ٹنڈو بہاول سے ساہیوال تک ۔۔۔ معاذ بن محمود

تاریخ ۱۱ ستمبر ۱۹۹۶ اور دوپہر کا وقت ہے۔ فضاء پہلے ہی قائد کے یوم وفات پر افسردہ ہے۔

وہ دونوں اپنے ہنستے بستے گھرانے کی تباہی کے بدلے انصاف مانگنے سربازار کھڑی ہیں۔ زندگی کا بوجھ اٹھائے وہ حاکم وقت سے انصاف کی بھیک مانگ مانگ کر تھک چکی ہیں۔ رات ماں سے لپٹ کر دونوں جس قدر ممکن ہوا جی بھر کر رو چکی ہیں۔ آنسو ہیں کہ خشک ہیں۔ زندگی اب ویسے بھی بے معنی ہے کہ ان کے محافظ منوں مٹی تلے دفنائے جا چکے ہیں۔ ماں کی پتھرائی آنکھیں اور معاشرے کی بے حسی اب انہیں احساس سے ماورا اقدام کی چٹان پر کھڑا کر چکے ہیں۔ ان کا احتجاج اب ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ شاید فیصلہ ہوچکا ہے تبھی تاخیری حربے آزمائے جارہے ہیں۔ مگر فیصلہ ان دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ شاید کوئی اور ہوتا تو رو دھو کر خاموش ہوجاتا لیکن ہر کوئی کہاں ان دونوں کی طرح ضدی ہوا کرتا ہے؟

یہی وہ لمحہ تھا جب حکیمزادی نے زیب النساء کی آنکھوں سے سوال کیا اور تاسف بھری نفی محسوس کرتے ہی دونوں بہنوں نے خودسوزی کر ڈالی۔

شاید انہیں مبہم سی امید رہی ہو کہ تماشائیوں میں سے کوئی انہیں بچا لے گا لیکن صاحب، وہ تماشائی ہی کہاں جو تماشہ کرنے والے کی آنکھ سے ٹپکتے آنسو اور ان کے زخمی دل کی داستان کو سمجھ سکے! 

قانون کے رکھوالے پولیس افسران نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے محافظ میجر ارشد اعوان سے کہیں زیادہ فرض شناس نکلے۔ فوراً سے پیشتر دونوں بہنوں پر اقدام خود کشی کا مقدمہ دائر کیا اور ماں کو سلاخوں کے پیچھے پھینک ڈالا۔ آفرین ہے میرے محافظوں کی فرض شناسی پر۔ آفرین ہے حکیمزادی اور زیب النساء کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے میجر ارشد پر۔ اور تف ہے مائی جندو پر کہ اپنے جوان بیٹوں کے سرد مہر قتل پر انصاف مانگنے نکل کھڑی ہوئی۔ مائی جندو کے دو بیٹوں سمیت نو افراد کو ۵ جون ۱۹۹۲ کی رات حیدر آباد کے مضافاتی علاقے ٹنڈو بہاول میں واقع ان کے گھروں سے پاک فوج کے حاضر سروس افسر میجر ارشد اعوان کی سربراہی میں اغواء کیا گیا اور بعد ازاں گولیاں مار کر جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے پھینک دیا گیا۔ 

قابل اجمیری کہہ گئے ہیں۔۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں 

حادثہ اک دم نہیں ہوتا 

مائی جندو کو انصاف ملتے ملتے ۴ سال ۴ مہینے ۲۴ دن اور دو جواں سال بیٹیوں کی بھسم شدہ لاشیں صرف ہوچکے تھے۔ اس نقصان میں سے اڑتالیس دن اور دو لاشیں بچائی جا سکتی تھیں اگر عدالت عظمی کے فاضل جج مجرم کی اپیل نمٹانے میں اتنی ہی مستعدی سے کام لیتے جتنا سیاسی نوعیت کے من پسند مقدمات نمٹانے میں لیتے رہے ہیں۔ 

میجر ارشد اعوان کو بالآخر ۲۸ اکتوبر ۱۹۹۶ کو پھانسی کے پھندے سے نواز دیا گیا مگر تب تک یقیناً کافی دیر ہوچکی تھی۔ 

یقیناً میجر ارشد اعوان کے پتھر دل میں کہیں نہ کہیں موم کی آمیزش موجود رہی ہوگی ورنہ کیا مشکل تھا جو بھرے گاؤں میں مائی جندو، حکیمزادی اور زیب النساء کے سامنے بہادر چانڈیو اور منٹھار چانڈیو کے جسموں میں گولیاں اتار دیتے؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیا مشکل تھا جو مائی جندو کے بچوں کو بھی ۴ سالہ ہادیہ، ۵ سالہ منیبہ ۹ سالہ عمیر کی طرح اپنے خونی رشتوں کے بہیمانہ قتل کا عینی شاہد بنا دیا جاتا؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply