بخدمت جناب۔۔۔ معاذ بن محمود

بخدمت جناب شوقیہ لبرل اور فیشن زدہ مذہب مخالف خواتین (و حضرات)

السلام علیکم!

بعد سلام عرض ہے کہ بندہ ناچیز محسوس کرتا ہے کہ احقر دور حاضر کے مقبول فنون لطیفہ و دلچسپیات ما بعد از کار ہائے وظیفہ کا کسی حد تک واقف کار ہے۔ غریب، قطعہ ریاست مملکت پاکستان کے ایک مخصوص حصے میں بند بھی نہیں رہا لہذا خود کی بابت کنویں کے مینڈک والا حساب بھی بعد از قیاس محسوس کرتا ہے۔مزید برآں، مسکین آرٹیفیشل انٹیلیجینس، رینڈم سگنلز اینڈ نائز، اینٹینا اینڈ ویو پروپیگیشن، مائیکروپروسیسر اینڈ کمپیوٹر آرکیٹیکچر، وغیرہ جیسے مضامین میں اوسط سے بہتر درجات کے ساتھ ناصرف انگریزی تعلیم پر مبنی ڈگری حاصل کر چکا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایک دہائی سے عملی طور پر بھی ان علوم سے جڑا ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بندہ چند ماہ پہلے آپ کی آنکھوں کے سامنے کچھ شرپسند مولانا حضرات کے ہاتھوں شدید کرب سے گزر چکا ہے، اور اس کے باوجود آج بھی ہر قسم کی مذہبی و غیر مذہبی شدت پسندی سے ببانگ دہل برات کا اظہار کرتا ہے۔ حقیر اپنے ذہن کے پر مغز افکار کی ماہانہ بذریعہ ایک تا دو کتب گوٹی کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے تاکہ دوسروں کی ذات کو چھترا یا ڈھال بنانے کی بجائے خود سے معاملات کو گہرائی میں جاکر سمجھا جائے اور ایک آزاد سوچ کا حصول یقینی بنایا جائے۔

فقیر یہاں یہ اہم نکتہ ضرور حوالۂ صفحۂ قرطاس کرنا چاہے گا کہ دوسروں کو ڈھال بنا کر مستعار لیے گئے افکار کی بجائے افکار عالم کا بذات خود مطالعہ علم کے حصول کا ایک طویل راستہ ضرور ہے تاہم اس راستے پر چلنے والا خالی برتن کی طرح محض آوازیں نکالتا تماشہ بننے سے محفوظ رہتا ہے۔ شوقیہ لبرلزم اور فیشن زدہ مذہب مخالفت کا راستہ عموماً نرگسیت کے پہاڑ پر واقع سطحیت کی اس دلدل میں پھنسانے کا باعث بنتا ہے جہاں انسان چار پھبتیوں کے علاوہ بات کرنے کے قابل نہیں رہتا اور دوسرے سوال کے استفسار پر دم دبانے میں عافیت جانتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مغرب کی جانب سے شاندار و جاندار فلسفۂ لبرلزم پر ناچیز بھی عموماً متفق رہتا ہے تاہم اس کی قیمت اس فیشن کو اپنا کر چکانے سے گریز کرتا ہے جس کے تحت مذہب ایک “بیکار” اور “بے بنیاد” شے ہے جسے اب ترک کر دینا چاہئے۔ ناچیز سمجھتا ہے کہ جدید فلسفۂ مادر پدر آزادی بھی فرد کو اپنی مرضی کے مطابق مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ضرور دیتا ہے۔ ایسے میں فیشن زدہ مذہب مخالف کی نشانی یہی متشدد سوچ ہے جس کے تحت وہ مذہب کو کچلنے کی خواہش کا برملا اظہار کرتا ہے اور یوں اپنی آزادی کی قیمت دوسروں کی آزادی سلب کرنے سے منسوب کر دیتا ہے۔ دوسری جانب فلسفہ لبرلزم کو روح سے جاننے والا مذہب کے انتخاب کو فرد کی صوابدید پر چھوڑ کر خاموشی اختیار کرتا ہے تاوقتیکہ یہ انتخاب اس کے حقوق پر نقب زنی شروع نہیں کر دیتا۔ ہم ایسے لبرلز (سمجھدار کے لیے اشارہ کافی) کے ساتھ کھڑے ہیں جن کا نظریہ فرد کی اس آزادی کا تحفظ ہے جو کسی دوسرے فرد کی مذہبی عملیت سے مبرا ہے۔

شوقیہ لبرلز اور فیشن زدہ مذہب مخالفین کی خدمت میں یہ عرض بھی کرتے چلیں کہ نظریہ ارتقاء، نیچرل سیلیکشن، ڈارک میٹر، تھیوری آف ریلیٹیویٹی اور ولیم ورڈزورتھ میں زمین آسمان کا فرق ہوا کرتا ہے۔ لہذا جب نیچرل سلیکشن کا حوالہ دیا جائے تو اسے شیکسپئیر کی نظم کی طرح سمجھنا ممکن نہیں ہوتا، اس کے لیے وائرس، بیکٹیریا اور ممالیوں کی تخلیق و ارتقاء کو کافی گہرائی سے پڑھنا اور سمجھنا پڑتا ہے۔

مزیدبرآں، چالیس ہزار سال قبل مسیح کے آسٹریلین ایب اوریجنلز کی جانب سے اپنے مردوں کو جلانا، اڑتیس ہزار سال قبل مسیح کے اوریجینیشین انسانوں کی جانب سے شیر اور انسان کے مرکب کی تصاویر بنانا، ہوموسیپئنز سے پہلے پائے جانے والے نیانڈیرٹلز کی جانب سے اڑتیس ہزار سال قبل مسیح تک گیروی مادے میں لیپ کر اپنے مردوں کو خاص جگہ پر دفنانا، چھبیس ہزار سال قبل مسیح کے انسانوں کا وینس فگورین مجسمات کے ساتھ مردوں کو دفنانا وغیرہ بھی سائینسدانوں اور تاریخ دانوں کے نزدیک مذاہب کے ارتقاء ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ ادیانِ ابراہیمی ہی مذاہب نہیں، اس سے پہلے بھی کئی مذاہب قدیم انسان کے یہاں رائج رہے ہیں۔

آخری عرض ہے کہ علمی نکات کا جواب علمی صورت میں آئے تو بہتر رہتا ہے ورنہ دل جلانا کسے نہیں آتا؟


بخدمت جناب شوقیہ و فیشن زدہ دیسی بدو حضرات (و خواتین)

السلام علیکم!

دہائی ہونے کو ہے کہ ناچیز کے دماغ میں مذہب پرستی کا کیڑا کلبلایا۔ امکان غالب ہے کہ حشرات الارض کی یہ قسم کیلا ریپبلک کے ہر ذی شعور کے ذہن میں عین نوجوانی کے دوران انگڑائی لیا کرتی ہے۔ وجہ غالباً وہ ضیائی دور ہے جس کی داغ بیل قراردادِ مقاصد جیسی بے مقصد قرارداد کے ذریعے کیلا ریپبلک میں بوئی گئی تھی۔ ضیاء مرحوم کے دور میں اس آکاس بیل کو سرکاری سرپرستی میں باقاعدہ دوام بخشا گیا۔ حکیموں سے سنا ہے امر بیل پیٹ کی صفائی میں کارگر ثابت ہوا کرتی ہے۔ یقیناً یہ عوامی پیٹ کا مجموعی گند ہی تھا جسے بحیثیت مسئلہ ماننے کے لیے اس کے کمال نقصانات تک پہنچنا ضروری تھا۔ یہ کمالات مشرف دور میں قوم پر بخوبی آشکار ہوئے۔ نتیجتاً ضیائی تصاویر سجانے والوں کی آل اولاد نے مرحوم کو بجائے تعظیم دینے کے اسے ایک تاریک دور کے طور پر لینا شروع کر دیا۔ اتفاق سے ہمارے ذہن میں مذہبی حشرہ اسی دور میں بیدار ہوا۔

ہر معاملے کی کم سے کم درجے میں بھی دو جہتیں ہوا کرتی ہیں۔ لبرلزم اگر ایک نظریہ ہے تو اس کی روح کو سمجھے بغیر اسے بطور فیشن اپنانا ایک جہت ہے۔ اس پر احقر کئی بار قلم گھس چکا ہے۔ قرطاس رگڑائی کہ یہ رسم اصحاب الیمین کی جانب سے سراہا جانا یقیناً برحق ہے کہ ان کا ہم آواز باعث تعریف ہو جاتا ہے۔ انصاف مگر یہ ہے کہ معاملات کی ہر ممکن جہت پر رائے دی جائے۔ قراردادِ مقاصد کے عہد میں اسلام کی سعودی شکل درآمد کی جارہی تھی عرفِ عام میں جسے وہابیت کہا جاتا ہے۔ نجد میں جہاں ایک جانب اسے بزور بازو نافذ کیا گیا، کیلا ریپبلک میں وہی بحالت وجد بطور فیشن اپنایا گیا الا یہ کہ یہ بوجہ مذہبی جزدان میں لپٹے ہونے عین فیشنِ حلال تھا۔

تو بھیا جب یہ کیڑا بندے میں کلبلایا تو طریقِ سہیل دیوبندی کے صوم صلواۂ پر مبنی اعمال اپنانے کا مشکل راستہ اختیار کرنے کی بجائے سہیل زیدی کاظمی اور بخاری کے افکار پر فتاویٰ کفریہ کے اجراء کی راہ پکڑنا نسبتاً سہل معلوم ہوا۔ باعمل ہونے سے کہیں آسان منہ کا مجاہد ہونا بہرحال ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس ضمن میں بندے کے آگے سوشل میڈیا پر آرکٹ کا ڈیجیٹل میدان جہاد کے لیے دستیاب تھا لہذا جدوجہد کا آغاز یہیں سے ہوا۔ دو چار ماہ فتوے ٹھونک ٹھونک تھکن کا احساس ہوا تو ذہن کے کسی گمنام خانے نے اس تعلیم کی یاد دہانی کروائی جہاں نیوٹن کے تینوں قوانین کو بھی آئینسٹائین کے افکار کی روشنی میں باطل ثابت کیا گیا۔ خیال آیا دوسرے کی سن کر دیکھتے ہیں، ایمان بھلا اس قدر نازک کیونکر ہوا کہ اگلے کے افکار سن کر ہی ارتاد قبول کر پائے گا؟

یہاں سے اس دو سالہ دور کا آغاز ہوا جس میں ایک سال ہم آرکٹ کے “شیعہ ورسز سنی ڈیبیٹس” میں بحیثیت خاموش مبصر خاموشی سے دیسی بدؤوں اور دیسی ایرانیوں کے درمیان ملاکھڑا دیکھتے رہے۔ دوسرا سال اسی ملاکھڑے میں حد ادب قائم رکھنے واسطے قاضی تعینات ہوئے۔ یہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ سب سے بڑا سبق یہ کہ سالیا جہڑی کتب تے ایمان قائم اے انہاں نو اک واری پڑھ وی لے۔ معلوم ہوا کہ ہر دو جانب اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے سفید یا سیاہ علاقے سے ریفرینس، احادیث اور آیات کا انبار رکھے بیٹھی ہے پر سچ ہے کہ کہیں گرے ایریے میں بیٹھا دونوں اطراف کا منہ چڑاتا رہتا ہے۔

“دیسی بدو” کو “دیسی لبرل” کے مصداق ایک ایسی اصطلاح جانیے جن کے نظریات محض فیشن کی حد تک اپنائے جاتے ہیں۔ فرق فقط اتنا کہ ان میں تقدیس کا عنصر پونے سات سو فیصد اضافی ہوا کرتا ہے۔ مذہب کو اس کی روح کے مطابق جان کر خدا کے محبت بھرے وجود کے برعکس رب باری تعالی کے جلال کو غالب دکھایا جاتا ہے جس کا نتیجہ قبر کا عذاب جیسی خوف میں مبتلا کرنے والی کتب کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس معاملے کے بھی دو پہلو ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ محمد ابن عبد الوہاب کی وہابی تحریک سے پہلے بدعات اپنے عروج کو پہنچ چکی تھیں جن کا قلع قمع کرنے کا بیڑا ابن عبد الوہاب نے اٹھایا۔ عین ممکن ہے یہ حقیقت ہو، ہو سکتا ہے یہ افسانہ ہو، سوال البتہ یہ ہے کہ ریاست عبادات کا نفاذ کس حد تک بزور تیغ کر سکتی ہے۔ دیسی بدو اس بحث کو بحث ماننے سے انکاری ہیں۔ مان لیا یہ ان کا حق ہے البتہ یہ حق میری یا کسی اور فرد کی ذات پر تھوپنا میرے نزدیک غلط ہے۔ میں آپ کے نزدیک غلط ہوں یہ ماننا آپ کا استحقاق پر میں آپ پر کچھ تھوپنے کا اختیار اور حق نہیں رکھتا۔

دیسی بدؤوں کا ایک بڑا مسئلہ تہذیب و تمدن کا مذہب سے نکاح بھی ہے۔ عبد اللہ ابن وہاب یا اس سے پچھلے عرب ادوار اور برصغیر یا دیگر خطوں کے تمدن میں کئی تفریقات موجود تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ ایک عرصے تک پتلون کو غیر اسلامی لباس مانا جاتا رہا ہے۔ غیر اسلامی شعائر اور غیر عرب رواج دو الگ موضوعین ہیں۔ پردے کا شٹل کاک ورژن برصغیر میں ناپید تھا لہذا اسے تھوپا جانا خالصتاً دیسی بدو تحریک رہی۔ کوئی دل و جان سے اسے اپنانا چاہے تو بصد شوق کہ فرانس میں برقعے پر پابندی سے بھی بندہ اختلاف رکھتا ہے۔

دیسی بدو صرف اور صرف اگر لکم دینکم ولی دین پر عمل کرتے ہوئی دوسروں کے عمل کا حساب کتاب اوپر والے پر چھوڑ دیں تو شاید دیگر پرامن ممالک کی طرح کیلا ریپبلک میں بھی انفرادی و اجتماعی سطح پر حالات پرسکون ہوجائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں ایک بار پھر عرض ہے کہ علمی نکات کا جواب علمی صورت میں آئے تو بہتر رہتا ہے ورنہ دل جلانا کسے نہیں آتا؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply