قصہ ایک کوکین زدہ بادشاہ کا ۔۔۔ معاذ بن محمود

بادشاہ سلامت بیدار ہوئے۔ 

چیپڑ زدہ آنکھوں کو ملتے ہوئے ملکہ عالیہ کی امید میں کھبے پاسے غور کیا۔ ملکہ عالیہ ہمیشہ کی طرح غائب تھیں۔ بادشاہ سلامت کے دل میں کچھ برے الفاظ آنے کو تھے مگر یاد آیا کہ مؤکل کیا کہیں گے۔ سو درگزر کر دیا۔ 

“کیا یاد کریں گی ملکہ عالیہ، کس درجے کا لچک دار بادشاہ نصیب ہوا”۔ 

بادشاہ سلامت اپنے بستر سے اٹھے۔ بغلی میز پر رات جو لکیریں انہوں نے کھینچی تھیں اب ان سے طرح طرح کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ 

“لعنت ہے۔ اب انہیں کھینچنے میں سارا چہرا یہاں وہاں کرنا پڑے گا”۔ 

پھر بادشاہ سلامت کو یاد آیا۔۔۔ “مؤکل”۔ 

“اچھا سوری، کوئی لعنت نہیں۔ بندہ مذاق بھی نہ کرے اب؟”

بادشاہ سلامت نے آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں۔ مغز میں پاؤڈر پہنچ کر ملکہ عالیہ کے حکم کی طرح اثر دکھا دیا کرتا تھا۔ فوراً بادشاہ سلامت اپنے پیروں پر کھڑے۔

“ناشتہ” شاہِ وقت نے رعب دار صدا لگائی، جو صبح صبح بیٹھے ہوئے گلے کے باعث نکلتے ہوئے رعب سے منمناہٹ تک کا سفر کر بیٹھی۔ 

ملازم خاص نے فوراً سے پیشتر بادشاہ سلامت کا ناشتہ جو بترتیب یوم ہفتے کے پانچویں دن پانچ انڈوں، پانچ چمچ جن سنگ والا شہد، پانچ تولے مشک والی ملائی اور پانچ کپ کٹے کی ماں کے دودھ پر مشتمل تھا، سامنے رکھ دیا۔ شاہ نے پیٹ بھر کے ناشتہ کھینچا۔ 

بادشاہ سلامت نے اپنے کمرہ خاص سے باہر نکلتے ملکہ عالیہ کو دیکھا جو گہری نیلی آگ کے گرد بلوچ موسیقی لگائے کوئی چلہ کاٹ رہی تھیں۔ بادشاہ کو اس لمحے وہاں کچھ غیر مرئی مخلوقات کی موجودگی کا شائبہ ہوا جو اس موسیقی پر لڈی ڈال رہی تھی۔ 

“بلوچ موسیقی پر لڈی؟”

بادشاہ سلامت ابھی یہ سوالیہ سوچ ذہن ہی میں لائے تھے کہ ملکہ عالیہ کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ “تینوں کی؟ میری موسیقی میرے مؤکل میری مرضی”۔ 

بادشاہ سلامت کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے وقوعہ سے کلٹی ہونا مناسب سمجھا۔ 

بادشاہ سلامت دربار کی جانب چل دیے۔ وہ ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش میں تھے مگر رات کی کہانی انہیں یاد نہیں آرہی تھی۔ کل ملکہ عالیہ چلہ کاٹنے جسے وہ معزز زبان میں وظیفہ ادا کرنا کہا کرتی تھیں، باہر کسی پہاڑ پر تھیں۔ شام سے ہی وہ اپنے شمالی علاقے سے تعلق رکھنے والے مصاحب خاص الخاص کے ساتھ تھے۔ اتنا یاد تھا۔ یہ بھی یاد تھا کہ غزنی سے آئے خالص سیاہ مواد کو ہتھیلی سے خوب چیپ چیپ کر بیڑیاں بنائی تھیں اور دھویں کی پھیپھڑوں تک رسائی بھی دلوائی تھی۔ اس کے بعد لکیریں کھینچنے کا شاہی مشغلہ فرمایا تھا۔ آگے کیا ہوا نہیں معلوم۔

بادشاہ سلامت دربار پہنچے۔ وہ گہری سوچ میں تھے کہ لکیروں کی زیادتی ان کی یادداشت پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ وزیر مالیات انہیں کئی بار یہ بات باور بھی کرا چکا تھا۔ 

دربار میں داخل ہوتے ہی تمام درباری کھڑے ہوگئے۔

یہ روز کا معمول تھا۔ آج مگر کچھ الگ بات تھی۔ یہ تمام درباری ایک جھٹکے سے کیوں کھڑے ہوئے؟ بادشاہ سلامت سوچتے رہے۔ مسکراہٹ دباتے فربہ تن و چربی توند وزیر اطلاعات کو دیکھا۔ یہ کم ذات انہیں ہرگز پسند نہ تھا پر مؤکلوں کو جانے کیا ادا بھا گئی اس کی جو اسے عہدہ دینا پڑا۔ وزیر مالیات کی آنکھوں میں جھانکا مگر صرف الجھن ہی دیکھ سکے۔ مصاحب خاص الخاص کی جانب دیکھا، وہاں صرف “اور اور اور” کی ہوس دکھائی دی۔ وزیر دفاع کو دیکھا تو اپنی مدافعت پر شک ہونے لگا۔ وزیر خارجہ کی آنکھوں میں جھانکا تو دو ملتانی مؤکل اور کھڑے تھے، سبز رنگ والے۔ بادشاہ سلامت خود الجھن کا شکار ہوگئے۔ 

“بیٹھ جاؤ سارے۔” 

حکم کی تعمیل ہوئی۔ درباری ایک دوسرے سے سرگوشی اور کانہ پھوسی کرنے لگے۔ اب بادشاہ کو یقین ہوگیا کہ کچھ غلط ہے۔ خود سے پوچھنا البتہ کچھ معیوب سا محسوس ہوتا۔ بالآخر تنگ آکر اس نے چرب زبان و چربی توند وزیر اطلاعات سے سوال کیا۔ 

“اے ہمارے وزیر اطلاعات، کہو یہ الجھن کیسی ہے، کیا پچیدگی ہے جسے ہمارا دربار آج محسوس کر رہا ہے؟ کہو کیا معاملہ درپیش ہے تم سب کو؟”

اب وزیر اطلاعات کا امتحان تھا، گو سب جانتے تھے کہ اس ناہنجار نے اس قسم کا امتحان سو میں سے چار سو بیس نمبر لے کر پاس کرنا ہے۔ وزیر اطلاعات کہنے لگا۔ 

“بادشاہ سلامت۔ لاکھوں تسبیحات آپ کی ذات پر، آپ کے ماں باپ پر، آپ کی ہمشیراؤں پر، سانڈؤوں پر اور سالوں پر۔ لاکھوں تسبیحات بادشاہ سلامت آپ کے مصاحبین پر، درباریوں پر اور آپ کی یاریوں پر۔ بادشاہ سلامت لاکھوں تسبیحات آپ کے مصاحب خاص الخاص پر اور اس کے رفقاء پر۔ بادشاہ سلامت لا۔۔۔۔”

“او بس کر چوہدری مدعے پر آ” بادشاہ سلامت جھلا کر بولے۔ 

“جی جی بادشاہ سلامت۔ بس بات شروع۔ میں آپ کی بجائے اس دربار کے درباریوں اور آپ کی محکوم عوام سے خطاب کرنا چاہوں گا۔ اجازت ہے؟”

“چوہدری، جلدی کر لے ورنہ اب تیرا سر قلم ہوجائے گا”۔ بادشاہ سلامت تپ چکے تھے۔ 

وزیر اطلاعات نے خطاب کا آغاز کیا۔ 

“اے میرے عظیم بادشاہ کے مغلوب درباریوں، میرے عظیم بادشاہ کی شاہانہ سلطنت کی رعیت میں محکوم رہنے والوں، میرے عظیم بادشاہ کے کمی کمین وزیروں۔۔۔ تم بس دیکھو، اپنے دیدے پھاڑ کر دیکھو، دماغ کھول کر دیکھو۔۔۔ یہ بات حقیقت ہے کہ بادشاہ سلامت آج پاجامہ و زیریں جامہ پہننا بھول گئے ہیں، مگر اس کے باوجود اے 

محکوموں تم بس یہ دیکھو کہ بادشاہ سلامت ہینڈ سم کتنے لگ رہے ہیں؟” 

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے بعد سے مؤرخ لاپتہ ہے۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply