• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • شام امن سے جنگ تک:دمشق کا چہرہ امن اور جنگ میں۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط5

شام امن سے جنگ تک:دمشق کا چہرہ امن اور جنگ میں۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط5

اُمیّہ مسجد!

شام پرانے دمشق کے گلی کوچوں ، کوٹھوں کے بینروں ، میناروں کے گبندوں ، پیڑوں کی چوٹیوں ، مٹیالے آسمان ، اس پر اڑتے پرندوں اور یہاں وہاں پھرتے لوگوں کے چہروں پرسَت رنگی رعنائیوں سے اُتری ہوئی تھی۔
کِسی بھی رُت کی شام ہو۔ کسی ماڑے  موٹے گاؤں کی ہو۔کسی عام سے شہر کی ہو،کسی ملک کی ہو۔جانے مجھ پر کیوں اس کا جادوئی سا اثر ہوتا ہے۔
کل جب اس اجنبی دیس کے ایک گھر سے محبتیں سمیٹ کر دوبارہ آنے کا وعدہ دے کر باہر نکلی تھی ۔ تب زمینی اور فضائی حسن کو دیکھتے اور اس سے محظوظ ہوتے خود سے پوچھتی تھی۔
’’اب کیا کروں؟شام کے بانکپن کو دیکھوں۔ کسی جگہ بیٹھ کر خود کو اِس بارش میں بھگوؤں۔ بابِ صغیر کے قبرستان جاؤں اور شام کے انقلابی شاعر کی آرام گاہ پر فاتحہ خوانی کروں۔۔۔ہاں  ایک صورت اور بھی ہے میں نے خود کلامی کی تھی۔
’’ زکریاکاگھر چونکہ فصیلِ شہر اور باب الفراج کے پاس ہے۔ برادہ نہرBarada ساتھ ہی بہتی ہے۔ زکریانے سب کچھ بتایا اور سمجھابھی دیا ہے تو وہاں چلوں اور نہر کنارے کی خوبصورتیوں یا کوجے پنوں کانظارہ کروں اور کچھ جانوں کہ ایک نہر میرے شہر میں بھی بہتی ہے۔اس اجنبی شہر میں تھوڑی سی اپنائیت ،تھوڑا ساتقابلی جائزہ۔ یا پھر لوئے لوئے گھر واپس جا کر آرام کروں۔آج کی فٹیک اتنی ہی کافی ہے۔ ‘‘

تاہم دل نے کہا۔
’’ اری مور کھ چھوڑ سب کچھ۔ اِس شہر نگاراں کی شام دیکھ۔ اُمیّہ مسجد کو ہرگز نہیں دیکھنا آج۔اور ہاں صلا ح الدین ایوبی کے مقبرے پر بھی نہیں جانا۔ یہ دونوں توخاص الخاص سوغاتیں ہیں شہر کی۔ انتہائی قیمتی چیزیں ہیں ۔ سکون اور آرام سے دیکھنے والی۔‘‘

شام ,امن سے جنگ تک/سلمٰی اعوان۔۔۔۔قسط4
پر ہوا یہ تھا کہ چلتے چلتے جانے اندر کی کن پنہائیوں  سے اچھلتا کودتا ایک مصرعہ یادوں سے آٹکرایا تھا۔’’گھر جاندی نے ڈرنا ۔‘‘میاں محمد بخش جانے کہاں سے سامنے آگئے تھے۔میں نے تو سچی بات ہے پل بھرکے لئے بھی اُن کے بارے نہیں سوچا تھا۔

لوئے لوئے بھر لے کڑیئے جے قد پھانڈا بھرنا،
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا۔

پل بھرکے لئے رُک کر میں نے گردوپیش کو دیکھا تھا۔ایک گہری لمبی سانس بھر کر میں نے کہا تھا۔
میاں جی اجنبی دیس کی ان گلیوں گلیاروں میں اندھیرا ہو گیا تو ڈرتو لگے گا۔اور رہی بات جلدی جلدی تاڑاتاڑی پھانڈے ٹینڈے بھرنے کی تو میاں جی یہ تو ممکن ہی نہیں۔ دمشق توگہرے دریا جیسا ہے۔اس میں تو مجھے روز بوکا ڈالنا پڑے گا۔جتنا نکلے گا اُسے ہی سنبھال سکوں توغنیمت ہوگا۔توبس اب چلتی ہوں۔
اور آج ارادہ تو سویرے ہی آنے کاتھا۔مگر زینبیہ میں ایک جید عالم کی آمد، ان کا لکچرجسے سننے کی درخواست میر کارواں نے خصوصی طور پر مجھ سے کی تھی۔گروپ کے کسی صاحب ثروت کی طرف سے دوپہر کے کھانے کا خاص اہتمام جس کے کھانے کی بھی تاکید تھی۔ بس تو آدھا دن اسی ہنگامے میں گزر گیا۔ جب زینبیہ سے نکلی اور پرانے دمشق پہنچی۔ دیکھنے کو منظر تو وہی شام والا ہی تھا۔
حمیدیہ بازار سے گزرتے ہوئے میں نے اُسے دیکھا تھا۔ ایک تو مردانہ رعنائی والا چہرہ اُس پر ایسا انوکھا سا پہناوا، سرخ پھُندے والی ٹوپی، جھلملاتی موتیوں منکوں اور کوڈیوں سے سجی واسکٹ، پشت پر مشک کی طرح لدا حقے کی صورت والا پتیل کاچمکتا کچھ کچھ سما وار جیسا بھی برتن جو دلہن کی طرح مختلف النوع آرائشی چیزوں سے پور پور سجا خوامخواہ رکنے اور دیکھنے پر مجبور کرتاتھا۔ جو وہ گلاس بھر بھر کر لوگوں کو دے رہاتھا۔ اس کے بارے بھی جاننے اور پینے کی دعوت دیتا تھا۔
اب بھئی رکنا تو تھا۔ استنبول کے بازاروں میں بھی ایسے کردار دیکھے تھے۔ مگر جو رنگینی اور تام جھام کا جہان یہاں نظر آیا تھا اس کا تو کوئی انت نہ تھا۔
پتہ چلا تھا کہ یہ قہوہ نہیں بلکہ املی سے بنا ہوا مشروب ہے اور اسے تمرہندی کہتے ہیں۔
’’تو پیوں؟‘‘ میں نے خود سے پوچھا تھا۔
سچی بات ہے جی تو للچا رہا تھا۔ پر کھٹا ہوا تو؟ گلا پکڑا گیا اور تپ چڑھ آیا تو؟ چسکے کو لگام دی۔ چلو خیر یہاں تو زبان کو نتھ ڈال لی۔ مگر بقدش آئس کریم بیچنے والوں نے تو ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ ڈھول بج رہاتھا۔ گانا چل رہاتھا۔ عربی میں سمجھ کیا آنی تھی۔ بلا سے نہ آئے۔ سین تو بڑا رومانی سا تھا۔ بیڈن روڈ کے چمن آئس کریم والوں کی طرح۔ بس ان کے ہاں ڈھول پیٹنے کی کمی تھی۔
’’بھئی یہ تو ضرور کھانی ہے۔‘‘ اپنے آپ سے مکالمہ ہوا تھا۔
اب ایک کے بعد ایک کیل کانٹے سے لیس لعن طعن کا سلسلہ بھی جار ی ہوگیا ۔
ابھی کوئی چار پانچ گھنٹے پہلے تو پلیٹ بھر زردہ تو نے ڈھپا (کھایا)تھا۔ عجیب ہابڑا پڑا ہوا ہے۔ زبان اورہاتھ کو لگام دو۔ اب تک اگر شوگر نہیں ہوئی تو تمہارا یہ ندیدہ پن اب ضرور کروا دے گا۔
اور اِس ندیدے پن اور گندی نیت نے سب اعتراضات کا تیا پانچہ کر دیا تھا یہ کہتے ہوئے۔
’’بدبختو ذرا سی میری عیاشی تمہارے دیدوں میں چُبھنے لگتی ہے۔ جاؤ دفع ہو جا ؤایک نہیں سننی میں نے تمہاری۔ ‘‘
میں آئس کریم کھا رہی تھی اور مزے لوٹ رہی تھی۔ دل کا رانجھا راضی ہوا تب آگے بڑھی۔ ساحتہ المسکیہ کے کھلے میدان میں داخل ہونے والی تھی۔ جب ٹھٹک کر رک گئی۔ میرے سامنے ایک ایسا کلاسیکل منظر تھا جس نے قدموں کو پتھر اور آنکھوں کو ساکت کر دیا تھا۔ حداد Hadad ٹمپل کے صدیوں قدیمی شکستہ سے کالموں کے عین درمیان سے اُمیّہ مسجد کا تانکا جھانکی کرتا خوبصورت مینار کیسے انوکھے سے منظر کا عکاس تھا۔ جیسے ایک شاہکار پینٹنگ ہو۔
اوائل جولائی کی گرم ہواؤں کے جھونکے پیشوائی کے لئے بڑھے تھے۔ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی کھلے میدان کے ایک جانب کینا کے درخت تلے بنے چبوترے پر بیٹھ گئی۔ میں نے گردوپیش کو دیکھا۔ صدیوں پہلے یہ بہت بڑا میدان تھا۔ رومن کالموں اور محرابوں سے سجا ہوا۔ جیوپیٹرJupiter دیوتا کا ٹمپل یہیں تو تھا۔ اب ماہرین آثارِ قدیمہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آرمینیاؤں کے حداد ٹمپل کی باقیات پر جیوپیٹر ٹمپل بنا تھا۔سچ کیا ہے؟ اِسے تو اللہ ہی جانتا ہے۔ میں نے تاریخ کو وقتی طور پر دفع دور کرتے ہوئے خود سے کہا ہے۔
’’بس دیکھو تمہارے اردگر د کیا ہے؟‘‘
میرے دائیں ہاتھ نوادرات کی دکان کے چوبارے کی آبنوسی کھڑکیوں کی چوبی کندہ کاری اتنی گھتی ہوئی اور خوبصورت تھی کہ نظریں اُن میں پھنس پھنس جاتیں یوں کہ انہیں نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ساتھ دیوار پر قدرے سیاہی مائل عنابی رنگ کا درمیانے سائز کا قالین لٹکا ہوا تھا۔ ڈیزائن اور رنگوں کا امتزاج کیا حسن اور انفرادیت لئے ہوئے تھا۔
میں سامنے کافی بارسے کافی لے کر آئی۔ طلب تو ہرگز نہ تھی مگر اِس رومانوی کلاسیکل ماحول میں بیٹھ کر اپنے دائیں بائیں اورآگے پیچھے دیکھنا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹوں سے کافی پینا جس قدر مزے کا کام تھا اس سے خود کو محروم کرنا مجھے کسی طور گوارہ نہ تھا۔


میرے عین سامنے ایک طرف دمشق کا شہرہ آفاق الحمیدیہ بازا ر ہے جس میں سے گزرتی ہوئی میں ابھی آکر یہاں بیٹھی ہوں۔ دائیں جانب اُس اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کا شاہکار وہ امیہ مسجد تھی جو سچی بات ہے دمشق کا لینڈ مارک ہے۔بائیں ہاتھ حسین شاپ ہے۔یہاں کتابیں ہیں۔مقامی دست کاری کی چیزیں ہیں۔
منظروں کی اِس حُسن وجاذبیت کو اپنے اندر اُتارتی میں صدیوں پرانے درخت کی جھالروں سے آنکھ مٹکا کرتی پھڑ پھڑاتے کبوتروں کی اُڑانیں دیکھتی ہوں جو آسمان کی بلندیوں سے اُترتے شکستہ کالموں پر تھوڑی دیر بیٹھتے اور پھر اُڑانیں بھرنے لگتے ہیں۔ آسمان کا سینہ کیسے ان کے ساتھ بھرا بھرا نظر آ رہا ہے۔
گردن گھما کر میں نے اپنی انتہائے بائیں جانب کی پشت کو دیکھا ۔ مسجد کی دیوار ایک گلی میں داخل ہو رہی تھی۔ پھر جیسے پندرہ سولہ فٹ اونچے دروازے نے مجھے پکارا۔
’’ چھوڑو ضد۔ چلی آؤ۔ کل کس نے دیکھی ہے؟ دم کا بھی کوئی بھروسہ ہے۔‘‘
اِس پکار، اِس آواز میں کیا جادو تھا؟ میں کسی طلسم زدہ انسان کی طرح اٹھی۔ مگر اس کے اندر جانے کی بجائے پہلے دا ہنی ہاتھ حسین شاپ میں داخل ہوئی۔سنجیدہ سا درمیانی عمر کا مرد جس کے پاس جاکر میں نے اپنا تعارف کروایا۔نزار قبانی کے کلام کی انگریزی ٹرانسلیشن کا پوچھا۔میں تو اِسے اپنی خوش قسمتی ہی کہوں گی کہ اس نے A selection of Nazzar Qabbani کوئی سو صفحے کی کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔
’’ہا ئے‘‘ میرے اندر نے جیسے خوشی سے کلکاری ماری۔میں نے پھولا پھرولی کی۔کیا شاہکار نظمیں تھیں۔ایک سو تیس سیرئین پاؤنڈ دئیے اور کتاب کو بیگ میں ڈالا۔
کاؤنٹر پر بیٹھا معمر مرد صاحب نظر اور سنجیدہ آدمی تھا۔ میرے چہرے پر بکھرے خوشی سے بھرے تاثرات اور والہانہ حرکات کا یقیناًاس نے مشاہدہ کیا تھا ۔ جان گیا تھا کہ پڑھنے کی رسیا ہے۔ پیاسی ہے۔
میں نے جب کچھ جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اُس نے مجھے بیٹھنے کو کرسی اور توجہ دی۔ خوش قسمتی کہ دکان میں بھی رش نہ تھا۔ اکّا دکّا گاہک ملازم نپٹا رہے تھے۔
سیاست، لوگوں کے مزاج سے متعلق ذہن میں جو کھلبلی سی تھی وہی سوال کی صورت باہر آئی تھی۔
انہوں نے قدرے مدھم لہجے میں کہا۔
’’شام دراصل ایک کلنٹ اور فیوڈل سوسائٹی جیسی ملی جلی صفات رکھنے والا ملک ہے۔ کلنٹ یقیناًسمجھتی ہوں گی کہ میری مراد ایسے لوگوں سے ہے جو کسی زبردست، کسی طاقتور، کسی با اثر کے زیر سایہ رہنا پسند کرتے ہیں۔ شامی لوگ ایسے ہی ہیں۔ آدھے تیتر آدھے بٹیر۔ تھوڑے مہذب تھوڑے گنوار۔ کچھ ماڈرن کچھ روایتوں میں جکڑے۔ وگرنہ کوئی بات تو نہیں نا کہ لگ بھگ نصف صدی ہونے کو آتی ہے اِن باپ بیٹے کے چنگل میں ہی پھنسے ہوئے ہیں اوریہ صورت صرف شام میں ہی نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں نظر آتی ہے ۔ہاں البتہ اب تعلیم یافتہ نوجوان نسل اور بیرون ملک رہنے والے اُن شامیوں کی اکثر یت جو گرمیوں میں بھاگی بھاگی وطن آتی ہے اِن مجموعی رحجانات پر خاصی اثر انداز ہو رہی ہے۔ خوشی ہوتی ہے کہ اُن کی سوچیں زیادہ مثبت ہیں۔
میرے خیال میں یہ صورت زیادہ دیر تک نہیں چلے گی۔ بیرونی طاقتیں بھی بڑی سرگرم ہیں۔ ایک طرف ایران، دوسری طرف سعودی عرب، امریکہ ، ترکی سب اپنے اپنے مفادات کے تانوں بانوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
چند لمحوں کے لئے وہ خاموش ہوگئے۔ آنکھیں جھپکتے کچھ سوچتے کبھی دروازے سے باہر دیکھتے وہ پھر متوجہ ہوئے تھے۔
اسد اور اس کے اردگرد اکٹھے لوگوں کے پاس سیاسی بصیرت نہیں ۔ دنیا کے اکھاڑے میں کھیلے جانے والے کھلاڑیوں میں ہماری تو کہیں کھڑ ے ہونے کی جگہ بھی نظر نہیں آتی۔ یوں کٹے کٹے تنہاتنہا سے۔ قریبی اور دور کی دنیا میں کوئی حادثہ ہو جائے، کرہ ارض کے کسی خطے میں کوئی ارضی وسماوی آفت پھٹ پڑے ۔ ہم دو لفظ کا پرسہ دینے کے روادار نہیں۔ اپنی اوقات کے مطابق کوئی مدد نہیں بھیجتے۔ سیاحت کے اعتبار سے ملک کس درجہ امیر ہے ۔حکمرانوں کو احساس ہی نہیں۔ مذہبی اور آثارِ قدیمہ دونوں اعتبار سے اس کی عالمی سطح پر تشہیر چاہیے مگر نہیں۔ یہ بیش بہا خزانے دھندلے پردوں میں ملفوف ہیں۔
ٹھک سے یہ بات میرے دل کو لگی تھی کہ میں ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے لئے کس درجہ خجل ہوئی تھی۔ گیند کی طرح لڑھکتی ایک عمارت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کے چکر لگاتے لگاتے ہپو ہان ہوگئی تھی۔ بالاخر دو حرف لعنت کے بھیجے تھے۔
اب وہ پھر خاموش تھے۔ اِس بار کی خاموشی قدرے طویل تھی۔ میں نے سوچا اب مجھے اجازت لینی چاہیے۔ ابھی اِسی گومگو میں تھی کہ وہ پھر بولنے لگے تھے۔
کیسا دلگیر سا لہجہ تھا اُس بوڑھے شخص کا۔
دنیا بہت سکڑ گئی ہے۔ بڑ ی طاقتیں اپنی مکاریوں کے نت نئے انداز اور نئے پیرہنوں سے سامنے آرہی ہیں۔ خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ جہادیوں کے ٹولے اور پیسوں کے بورے عراق بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ پھر رُکے۔ لمبا سانس بھرا اور بولے۔
’’پتہ نہیں میں کیوں پر اُمید نہیں شام کے مستقبل سے۔ ‘‘
خاصی دیر ہوگئی تھی۔ اجازت چاہی۔ یہ بھی درخواست کی کہ جب بھی ادھر آنا ہوا ان کے پاس آسکتی ہوں؟
’’کیوں نہیں شوق سے آئیں۔‘‘
جب عبد اللہ جازر کے پاس سے اُٹھی ۔ خاصی دل گرفتہ سی تھی۔
’’ یہ مسلم اُمّہ اِس کا بنے گا کیا میرے پروردگار؟ یہ تو اپنے پیروں پر آپ کلہاڑے مار رہی ہے۔ ‘‘
اب دھیرے دھیرے چلتی اس دروازے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ جسے باب برید کہا جاتا ہے۔ بلند وبالا جسے دیکھنے کے لئے گردن کو دہرا کرنا پڑتا ہے۔ باب برید سے سیاحوں کے گزرنے کی مناہی ہے۔ جانے کیوں؟ ہا ں البتہ چھوٹے دروازے سے داخلے کا پروانہ ملا۔
زمانے اور صدیوں کے سرد گرم ذائقے چکھنے والی کی صورت پر گو ابھی بھی چھائی جانے والی کہنگی ، پرانے پن اور بے رنگی کے لہراتے عکس جو باہر سے دیکھنے پر ذرا آنکھوں پر کسی بوجھ کی طرح گرتے ہیں۔اندر آکر ایک حیرت کدے میں بدل جاتے ہیں۔ قدامت کی فسوں خیزی لئے، وسعت کشادگی، دیواروں پر فطرت سے متعلق شاہکار دامن دل کو کھینچتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا تھا یہ اپنی جھولی میں تعمیر کی انفرادیت، وقار اور گھمبیرتا سے پور پور بھر ی ہوئی ہے۔ قدامت کی فسوں خیزی کا غازہ وجو د کو حُسن بخشے ہوئے ہے۔ پیشانی اور ڈھیر سارے بازو بھی فطرت کے حسین شاہکاروں کے نوکیلے رنگوں اور شاہکاروں سے سجے سنورے پُر زور دعوت دید دیتے ہیں ۔سادگی بھی وقار میں اضافے کا باعث ہے۔ ایک خوبصورت اور عظیم عبادت گاہ کا روپ دھارے اپنی پشت پر صدیوں کی تاریخ کی گٹھڑی لادے تمکنت سے کھڑی مجھے سب سنانے کے لے کیسی بیتاب نظر آتی تھی۔
میں وہیں بیٹھ گئی تھی اور تاریخ نے پہلا باب میرے سامنے کھول دیا تھا۔
ٍٍ یہ تین ہزار سال جائے عبادت رہی۔ رومیوں، یونانیوں اورآرمینیاؤں کی۔ بپتسمہ کا حوض ابھی بھی موجود ہے۔ پہلے یہ آرمینائی دیوتا حدادHadad کا مندر تھا۔ پھر ہزاروں سال پگانPagan مندر بنا۔
مسلمانوں نے شام فتح کیا تو بہت عرصہ مسلمان اور عیسائی ساتھ ساتھ عبادت کرتے رہے۔ میرے اللہ کیا رواداری کا زمانہ تھا۔ یہ برداشت کا عنصر ہم میں سے اب کیوں نکل گیا ہے؟ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کا بیج مار دینے کا خواہش مند ہے۔ کہیں بہت پہلے ظفرجمال بلوچ کی ایک تحریر نے بہت محظوظ کیا تھا۔ حالات کی ایسی عکاس تحریر کہیں کہیں پڑھنے کو ملتی ہے۔ آپ بھی پڑھئیے اور سردُھنیے کہ کیسا شاہ پارہ ہے۔
’’ا یک مشہور عالم دین مولانا عنایت اللہ گجراتی نے ایک نوجوان کو نصیحت کی کہ بیٹا جب تمہیں اللہ نے صحت دی ہے، جوانی دی ہے، سوچنے کو ذہن ، بولنے کو زبان، چلنے کو ٹانگیں اور کام کرنے کو ہاتھ دئیے ہیں تو پھر تم اس کا شکریہ کیوں ادا نہیں کرتے؟ کیونکہ جہاں خدا یہ چیزیں دینے کی قدرت رکھتا ہے ، وہیں لینے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔
نوجوان کو بات سمجھ آگئی اور اُس نے نماز پڑھنی شروع کر دی۔


کچھ عرصہ کے لئے مولانا باہر پروگراموں میں شرکت کرنے کے لئے چلے گئے۔ واپس آئے تو دیکھا کہ نوجوان دوبارہ فلموں کا رسیا بن چکا ہے۔
بلایا اور کہا کہ میں نے تو تمہیں مسجد کا راستہ دکھایا تھا، سینما کا راستہ کس نے دکھایا ؟ نوجوان نے جواب دیا۔
’’مولانا جو سکون مجھے سینما میں محسوس ہوتا ہے ، مسجد میں محسوس نہ ہوا۔آپ کے کہنے پر مسجد کا رخ کیا۔ نماز پڑھ کر باہر نکلا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ کن بدعتیوں کی مسجد میں نماز پڑھ لی ہے۔ دوسری مسجد میں گیا۔ وہاں سے نماز پڑھ کر باہر نکلا تو تبصرہ ہوا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہی درست نہیں۔ یہاں نماز پڑھو گے تو سابقہ ادا کی جانے والی نمازیں بھی فاسد ہو جائیں گی۔ تیسری مسجد میں گیا تو تبصروں نے پھر جان نہ چھوڑی۔
پریشانی میں نماز ترک کی اور ایک دن سینما کا رخ کیا۔ ٹکٹ لے کر اندر پہنچا تو سکون ہوا کہ ایک ہی قطار میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ بیٹھے ہیں لیکن کیا مجال جو کسی کو کسی پر اعتراض ہو۔‘‘
یہ زمانہ تھا لگ بھگ کوئی 705 اور 708 کے درمیان کا جب اُس اُموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے یہاں ایک عظیم الشان مسجد بنانے کا سوچا۔ سوچا کہنا کچھ زیادتی کے زمرے میں جاتا ہے۔ اس کی دلی تمنا اور خواہش تھی۔ مگر عیسائی کمیونٹی اِس کے لئے راضی نہ تھی ۔ بہت بار کے مذاکرات اور ڈھیر ساری پیشکش کہ خلیفہ، اس کے عوض نہ صرف انہیں چرچ بنا کر دے گا بلکہ وہ دیگر جگہوں پر ان کی مزید عبادت گاہوں کی تعمیر کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ یوں اس کی تعمیر ممکن ہوئی۔ ولید اِسے بہت خوبصورت ، بہت منفرد اپنی مثال آپ جیسا شاہکار بنانے کاخواہاں تھا۔ سچی بات ہے اوروہ اس میں کامیاب ہوا۔
حقیقتاً یہ مسجد قدیم دمشق کا حُسن ہے۔اس کی خستگی بھی اور نیا پن بھی۔بیچاری نے زمانے اور حملہ آوروں کے عتاب بھی بہت سہے۔ کئی بار تو لٹیروں کے ہاتھوں لٹی۔ سب سے بڑے لٹیرے تو منگول اور ترکمان تھے۔ سب گہنا پاتھہ اُتارا اور اِسے ننگی بُچّھی کر کے چھوڑ گئے۔ پھر آگ کو بھی اِسے معدوم کرنے کا شوق چرایا۔ مگراِس کا بگڑا وگڑا کچھ نہیں۔ پہلے سے زیادہ حسین اور پر وقار بن گئی۔
میں کھڑی ہوگئی تھی۔ چلنے لگی تھی۔ اس کے وسیع وعریض صحن میں جس کی ٹائلیں بے حد خوبصورت ہونے کے ساتھ ابھی تک گرم تھیں۔وضو والے حصّے کی طرف بڑھتے ہوئے رک رُک کر اس کی بلند وبالا دیواروں پر آرٹ کے فطرت سے متعلق صدیوں پرانے شاہکاروں کو دیکھتی، انہیں رُک رُک کر سراہتی آگے بڑھتی چلی جاتی تھی۔ دارلخزانہ جیسا شاہکار کو بھی دیر تک کھڑے دیکھتی رہی۔ اِس کے ہشت پہلوؤں کی نقاشی بھی کس کمال کی تھی۔
دمشق کے شہریوں کی قیمتی اشیاء رکھنے کا محفوظ سٹور ۔ کہیں عباسیوں کے دور میں اسے بنایا گیاتھا۔ اس کے دروازے کے تالے کی سات چابیاں اس کے مقرر کردہ سات محافظوں کے پاس ہوتی تھیں۔ دروازہ ساتوں کی موجودگی میں کھلتا اور بند ہوتا تھا۔ اِس سسٹم کی کامیابی نے پھر مزید شہروں کی بڑی مسجدوں میں بھی ایسے بیت المال کھولنے کی حوصلہ افزائی کی۔
سا منے بپتسمہ کے حوض نے توجّہ کھینچی تھی۔ مسجد کا ہال دبیز قالینوں سے اور اُس کی محرابیں قرآنی آیات سے سجی تھیں۔یہاں میں نے عصر کی نماز پڑھی۔سکون سے بیٹھ کر کتاب کھولی۔یہ کیسی حیرت انگیز سی بات تھی کہ جو صفحہ کھل کر سب سے پہلے سامنے آیا وہ اُمیّہ مسجد سے متعلق تھا۔مسرت و انبساط سے پڑھنے لگی تھی۔
میں اُمیہّ مسجد کے صحن میں داخل ہوتا ہوں
آداب کہتا ہوں ہر ایک کو
کونے سے کونے تک
ٹائل سے ٹائل تک
ہر جا بکھرے کوفی رسم الخط کو
اِس باغ میں گھومتا پھرتا ہوں
اور
خدا کے خوبصورت لفظوں کے پھو ل
چُنتا ہوں
پہلے مینار کی سیڑھیاں چڑھتا ہوں
پیار کے لفظ بولتے ہوئے
ایک صدا ایک پکار
سنائی دیتی ہے
آؤ چنبیلی کے پھولوں کی طرف
آؤ چنبیلی کے پھولوں کی طرف


محراب کے پاس ہی حضرت یحییٰ علیہ السلام کا روضہ مبارک ہے۔ یہاں ان کا سر مقدس ہے۔اِس ضمن میں جو کہانی ہے وہ کچھ زر، زن اور زمین کی فلاسفی سے ہی متعلق ہے کہ رومی یہودی بادشاہ نے اپنی کسی بھتیجی سے شادی کرنی چاہی۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے روکنے پر دونوں مشتعل ہو گئے۔ لڑکی کی فرمائش پر اُن کا سر کاٹ کر پیالے میں رکھ کراُسے پیش کیا گیا۔ ان کا مدفن بہرحال پچی کاری کے کام کی خوبصورت تصویر ہے۔
ہال کے عالی شان دروازے ،چوب کاری کے کام کے عمدہ ترین نمونہ تھے۔ پچی کاری اور رنگین شیشوں کا کام دلاآویز تھا۔مسجد کا وہ حصہ دیکھا جو مقام راس سیدنا الحسین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بہت رش تھا یہاں۔ ایرانیوں کی کثرت تھی آہ وفعان کی فضا تھی۔ نقری جالیوں سے ہی آنکھ چسپاں کی۔ اندر کا تو منظر واضح نہیں تھا۔ ہاں البتہ منتوں مرادوں کی لیریں ضرور لہراتی تھیں۔
عصر کی نماز سے فراغت کے بعد میں صحن میں آکھڑی ہوئی۔شام کے باوجود صحن ابھی بھی گرم تھا۔ سچی بات ہے اس کی انفرادیت میں سب سے نمایاں پہلواس کی سادگی اور عظمت کا رچاؤ ہے۔ دوسرے وہ تین مینار ہیں جو تینوں سٹائل میں منفرد ہیں۔ہاں البتہ صحن میں بنا چوکور مینار سب سے بلند ہے۔ مشرقی سمت کا بلند مینار حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے۔ اسے دیکھنا اور یہ جاننا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ پاک ہستی ظہور پذیر ہوگی۔ جو یہودیوں سے لڑے گی۔ دجال کا سر قلم کرے گی۔
یہیں میری ملاقات فلسطینی عورتوں اور بچوں سے ہوئی۔فلسطین جن کا وطن تھا۔ جو اپنے وطن نہیں جاسکتے تھے۔ان کے آنسوتھے۔اُن کے نوحے تھے۔امریکہ اور اسرائیل پر تبرّوں کی بوچھاڑ تھی۔اِس دلکش لڑکی جس کا نام فاتنFatinتھا نے یروشلم کی نظم سنائی۔یروشلم جہاں اس کے والدین کا گھر تھا۔جس سرزمین پر اس کے آباو اجداد صدیوں سے رہتے تھے۔جنہیں دیس نکالا مل گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply