑ سمیت کاٹنے ہوں گے، اس کے بعد کی بھیانک صورتِ حال کا ہر ذی شعور شخص اندازہ لگا سکتا ہے، اسی طرح انسانوں کی تعداد میں اضافے سے خوراک کی مطلوبہ مقدار بڑھتی جا رہی ہے، پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے، اس لیے ہم فی الحال خوراک کی بابت اس قریب آتے چیلنج کا درست اندازہ نہیں کر پا رہے، مگر جو ممالک اس بارے کم خوش نصیب واقع ہوئے ہیں، وہاں صورتحال کافی گھمبیر ہے، لہذا ہمیں اپنی بڑھتی آبادی پہ سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے، سادہ سی بات ہے کہ اگر آپ پانچ سات بچوں کی پرورش و تعلیم کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں تو ایک دو پر ہی اکتفا کیجئے۔ وطنِ عزیز کے ہر شہری کو دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کرنی چاہیے کہ کسی حکومت نے اس ٹائم بم کے متعلق سنجیدہ غور کرنے کی زحمت کی، ورنہ یہ اہم ترین مسئلہ اس سے پہلے کے معدہ پرست حمکرانوں کی فہرست میں شامل نہ تھا، اس پر کوئی پیش رفت ہو پائے گی کہ نہیں، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ یہ درست ہے کہ سُودی نظام اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے انسانیت پر نازل ہوتی آفتوں کو گھمبیر تر بنا دیا ہے، مگر بڑھتی آبادی کے سنجیدہ نقصانات کا، فقط سودی نظام کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے، نہ تو ان نقصانات سے مفر ممکن ہے اور نہ ہی اجتماعی انسانی بھلائی کیلئے انفرادی کوششوں کو نظر انداز کرنا کوئی دانا فیصلہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply