بیضوی خواب ۔۔۔ معاذ بن محمود

وہ اپنی سوچ میں گم تھا۔ 

“انڈے۔۔۔ دو انڈے۔۔۔”

“پہلے دو انڈوں کا مستقل بندوبست کروں گا۔ ان میں کوئی مسئلہ تو ہے۔”

اس کے پاس فی الحال دو ہی انڈے موجود تھے۔ خالص دیسی دو انڈے۔ اس نے پوٹلی پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ یہ پوٹلی اس کے دونوں خالص دیسی انڈوں کی امانت دار تھی۔ 

وہ سوچ میں غرق تھا۔ 

“بانی نیا پاکستان کوئی بات ایسے کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ممکن ہے وہ بھی دو انڈوں کے مسائل سے گزر چکے ہوں؟ ماضی قریب میں تو ممکن نہیں۔ شاید ماضی بعید میں وہ اس معاملے کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہوں گے؟ یہ معاملہ اتنا سادہ تو نہیں۔ انڈے ایک نازک جنس ہیں۔ شاید بچپن میں انہیں یہ معاملہ سنگین نوعیت کا محسوس ہوا ہو۔ شاید جوانی میں۔ ہاں جوانی میں ہی سمجھ آئی ہوگی۔ یہ احساسات عموماً لڑکپن کے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ بلوغت کے آغاز میں خاص کر۔ جب انسان کئی اہم تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا ہے۔ ان تبدیلیوں میں سے اہم ترین ذہنی، جسمانی اور مالی معاملات سے ہی تو نسبت رکھتی ہیں۔ شاید لیڈر نے سوچا ہو انڈے بیچ کر پیسہ کماؤں گا۔”

وہ دل ہی دل میں محوِ فکر ہوگیا۔ بلوغت کا خیال آتے ہی اس کا ذہن فکری سفر کی اڑان بھرتے اپنی نوجوانی کے آغاز تک جا پہنچا۔ 

“بیٹا، اب تم بڑے ہورہے ہو۔ بظاہر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔”

ابا نے اسے سوتے سے اٹھا کر انڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

“یہ انڈے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم جیسے آدمیوں کے لیے یہ ہماری کل کائنات ہوا کرتے ہیں۔ یہ چھین لیے جائیں تو ہماری دنیا پلٹ جائے گی۔ ہم کسی کام کے نہ رہیں گے۔”

اسے یاد ہے کہ اس رات وہ مرغیوں کے دڑبوں کے پاس ہی سو گیا تھا۔

ایک پولٹری فارم کا مالک بھلا اور سوچ بھی کیا سکتا تھا۔ انڈے اس کے ابا کے لیے نازک اور حساس معاملہ تھے۔ مرغا خود بھی کسی طور کم اہمیت کا حامل نہیں مگر انڈے مرغے کی نسل کو دوام بخشا کرتے ہیں۔ اسے محسوس ہوا کہ ابا جی کی جو بات اس نے ہلکی اور بے معنی سمجھ کر دماغ کے کسی گمنام دریچے میں رکھ دی تھی، آج اس کے راہنما نے اسے جھنجھوڑ کر واپس نکالنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

وہ واپس اپنے حال میں آگیا۔ وہ جہاز میں بیٹھا تھا۔ برابر والی سیٹ جو تھوڑی دیر پہلے تک خالی تھی، اب ایک ادھیڑ عمر خاتون اس پر براجمان ہو چکی تھیں۔ خاتون کا وزن سو کلو سے اوپر تھا اور ان کی رانیں سیٹ کے آئزل سے نکل کر اسے تنگ کر رہی تھیں۔ اس نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ جہاز میں سو سے اوپر خاتون کے مبینہ بھائی موجود تھے۔ ایسے میں خاتون کی ران سے مس ہونا بھی اسی کا قصور بن جانا تھا۔ وہ اپنی نشست پر مزید سکڑ کر بیٹھ گیا۔ 

عین اسی وقت ایک بار پھر اسے بے سکونی شروع ہوگئی۔ 

“لعنت ہے، آئیندہ یہ سیفٹی استعمال نہیں کروں گا۔”

“انڈے” وہ ایک بار پھر سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیا۔ 

گاؤں کے ماحول میں وہ ایک پڑھا لکھا شخص شمار ہوتا تھا۔ پوری آٹھ جماعتیں پاس۔ اس کا جگری “فیکا گدی دا” جو اپنی موٹی گردن کے باعث بچپن میں ہی یہ لقب حاصل کر چکا تھا، فقط تیسری جماعت تک ہی پڑھ سکا تھا۔ 

“انڈے۔۔۔ دیسی انڈے۔۔۔ وہ بھی پورے دو”

اب وہ سوچ کے تانے بانے بننے میں لگ گیا۔ یہ دو انڈے اسے اس وقت اپنی کل کائنات محسوس ہورہے تھے۔ مگر جہاز میں یہ تنگ سیٹ اس کے خیالات میں خلل کا باعث بن رہی تھی۔ سب سے بڑی مصیبت صبح نئی سیفٹی کا استعمال تھا جو اسے کھجلی کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ 

“یہ دو دیسی انڈے میرا کتنا ساتھ دے پائیں گے؟”

چونکہ وہ “تعلیم یافتہ” تھا اور پھر اس کا لیڈر دیسی انڈوں پر مفصل اور جامع حکمت عملی بھی ترتیب دے چکا تھا لہذا اسے اپنا مستقبل تابناک نظر آنا شروع ہوچکا تھا۔ 

“ان دو انڈوں سے آغاز کروں گا۔ پھر شادی کروں گا۔ پھر دیسی مرغیوں کا فارم بناؤں گا۔ پھر میرے بچے ہوں گے۔ فارم میں مرغیاں آئیں گی۔ میرے بچے ہی بچے۔ مرغیاں ہی مرغیاں۔ میرے کئی بیٹے ہوں گے۔ مرغیاں ہی مرغیاں۔ بیٹے ہی بیٹے۔ انڈے ہی انڈے۔ ایک دن میں انڈوں کا ملک ریاض بن جاؤں گا۔”

اس دوران اس کی نظر ساتھ بیٹھی ایک سو پچیس کلو وزنی خاتون پر پڑی۔ جانے کیوں خاتون کی نظریں اس کی شلوار پر جمی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے خاتون کی آنکھوں سے قہر برس رہا ہو۔ اب وہ پریشان ہو رہا تھا۔ جانے کیا بات تھی۔ 

ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے خاتون اس کے انڈے چھیننا چاہتی ہو۔ اس نے اپنے خالص دیسی انڈوں کی پوٹلی چھپا لی۔ 

“ایک تو یہ سیفٹی کی وجہ سے ہونے والی خارش سے پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی۔ دو تین دن تو لگ ہی جائیں گے۔” اسے اذیت محسوس ہوئی۔ 

جہاز لینڈ کر چکا تھا۔ پہیے زمین کو چھوتے ہی اس نے کھڑا ہونا چاہا، جیسا کہ عموماً تمام پاکستانی جہاز کے عملے کی ستائیس بار تاکید کے باوجود بھی جہاز کے پروں سے پہیوں پر آتے ہی کھڑے ہوجایا کرتے ہیں۔ وہ اپنی کوشش میں ناکام رہا کیونکہ آگے خاتون اس کے لیڈر کے کنٹینر کی طرح راستہ ناصرف روکے بلکہ وہی قہر آلود نظریں جمائے کھڑی تھیں۔ 

اللہ اللہ کر کے وہ جہاز سے باہر نکلا۔ 

سامنے ایف آئی اے کے دو اہلکار اپنی تین بج کر پچاس منٹ بجاتی مونچھوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ 

“اے بندہ سی بی بی؟”

“ہاں یہی تھا وہ بے غیرت۔”

سیکیورٹی اہلکار درشت لہجے میں بولا۔ 

“چل اؤئے ***** دیا، تجھے باجی کے سامنے عضوء خاص کھجانے کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply