خلیل الرحمن قمر پر اعتراضات کا جائزہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

سال ۲۰۱۸ اور ۲۰۱۹ میں پاکستان بھر کی سڑکوں نے عورت مارچ دیکھا۔ عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر منعقد ہونے والا یہ مارچ کئی ہفتے سوشل اور مین سٹریم میڈیا میں بحث کا موضوع بنا رہا۔ ۲۰۱۹ والا مارچ پہلے کی نسبت مزید پرجوش دکھائی دیا جس کی خصوصیت مارچ میں موجود خواتین کے بولڈ بینر اور پلے کارڈ تھے۔ یقیناً یہ پلے کارڈز سبھی کو یاد ہوں گے۔ پھر بھی ایسے احباب ضرور ملیں گے جن کی یادداشت میری طرح کمزور ہے لہذا اس موقع پر خواتین کے حق میں مکالمہ پر شائع ہونے والا میرا مضمون اس لنک پر دستیاب ہے۔ یہ مضمون حقوقِ نسواں سے متعلق میری ذاتی رائے کا بھی صد فیصد عکاس ہے جو سادہ الفاظ میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے پر مبنی ہے۔

تاہم یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ہر اختلاف پر ایک ہی جانب کی طرفداری کر کے خود کو ایک فریق کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے اپنی وفاداری ثابت کی جائے۔ اختلاف یا اتفاق مسئلے کی نوعیت پر مبنی ہونا چاہیے ناکہ ایک اور فقط ایک ہی فریق کے حق میں یا خلاف آواز اٹھانے کی “ذمہ داری” پر۔ خلیل الرحمن قمر کا معاملہ اسی سلسلے کی ایک مثال ہے۔

تمام قضیہ خلیل الرحمن قمر کے تازہ ترین ڈرامے “میرے پاس تم ہو” کے ایک ڈائیلاگ سے شروع ہوا جس میں ایک کردار اپنی بیوی کے بارے میں “دو ٹکے کی لڑکی” جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ دانش نامی شخص کا یہ کردار ہمایوں سعید نے ادا کیا جسےڈرامے کے آغاز میں ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا شخص دکھایا جاتا ہے۔ دانش کی اہلیہ، مہوش کا کردار آئزہ خان نے ادا کیا جواداکاروں کی نئی نسل میں ایک نامور اداکارہ ہیں۔ “دو ٹکے کی لڑکی” ڈرامے کے ڈائیلاگ کا حصہ ہے جس کا ایک سیاق و سباق ہے۔ بدقسمتی سے ان چار الفاظ کو لے کر فیمنزم کے حامی احباب نے ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز کیا جو تاحال جاری ہے۔ آج کی تحریر میں اس ڈرامے سے لے کر خلیل الرحمن قمر تک اڑائی جانے والے بھد ہی پر بات مقصود ہے۔

اس ضمن میں بنیادی ترین نکتہ یہ ہے کہ آپ کے پاس اختلاف کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ کو کسی شخص سے نظریاتی اختلاف ہے، جو یقیناً ہونا بھی چاہیے اور جس کے اظہار کے لیے آپ کے پاس دو تین نکات ہوں گے جن پر بحث کی جا سکتی ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ آپ کو ایک بندہ بس برا لگتا ہے لہذا آپ ٹوہ میں لگے رہیں گے کہ کوئی موقع ملے اور آپ صحیح یا غلط بس اپنا غصہ نکال سکیں۔ اگر آپ کے اختلاف کی وجہ پہلی ہے تو یقیناً آپ سے بات ہو سکتی ہے البتہ اگر آپ کے اختلاف کی وجہ دوسری ہےتو پیشگی معذرت قبول فرمائیے کیونکہ اگلے نے خاموش تو بیٹھنا نہیں اسی انڈسٹری میں کام بھی کرتے رہنا ہے مطلب آپ کا دل بہرحال جلنا ہی جلنا ہے۔ کوشش پھر بھی یہی ہوگی کہ اس معاملے پر سامنے آنے والے تمام اعتراضات کا جائزہ لیا جائے۔

سب سے پہلا اعتراض خلیل الرحمن قمر کے نظریات کے بارے میں ہے کہ موصوف مساجونسٹ ہیں یعنی خواتین کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ اس کا جواز میرے پاس تم ہو میں مہوش کے کردار، ڈرامے کے ڈائیلاگز اور مہوش کے اس ڈرامے میں بحیثیت عورت ایک امیج سے اخذ کر کے پیدا کیا گیا اور بعد ازاں خلیل کے انٹرویوز کو بنیاد بنا کر اس پیغام کو جلا بخشی گئی۔ مہوش ایک نکاح  میں ہوتے ہوئے دوسرے مرد کی دولت پر مبنی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے پہلے نکاح سے آزاد ہوتی ہے اور دوسرے مرد کی جانب چلی جاتی ہے۔

اب اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ پہلا قدامت پسندی اور موجودہ روایات پر مبنی جس کے تحت ایسی عورت کو معاشرے میں اچھانہیں سمجھا جاتا جو کسی بھی وجہ سے ایک مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرے مرد سے تعلقات استوار کرے اور بالآخر نکاح کی بندش سے آزاد ہو کر دوسرے کے نکاح میں چلی جائے۔ یہ اچھا ہے یا برا اس سے قطع نظر فی الوقت معاشرے میں اسے برا ہی سمجھا  جاتا ہے۔

ویسے برسبیل تذکرہ مجھے اس سے ایک جنگجو غالبا ہلاکو خان کا قصہ یاد آگیا جس نے کسی شہر کے طویل محاصرے کے بعد اسے شہرکے اندر موجود غدار کی مدد سے فتح کیا جس نے ہلاکو خان کے لیے دروازہ کھولا تھا۔ بعد ازاں شہریوں کا قتل عام کرتے ہوئے اسی غدار  کی کھوپڑی سب سے اوپر سجانے کا اہتمام کیا کہ جو اپنوں کا نہ ہوا وہ میرا کیسے ہوگا۔

یا تو آپ وفا کے تصور کو سرے سے خرافات مان لیجیے، تب تو بات سمجھ آتی ہے کہ رشتوں میں بندھے دو افراد کے درمیان وفانامی بندھن ہی نہیں لہذا کل کلاں کسی بھی بات کو بنیاد بنا کر کوئی بھی ایک فرد رشتے کو توڑ سکتا ہے اور اس پر برا منانا بے کارہے۔ تاہم جب تک وفا نامی شے کا وجود رہے گا تب تک پیسے یا کسی اور دنیاوی خواہش کے تحت نکاح توڑنا بے وفائی ہی کہلائےگا۔ یاد رہے، عورت یا مرد دونوں کو یہ اختیار قانون بھی دیتا ہے اور مذہب بھی کہ وہ جب چاہے نکاح کے بندھن سے آزادی اختیارکر لیں تاہم معاشرتی اعتبار سے اسے بہرحال غلط ہی سمجھا جائے گا۔

یہاں میں ایک مثال مغربی معاشرے کی بھی دینا چاہوں گا۔ بہت سے دوستوں کے نزدیک ڈرامہ میرے پاس تم ہو کا بنیادی پلاٹ انگریزی  فلم انڈیسینٹ پروپوزل سے اخذ کیا گیا ہے۔انڈیسینٹ پروپوزل اور میرے پاس تم ہو میں اوّل تو زمین آسمان کا فرق ہے۔  انڈیسینٹ پروپوزل میں ایک جوڑا باہمی رضامندی سے اہلیہ کی ایک رات تیسرے  فریق کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ پوری فلم اسی سے متعلق ہے اور ایک اچھی فلم ہے۔ لیکن کیا آپ نے غورکیا کہ فلم کا نام، ڈائیلاگ اور کہانی تینوں ہی اس پیش کش کو “انڈیسینٹ” کہا گیا ہے۔ بقول محمود فیاض صاحب، مغرب میں پیسےکی خاطر ایک بندھن توڑ کر دوسرا استوار کرنے والی عورت کو “بچ” کہا جاتا ہے۔ ہم اسے غلط کہہ سکتے ہیں تاہم اس وقت  تک کےمعاشرتی نارمز المعروف اقدار کے تحت یہ فعل غلط ہی مانا جائے گا۔ پھر اسی معاشرے کے ایک فرد کی جانب سے بنائے گئےڈرامے پر اتنا شور کیسا؟

لیکن یہاں معاشرے پر بھی ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں جج کرنا ایک بہت عام بیماری ہے۔ پچھلے ہفتے میں ایک  نسلی ریسٹورینٹ میں فیملی کے ساتھ کھانا کھانے گیا۔ یہ سٹیک بوفے تھا جہاں جانے کتنی ہی نسل کے سٹیک ٹیبل پر ایک ایک کر کے لائے جا رہے تھے۔ انہی انواع میں ایک چکن سٹیک ریپڈ  ود بیکن تھی۔ بیکن سن کر میرے ذہن میں ایک شرارت آئی۔ میں نے بیگم کو اشارہ کر کے کہا خاموش رہنا، اور ساڑھے دس سالہ بیٹے ارحم کو کہا بیٹا یہ جو تم نے بوٹی کھائی ہے اس پر پورک (سور کاگوشت) لگا ہوا تھا۔ پہلے تو ارحم کو یقین نہیں آیا۔ پھر جب ماں کی جانب سے اثبات کا سگنل ملا تو اس نے بوٹی پلیٹ سے ہٹا کررکھ دی۔ میں اس دوران وہی بوٹی مزے لے لے کر کھاتا رہا۔ ارحم کہتا رہا کہ مجھے نہیں پسند آئی، حرام ہے، لیکن مجھے نہیں روکا۔پھر میں نے اس سے سوال کیا، میں اگر پورک کھاؤں تو کیا میں برا آدمی ہوں؟ جواب آیا نہیں لیکن پورک حرام ہے ہمیں نہیں کھاناچاہیے۔ مجھے خوشی ہوئی۔ میرا بیٹا ججمنٹل ہونے کا مرتکب نہیں ہوا۔ اس عمر میں بھی نہیں۔ مجاہدین ڈنڈہ بردار کی غلط فہمی کے لیےعرض ہے وہ پورک نہیں تھا۔

ہمارے معاشرے کو ججمنٹل ہونے کی بیماری ہے۔ چلئے مان لیا، مہوش پیسے کی خاطر ہی سہی الگ ہوگئی دانش سے۔ کیا اب مہوش کو معاشرے میں نارمل زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں؟ اس کے ساتھ برتے جانے والے رویے سے ہی جنم لیتی ہے معاشرےکی بجائے مرد کو غلط کہنے والی فیمنزم۔ مہوش کے پاس اپنی وجوہات ہوں گی جن پر بحث ہو سکتی ہے لیکن معاشرے میں ایک اچھےمستقبل کی آس میں زندگی گزارنے کا حق تو ہم بہرحال اس سے بھی نہیں چھین سکتے۔

عین ممکن ہے آپ کو میری باتوں میں تضاد دکھائی دے، اور سچ جانیے تو کسی حد تک تضاد ہے بھی۔ تاہم میرا ماننا ہے کہ زندگی حق اور  باطل کے بلیک اینڈ وائیٹ کے درمیان کہیں گرے ایریا میں پڑی ہے۔ اس گرے ایریا میں رہ کر بھی کسی کو سفید کا گماں ہوتاہے تو کسی کو سیاہ کا۔ کم از کم ہمیں ان کے سفید سیاہ کی تعظیم کرتے ہوئے اسے گرے ماننا پڑے گا اور یہی عمل ججمنٹل نہ ہوناکہلاتا ہے۔

ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا گیا کہ میرے پاس تم ہو میں مہوش کو لے کر عورت کا منفی کردار دکھایا گیا ہے۔ کیا ایسا ماننے والےمیرے دوست یہ نہیں دیکھتے کہ معاشرے میں پستان کاٹنے والے مرد بھی ملتے ہیں اور آلہ تناسل کاٹ کر مزدوروں کو کھلا دینے والی عورت بھی؟ پھر کیونکر آپ کو مہوش کا کردار عورت پر کیچڑ دکھائی دیا مگر اسی خلیل الرحمن قمر کے ڈرامہ سیریل لنڈا بازار کےحیات احمد سے آنکھیں چرا لیں جو دولت کے چکر میں اپنی بیوی، بالی کی حاملہ ماں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر ثریا بتول نامی امیر کبیرعورت سے شادی کر لیتا ہے؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ لکھاری نے ہر دو طرح کے کردار دنیا کے سامنے رکھے ہیں؟ جہاں ایک  جانب شہوار کو دولت کے گھمنڈ میں مبتلا مرد دکھایا گیا وہیں اپنے ایک اور ڈرامے لنڈا بازار میں ثریا بتول کو اسی دولت کے نشےمیں سرشار ایک عورت دکھایا گیا تھا جو کسی کی جان لینے کو بھی برا نہ سمجھتی تھی۔

پچھلے دنوں نیوز بیٹ میں خلیل الرحمن قمر اور طاہرہ عبد اللہ کی گفتگو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ طاہرہ عبد اللہ پاکستان کی معروف فیمنسٹ ہیں  اور پاکستانی معاشرے میں حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے حقیقی معنوں میں سرگرم ہیں۔ اس پروگرام میں ایک انتہائی دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ پروگرام کے آغاز میں طاہرہ عبد اللہ متواتر اسلام میں عورت کے ناقص العقل ہونے پر سوال اٹھاتی رہیں تاہم خلیل الرحمن قمر کی جانب سے “مجھ پر کہانی اترتی ہے” کے بیان پر وہی طاہرہ عبد اللہ مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں۔بھئی اگر آپ نے بھی اپنے ناپسندیدہ لوگوں کے خلاف مذہب کارڈ ہی کھیلنا ہے تو پھر مولوی کے ایسا کرنے پر کیسی مخالفت؟

کئی دوست ڈرامے کے اختتام کو لے کر ناراض بیٹھے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں کریلے بھرے پراٹھے پکنے کابھی کھانا ملنے پر پتہ چلتا ہے۔ دانش کو مار دیا، کیوں مارا، نہیں مارنا چاہئے تھا، یہ بنتا نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔ بھائی اتنا مسئلہ ہے تو خودلکھ لو کہانی؟ جارج آر آر مارٹن نے گیم آف تھرونز کے ہر دوسرے ابھرتے کردار کو عین عروج پر مار ڈالا۔ ظاہر ہے مقابلہ کوئی بنتاتو نہیں مگر بتانا یہ مقصود تھا کہ لکھاری کی مرضی، جو چاہے تخلیق کرے جب چاہے مار ڈالے۔ ہاں کردار اگر مر کر بھی زندہ رہ جاتاہے تو یہ لکھاری کی کامیابی ہے۔ دانش کی اداکاری، ڈائیلاگ، مرکزی خیال وغیرہ یہی سب دراصل خلیل الرحمن قمر کی طاقت ہے۔یہ تمام کردار سماج اور سماجی رویوں سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں۔

دیکھا جائے تو میرے پاس تم ہو میں بھی ایک سماجی مسئلہ دکھایا گیا ہے اور ساتھ اس کے ممکنہ حل کی جانب بھی توجہ دی گئیہے۔ فرماتے ہیں میں نے معاشرے کو بتایا کہ ایسی صورتحال میں بھی عورت پر ہاتھ اٹھانے یا جان سے مارنے کی بجائے عورت کوآزاد جانے دو۔ دانش کی موت پر خلیل فرماتے ہیں بے وفا کو مار کر سزا دینے کی بجائے ساری زندگی کی پشیمانی کی سزا دینا بہتر تھا۔بتائیے کیا دلیل ہے جواب میں؟

Advertisements
julia rana solicitors

خلیل الرحمن قمر ایک ٹیلنٹ ہے جس کی قدر بہرحال ہونی چاہیے۔آپ کے نزدیک  جناب بھڑکیں مارتے ہیں، خود پسند بھی  ہوسکتے ہیں، غصے کے بھی تیز ہوں گے مگر ٹیلنٹ سے بہرحال اوپر والے نے نوازا ہے۔ کردار اور مکالمہ سازی کے ماہر ہیں اور وہ بھی عین سماجی۔ آپ چاہیں تو ان کی کسی لوز بال پر آگے نکل کر چھکا ماریں تاہم لنڈا  بازار کے مہر چراغ کی ٹکر کا ایک کردار سامنے لے آئیں، صدقے تمہارے جیسا ایک ڈرامہ بتا دیں اور پھر اگلے کے ٹیلنٹ پرسوال اٹھاتے رہیے۔ خلیل الرحمن کے ڈراموں میں سماج میں عورت مرد کے رشتوں پر بات ہوتی ہے جہاں کبھی مرد تو کبھی عورت غلطی پر ہوا کرتی ہے۔ کسی ایک ڈرامے کو پکڑ کر تنقید بے جا ہے۔ بات کرنی ہے تو پورے کیرئیر پر ناکہ صرف ایک ڈرامےیا ایک پہلو پر کیجیے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply