یکے از بکریاتِ و قربانیات ۔۔۔۔ سہیل اکبر کروٹانہ

ہن مسئلے ميڈے ڈُو ماہى
هہک بكرا، تے ہک توں ماہى

مذکوره بالا شعر میں جن دو فریقین کو خاکسار نے مخاطب کیا ہے وه بلاشبہ قصاب اور بکرا ہیں ،، عید الاضحٰی سے ایک روز قبل بکرا خریدنے کے بعد جب ہم نے جنابِ قصاب کہ جن کا اسمِ گرامی احسان ہے، کو فون کیا اور عرض کی کہ عالم پناه بکرے کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ؟

وه گویا ھوئے کہ تمہید نہ باندھیں، کسی قوی و عنیف رسی سے اپنا بكرا باندھیں اور مدعا بتائیں ۔۔۔۔۔۔۔ عرض کیا، کل اپنے یورینیم جیسے قیمتی وقت میں سے چند منٹ ہمیں عنایت فرماویں اور بکرے کو ذبح کر جاویں تو بندہٴ عاجز مزید عاجز ہو كر مقامِ عاجزى کے اگلے مورچوں پر فائز ہو سکتا ہے، یہ بھی بتا دیں کہ معاوضہ کیا لیں گے؟

قصابِ وقت گویا ہوئے۔۔۔ باؤ جی، ایک تو دن باره بجے سے پہلے میرے پاس وقت میسر نہیں اور دوسرا عید والے دن پریمیم پیکیج کے تحت بکرے کو مکمل ٹھکانے لگانے کے پانچ ہزار وصول کروں گا کیوں کہ عید کے روز مجھے کم از کم آٹھ سے دس سرجیکل اسٹرائیکس کرنے ہوتے ہیں، ہاں البتہ عید کے اگلے روز پانچ سو کم ہو جائیں گے۔

ہم گویا ہوئے کہ جناب آفرین ہے آپ پر اور آپ کے زیرِ استعمال مفتُوحہ آلاتِ حرب پر ،،،، بکرے کی کل قیمت کا تقریبا” نصف تو آپ نے معاوضے کے طور پر مانگ لیا ہے ،،، احسان صاحب آپ مجھ پر ایک احسان کریں کہ مجھ سے آ کر بکرا لے جائیں اور اس کو ذبح کر کے تھوڑا سا گوشت مجھے عنایت کر جائیں کہ جس سے جہاں کل کے دن کی ھانڈی روٹی ہو جائے، وہیں بانس اور بانسرى پر مشتمل ہر دو عناصر كا كماحقهُ قلع قمع ہو جائے… مذاکرات پاک بھارت ڈپلومیسی کے نقشِ قدم پر چلتے ھوئے حسبِ توقع ناکامی سے دوچار ہوئے۔۔۔ گویا

ہم ھوئے، تم ھوئے کہ میر ہوئے
روزِ عید جنابِ قصائی سبھوں کے پیر ہوئے

القِصّةُ المختصر، احسان صاحب سے دو طرفہ مذاکرات پر ناکامی کے بعد صاحبِ بکرا کسی نئے قسائی کو پکڑنے کے لئے اپنے گھر کے صدر دروازے پر ”پھائی” لگا کر نشستند ہوئے، جلد ہی فصلی بٹیرے نما ایک موبائل قسائی دستیاب ہو گئے۔۔ تھوڑے ردوکد کے بعد معاملاتِ ذبیحہ بطریقِ احسن طے پا ہی گئے۔۔۔ مبارک سلامت کے شور و غوغا میں قسائی نے بکرا لما پا لیا۔۔۔ نتیجا” ہم نے کچھ ہی دیر بعد اپنی منزلِ مراد شاد باد کو پا لیا اور یوں گوشت کی شرعی و منصفانہ تقسیم عمل میں لائی گئی۔۔

چند دن قربانی کے گوشت کے سائے تلے بسر کرنے کے بعد آج گوشت کی آخری قسط جو کہ بکرے کی ران شریف پر مشتمل تھی، جاری کر دی گئی،،، جس سے خطے میں جہاں گوشت کے عدم توازن نیز طلب و رسد کو لاحق خطرات میں نمایاں کمی آئی ، وہاں ہماری بھی جان میں جان آئی کہ ہم فریج کے سامنے دن میں کم از کم دو مرتبہ بعد صلاة الظہر اور بعد صلاة العشاء ، دھرنا دینے کا فریضہ سر انجام دیتے تھے جسے عربی میں ہم نے ” دھرنین ” کا نام دے رکھا تھا۔۔۔۔

اس دھرنے کے نتیجے ہمیں اربابِ اختیارِ مطبخ، جو کہ ہماری زوجہ محترمہ ہیں اور رئيس المطبخ و مدیرِ مطبخ کے عہدوں پر براجمان ہیں، (مشرف کی طرح یہ دونوں عہدے بیگم صاحبہ کے پاس ہی ہیں) کی جانب سے یہی جواب ملتا تھا کہ جتنا مرضی دھرنا دے لو، ران کشائیٴ بکرا ہفتے کے روز ہی ہوگی۔ اس سے ہمیں ایک غیر مستند نیز کچی پکی بلکہ ڈانواں ڈول روایت یاد آئی کہ کسی محلے میں لُونے چاولوں کی ایک دیگ پک رہی تھی ،، ایک ملنگ اس کے سامنے پورے خشوع و خضوع نیز قیام و طعامی جوش و جذبے کے ساتھ دھمال ڈال رہا تھا کہ مینیجنگ ڈائریکٹر دیگ جات و ذمہ دارانِ لُون مرچ اس دھمالیے سے مخاطب ھو کے بولے ؛ ” پتر ، جنی مرضی دھمال پا لے ، ایہہ دیگ داتا دربار جا کے ای کھُلنی ایں ” ۔۔۔

گزرتے وقت کے ساتھ ہماری حالت انیس سو اسی نوے کے عشرے والے پی ٹی وی کے اس ناظر جیسی ہو گئی جو بیچاره اُس وقت چار تیس پر پی ٹی وی کی نشریات کے کھلنے کے انتظار میں پونے چار بجے ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا یا جس طرح آج کل وطنِ عزیز میں ” ہم عوام ” شادی بیاه کی تقریبات میں روٹی کھلنے کے انتظار میں یوسین بولٹ کی مانند چوکس ہو کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ماضی بعید میں پی ٹی وی کی ابتدائیہ ماتمی دھن زہر لگتی تھی جب کہ حال جمود میں بیگم صاحبہ کی ران کشائیٴ بکرا کی تاریخ سے متعلق دیا ہوا بیان ۔ واضح رہے پی ٹی وی کی اس مشہورِ عالم دُھن کو ماتمی دُھن کا نام ہمارے محترم دوست جناب محمد اشفاق صاحب نے دیا ھے جس کے لئے ہم ان کے خصوصی شکر گزار ہیں۔ اشفاق صاحب آج کل رخصتِ محرمیہ کی مد میں نامعلوم مقام پر سلسلۂ روپوشیہ کے گدی نشین کا چارج سنبھالے ہوئے استراحتِ کامل فرما رہے ہیں۔۔

قریب تیس برس گزرتے ہیں، نوائے وقت میں میرے والد صاحب مرحوم کے پسندیده ترین کالم نگار میجر (ر) جناب ابن الحسن صاحب جملۂ معترضہ کے نام پر مکمل کالم لکھ دیتے تھے جب کہ ہم جملۂ معترضہ کے طور پر پی ٹی وی پر صرف دو چار جملے لکھیں گے جو ہماری اس داستانِ المیۂ ران کشائی کو مزید واضح کریں گے۔ پی ٹی وی پر ان ساده دنوں بلکہ ہومیو پیتھک قسم کے دنوں میں دورانِ پروگرام اچانک نشریاتی رابطہ منقطع ہو جاتا تھا اور سکرین پر ایک پٹی آ جاتی تھی جو کہ بکثرت چلا کرتی تھی ” انتظار فرمائیے ” ۔۔۔ اس پٹی کے چلنے سے پہلے ایک اناوٴنسر صاحبہ ٹی وی پر نمودار ہو کر اعلان کرتیں کہ ” خواتین و حضرات، قومی نشریاتی رابطہ منقطع ہونے کے سبب ہم پروگرام دکھانے سے قاصر ہیں، جُونہی ہمارا نشریاتی رابطہ بحال ھوگا ہم آپ کو پروگرام کا بقیہ حصہ دکھائیں گے۔ آپ سے گزارش ہے کہ تھوڑی دیر انتظار فرمائیں”۔۔۔ تِس پر والد صاحب جواب دیتے کہ ” ٹھیک اے جی، انتظار وی فرما لینے آں ” ۔۔۔ ادھر ہم گو مگو کے عالم میں وه پٹی بھی جم کر اور اس تیقن کے ساتھ دیکھا کرتے تھے کہ انتظار فرمانے کا یہ دورانیہ جلد ختم ھوجائے گا اور ھم باقی پروگرام دیکھ سکیں گے،،، لیکن وائے قسمت ماضی میں پی ٹی وی کے اعلٰی حکام یہ وقفہ خاصا طویل کر دیتے تھے اور اب ہمارے گھریلو اعلٰی حکام ۔۔۔ پی ٹی وی اور گھریلو اعلٰی حکام پر کیا موقوف،،،،، پاک وطن کے حکمرانوں نے بھی ہمیں جس ” انتظار فرمائیے ” پر لگا دیا ہے وہ وقفہ تو ختم ھونے میں ہی نہیں آرھا۔ ہم عوام تب بھی ہم عوام تھے اور اب بھی ہم عوام ہی ہیں۔۔۔ لیجئے صاحب، ہمارا جملہ ہائے معترضہ اپنے اختتام کو پہنچا،، بس اب اختتامِ داستانِ ران بھی ہوا چاھتا ہے۔

ادھر فریزر سے ران نکلی ادھر ہماری جان میں جان آئی،، ھم ران سے مخاطب ہو کے بولے،  ” چلی بھی آوٴ کہ گلشن کا کاروبار چلے ” ۔۔۔۔

ران کے فریزر سے فریضۂ لذتِ کام ودہن تک آتے ہی بکرے کو جنت میں داخلے کا سرٹیفیکیٹ جاری ہونے سے متعلق تمام تر افواہیں دم توڑ گئیں۔ بس اب ران کا سالونہ قریب المیز تھا اور ہم اس وقت کی مناسبت سے ملی نغمے کا مندرجہ ذیل اولین شعر کچھ یوں گنگنا رھے تھے

Advertisements
julia rana solicitors london

ران ابھی باقی ھے ، نان ابھی باقی ھے
روٹی کھلنے کا اعلان ابھی باقی ھے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply