باغی کون؟ آپ یا ہم گوبھیاں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

ماحول کافی گرم ہے۔ ایک آگ ہے جو دہکائی جا رہی ہے۔ پرائے اس آگ میں ایندھن ڈالیں، خوب سمجھ آتا ہے۔ اپنے مگر جب اپنے ہی آنگن میں لگے شعلوں پر ایندھن چھڑکنے لگیں تو سمجھ لیجیے ان اپنوں کی ذہنی سطح ایف اے پاس جنگجو سے زیادہ کی نہیں۔ ریاستی حوالداروں کی ایک فوج ہے جو ریاست کا قیمتی نازک ترین بار اپنے ہاتھوں میں لیے پچھلے کئی سال سے لائیکس و شئیر سمیٹتے تماش بینوں کے سامنے ناچنے میں مگن ہے۔ تماش بین ہیں کہ نظریاتی سرحدوں کے محافظین کی شان میں قصیدے لکھنے والے ان حوالداروں اور ان کے آقاؤں کو خوش کرنے میں ہتھیلیاں گھسے جاتے ہیں۔

بیشک ہمارے معلوم افراد ففتھ جنریشن وارفئیر میں مہارت رکھتے ہیں مگر یہ خوبی بھی جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا کے مصداق فقط ریاست کے اندر تک ہی جانی جاتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر عموماً ہمارا مؤقف جگ ہنسائی کا اچھا ذریعہ بنا کرتا ہے۔ بھلا بین الاقوامی میڈیا کو لوکل میڈیا کی طرح نتھ کہاں ڈالی جا سکتی ہے؟ اقوام متحدہ کی کشمیر پر قرارداد کا پہلا حصہ پڑھ کر سنانے سے گریزاں یہ حوالدار اور ان کے طفیلیے، گھر کے اندر پچھلی کئی دہائیوں سے قضیہ کاشمیر کو لیے بیوگان والا بین ڈالتے رہے ہیں، ڈالتے رہیں گے۔ یہ ہرگز نہیں بتائیں گے کہ عالم کو ثالث بنا کر پہلی شرط آزاد کشمیر کو آزاد کرنے کی تھی، ٹھیک یا غلط، مگر یہ شرط آپ نے ہی مانی تھی۔ 

آج کل یہ ففتھ جنریشن وار بیک وقت کئی محاذوں پر لڑی جارہی ہے۔ تقریباً ہر محاذ پر ناکامی کی وجہ بھی یہی ہے کہ پائپ سے نکلتی گیس کا حجم پائپ سے کہیں زیادہ ہے جس کے باعث پائپ پھٹنا طے ہے۔ ایک ہی وقت میں کس کس سے لڑیں گے؟ باہر تو آپ کو اچھی نگاہ سے ویسے ہی نہیں دیکھا جاتا، آپ اپنے ہی گھر میں کس کس کو جنگ کا فریق بنائیں گے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کی دیوار پر “یہاں وال چاکنگ کرنے والے کو غائب کر دیا جائے گا” تحریر ہوگا لہذا آپ “مقتدر حلقے” نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں۔ سیاسی منظر نامے کو بدترین نہج پر آپ پہنچا چکے، بین الاقوامی سطح پر ایف اے ٹی ایف آپ کے ماتھے پر بلیک لسٹ کا جھومر سجانے کو ہے اور آپ کی مہم جوئیاں اور اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف پروپیگنڈے ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے؟

آپ کے حوالدار پٹھو آپ کے پیر دھوتے کہتے ہیں پی ٹی ایم غدار ہے۔ حضور، ان ذہنی غلاموں سے کہیے ذرا یہ تو بتائیں کہ پی ٹی ایم ہے کیا؟ کیا پی ٹی ایم کوئی ریجسٹر شدہ تنظیم ہے؟ کیا پی ٹی ایم کا کوئی ڈھانچہ ہے؟ کیا پی ٹی ایم کا کوئی نظام ہے؟ کیا پی ٹی ایم کے کوئی عہدے داران ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پی ٹی ایم اپنی طرز میں ایک تحریک ہے جس کی کوئی باڈی نہیں جس کا کوئی ڈھانچہ کوئی منشور نہیں بلکہ یہ صرف اور صرف تحریک کے بانی منظور پشتین کی جانب سے پیش کیے جانے والے مطالبات پر کھڑی ہے؟ کیا یہ مطالبات آئین پاکستان سے کسی بھی طرح متصادم ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک کی کوئی باقاعدہ رکن سازی وجود نہیں رکھتی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کل کو کوئی بھی بندہ اٹھ کر کہہ سکتا ہے میں پی ٹی ایم کا حامی سپورٹر ہوں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایسا کوئی مبینہ حامی کسی ایک جانب سے چند ہزار یا لاکھ روپے کی خاطر کھڑا ہوکر کوئی بھی نعرہ لگا سکتا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایسا مبینہ حامی افغان ایجنسیز کی جانب سے پلانٹ شدہ ہو سکتا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایسا مبینہ حامی آپ کی جانب سے پلانٹ شدہ بھی ہو سکتا ہے؟ آج ہمیں افغان صدر کی جانب سے ہمارے اندرونی معاملات پر ایک ٹویٹ کھل رہی ہے۔ بیشک یہ ایک غلط بیان تھا۔ کسی کو ہمارے اندرونی معاملت کا فائدہ اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں۔ ہاں البتہ ہمارے پاس افغانستان کے اندرونی معاملے میں اپنی ناک گھسیڑنے کا پورا حق حاصل ہے۔ سرکار، کب آپ اپنی اداؤں پر غور فرمائیں گے؟

حضور والا، پچھلے دنوں علیم خان صاحب کو جیل بھجوایا گیا۔ اس سے پہلے نواز شریف کو جیل بھجوایا گیا۔ مریم نواز کو جیل بھجوایا گیا۔ شہباز شریف کو جیل بھجوایا گیا۔ حضور والا، راؤ انوار نے کون سا کشتہ یا کون سی سلاجیت کھائی ہے کہ اس کے پاس اس قدر طاقت آگئی کہ چار سو قتل کر کے بھی وہ اپنے گھر میں عیاشی کر رہا ہے؟ سرکار، آپ لوگ بندوق والوں کی جی حضوری کرتے ہوئے کہتے ہیں انہوں نے بالکل خواتین کی بے حرمتی نہیں کی۔ ہم آپ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ خواتین سے دراندازی کا امکان ہم کم از کم پاک فوج کی جانب سے مکمل رد کرتے ہیں۔ ہمارے جوان اس نہج پر ہرگز نہیں جا سکتے۔ لیکن حضور، آپ کے کئی حوالدار یہ بات برملا مانتے ہیں کہ آپ ہی کے لوگوں نے خیسور کے حیات خان کے گناہوں کے بدلے اس کے باپ اور بھائی کو اٹھایا ہوا ہے۔ اور پھر آپ کہتے ہیں نامعلوم افراد بندے غائب نہیں کرتے؟ جناب عالی، سانحہ ساہیوال بیج بونے والی ریکی کس نے کی؟ آپ نمبر ون ہیں، جہاں تک ہمیں آپ کے حوالدار بتاتے ہیں۔ کیا یہ سوال اٹھانا ناجائز ہے کہ ایسے کتنے اور واقعات پیش آئے جہاں معصوم افراد کو دہشتگرد بنا کر ان کے اہل خانہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگایا جا چکا ہے؟ حضور، کیا ہم نہیں جانتے کہ نقیب اللہ جیسے جوان سمیت چار سو افراد کو قتل کرنے والا راؤ انوار ذاتی حیثیت میں ہرگز اس قدر طاقتور نہیں ہو سکتا کہ اسے چھوا بھی نہ جا سکے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ ریاست پاکستان میں وہ کون سی واحد طاقت ہے جس کے آگے تمام ادارے تمام قانون اور ضابطے بے بس پڑ جاتے ہیں؟ سرکار، کیا یہ حقیقت نہیں کہ راؤ انوار نے یہ سینکڑوں قتل اس دور میں کیے جب رینجرز کو سندھ میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی؟ 

حضور والا، کیا ہم جیتے جاگتے باشعور انسان نہیں؟ کیا ہم کھیتوں میں اگائی جانے والی گوبھیاں ہیں؟ 

جان لیجیے کہ آپ کی یہی حرکتیں ہیں جو کراچی میں آپ کے خلاف نفرت کا لاوا کھولا چکی ہیں۔ سمجھ لیجیے کہ آپ کی یہی روش آج پشتونوں کے دل میں آپ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ یاد رکھیے ریاست ایک معاہدے کے تحت کھڑی ہے جس کے تحت فرد اور ریاست کے حقوق و فرائض متعین ہیں۔ یاد رکھیے یہ ایک دوطرفہ رشتہ ہے جس کا پاس رکھنا دونوں فریقین کا فرض ہے۔ یاد رکھیے کہ ماورائے عدالت کوئی بھی قدم اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ یاد رکھیے کہ ایک جانب سے بار بار معاہدے کی خلاف ورزی دوسری جانب کو اپنی بندشوں سے آزاد کرتی ہے۔

طالبان بھی تو اپنے تئیں اسلامی نظام کی بات کرتے تھے۔ اسلامی نظام جس کی خوبصورتی ایک سراب بنا کر ہماری دو نسلوں کے سامنے رکھا گیا، جسے ہر دوسرے شخص کا خواب اور تمام مسائل کا حل بنا کر ذہن میں بٹھایا گیا۔ لیکن طالبان کے خلاف ہمارا بنیادی مقدمہ ریاست کے آئین سے متصادم ہونے کا تھا۔ یعنی طالبان کا غیر آئینی متوازی نظام ریاست سے ان کی بغاوت کی دلیل ہوا کرتی تھی۔ آج ریاست میں آئین کے متوازی ایک اور قانون چل رہا ہے جس کے تحت ماورائے عدالت اقدامات عام ہوچکے ہیں۔ آج نقیب اللہ کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے۔ آج ارمان لونی کو ماورائے عدالت دل کا دورہ پڑوایا جاتا ہے۔ آج سانحہ ساہیوال پیش آتا ہے جس میں ماورائے عدالت عورت اور بچوں سمیت معصوم افراد کو سیدھے فائر کر کے قتل کیا جاتا ہے۔ آج خیسور کے ہدایت خان کے باپ اور بھائی کو ماورائے عدالت اٹھا لیا جاتا ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

حضور والا، اب آپ اور آپ کے سکہ بند سرکاری حوالدار و دانشور مل کر فیصلہ کیجیے کہ ریاست میں باغی آخر کون ہے؟ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply