معاذ بن محمود کی تحاریر
معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

میں ایک مسئلۂ لاینحل ہوں ۔۔۔ معاذ بن محمود

کشمور میں دل چیر دینے والا واقعہ رونما ہوا۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کشمور میں ایک قیامت برپا ہوئی۔ میں بچوں کا باپ ہوں۔ ایسی خبریں دیکھ کر ان پر سوچنا چھوڑ دیا کرتا ہوں، بات کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے میں ان پر بات کروں گا تو ان واقعات کا مزید عادی ہوتا چلا جاؤں گا۔ لیکن دوسری جانب میں بے حس ہو کر ان کے وجود سے نظر پھیرنے پر مجبور ہوں۔ ذاتی حیثیت میں یہ میری شخصیت میرے کردار کے لیے ایک المیہ ہے۔←  مزید پڑھیے

آٹا گوندھتے ہلتی کیوں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

ہماری خواتین کی پرورش ابھی تک امتیازی بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ نتیجتاً ہماری خواتین کا ایک بڑا حصہ کسی قسم کی زیادتی پر ردعمل دینے کی بجائے اس پر خاموش رہنے پر ترجیح دیا کرتا ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ اپنے حق کے لیے بولنے والی لڑکیوں کے لیے ہم نے بدتمیز، منہ پھٹ، بدلحاظ وغیرہ جیسے ٹیگ ہمہ وقت تیار رکھتے ہوئے ہیں۔ یعنی لڑکی اپنے استحصال پر بولے تو مسئلہ، نہ بولے تو مسئلہ۔ ←  مزید پڑھیے

اور حاجی صاحب مان گئے ۔۔۔ معاذ بن محمود

محبت کے معاملے میں حاجی صاحبان جانے کیوں امریش پوری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کردار بھی بھرپور ادا کرتے ہیں۔ ساری فلم کے دوران کبھی یہاں سے طمانچہ رسید کرتے ہیں تو کبھی وہاں سے لات لیکن پھر بھی شفقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اختتام ہمیشہ “جا سمرن جی لے اپنی زندگی” پر ہی ہوتا ہے۔ بندہ پوچھے، میاں یہی کرنا تھا تو پچھلے ڈھائی عشرے اتنے پاپڑ بیلنے پر کیوں لگایا۔ لیکن شاید حاجی بھی ادراک رکھتے ہیں کہ وہ محبت ہی کیا جس کی قدر نہ کروائی جائے۔ ←  مزید پڑھیے

بکھری یادوں سے بکھرے تبسم تلک ۔۔۔ معاذ بن محمود

اب ہوتا یوں تھا کہ یہاں ہمارے گھر کی گھنٹی بجی وہاں گھر کا کوئی فرد کھڑکی کی جانب بھاگا کہ دیکھا جائے آیا کون ہے۔ کھڑکی پہنچتے ہی پہلی نظر کھڑکی کے سامنے اکو خالہ کے گھر میں جھانکتی اکبری بیگم پر پڑتی اور قبل اس کے کہ ہم نیچے دیکھ کر سرپرائز کا مزا لے پاتے اکبری بیگم گویا ہوتیں “وہ تمہاری خالہ کا لڑکا آیا ہے”۔←  مزید پڑھیے

کتابی باتیں۔۔۔ معاذ بن محمود

جمہوریت عوامی نمائیندگی کا نام ہے، کم از کم کتابوں کی حد تک۔ جن کتابوں نے جمہوریت کی یہ تعریف کی ہے وہی کتابیں ایک جمہوری ریاست کی تعریف بھی کرتی ہیں۔ یہی کتابیں اس ریاست کو ریاستی طاقت جیسی قوت کا امین بناتی ہے تاکہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ یہی طاقت انصاف کی بنیاد پر مستعمل رہتی ہے۔ انصاف کی بنیاد عمل ہوا کرتی کے ناکہ پہچان۔ لیکن یہ سب کتابوں کی حد تک ہے۔ ←  مزید پڑھیے

آٹھ فٹ کا گھوڑا اور گجرات کا سفر (حصہ سوئم) ۔۔ معاذ بن محمود

اگلے ساڑھے تین گھنٹے مولانا طارق جمیل کے سیاسی کارناموں اور ایک بار پھر مدارس میں جنسی استحصال پر بات چلتی رہی۔ اتنے میں افضل بھائی نے اعلان کیا کہ انہیں درد ہو رہا ہے۔ چند لمحے ہم مدارس کے واقعات کا افضل بھائی کے درد سے تعلق جوڑتے رہے جو یقیناً فطری فعل تھا تاہم افضل بھائی شاید معاملہ بھانپ گئے اور فورا بولے کہ بھیا سر میں درد ہو رہا ہے۔ بھٹی صاحب کی موجودگی میں کسی اور درد سر کا تصور ہمارے لیے بھی درد سر ہی کے جیسا تھا بہرحال مرتے کیا نہ کرتے، برداشت کرنا پڑا۔ ←  مزید پڑھیے

آٹھ فٹ کا گھوڑا اور گجرات کا سفر (حصہ دوم) ۔۔۔ معاذ بن محمود

دن کے کسی پہر میری آنکھ کچھ اس حالت میں کھلی کہ سانس بند تھا۔ پہلا شک افضل بھائی کی طرف گیا۔ ساتھ نظر ڈالی تو افضلبھائی الٹے پڑے سو رہے تھے۔ یوں سانس اصولا ان کا بند ہونا بنتا تھا تاہم یہاں حالات الٹے تھے۔ کسی طرح میں کھڑا ہوا۔سامنے بھٹی صاحب لاش بنے سو رہے تھے۔ میں نے خود کو گرنے سے روکنے کے لیے بھٹی صاحب کا ہاتھ بے پناہ غیر رومانویطریقے سے پکڑا۔ بھٹی صاحب سوتے سے اٹھ گئے۔ اب وہ مجھے بدروح سمجھ رہے تھے۔←  مزید پڑھیے

کرونا اور پاکستانی تعلیمی ادارے ۔۔۔ معاذ بن محمود

پاکستان میں کرونا اس قدر ہانیکارک ثابت نہیں ہوا جس قدر اس کے نام پر ہونے والی لوٹ مار۔ اس وقت تعلیمی ادارے کروناکے نام پر پیسہ بٹورنے کی مہم پر ہیں۔ چونکہ پوچھنے والا کوئی ہے نہیں لہذا میں اور آپ نقار خانے میں طوطی کا کردار ہی ادا کر سکتےہیں۔←  مزید پڑھیے

آٹھ فٹ کا گھوڑا اور گجرات کا سفر (حصہ اوّل) ۔۔ معاذ بن محمود

ایک گھنٹے تک خان صاحب نہ آئے تو ماتھے پر شکنیں نمودار ہونے لگیں۔ دوکان والے سے پتہ کیا۔ اس نے آگے فون کیا تو معلوم ہوا گاڑی پچھلی گلی میں بند کھڑی ہے اور مکینک کو ٹھیک کر رہی ہے۔ دوسری جانب مکینک کو گمان تھا کہ وہ گاڑی ٹھیک کر رہا ہے۔ مزید آدھے گھنٹے تک معاملہ حل نہ ہوا تو مالک نے چیف انجینئر کو بھجوایا۔ مزید نصف گھنٹا گزرا تب جا کر دونوں گاڑی لے کر یا گاڑی دونوں کو لے کر واپس پہنچی۔ ہک ہا۔۔۔ افضل صاحب اور ان کا آٹھ فٹ کا گھوڑا۔۔۔←  مزید پڑھیے

بحوالہ پوٹینشل ریپسٹ ۔۔۔ معاذ بن محمود

غالباً ضیاء صاحب کے زمانے میں کسی رئیس الجامعات نے ریسرچ پیپر لکھا جس کا عنوان شاید “جنات کے ذریعے بجلی بنانے کےطریقے” یا لچھ ملتا جلتا تھا۔ سنہ ۲۰۰۲ میں سٹاک ہومز یونیورسٹی کے تین طلباء کا ریسرچ پیپر “مرغیاں بھی حسین لوگ پسند کرتیہیں” شائع ہوا۔ کنگ کالج لندن شعبہ فلسفہ کی طالبہ راشل پیٹرسن کی ریسرچ سٹڈی کا عنوان “یونی کارنز کے امکانات” رہا۔←  مزید پڑھیے

خفیہ ہتھیار ۔۔۔ معاذ بن محمود

میٹنگ کے اختتام پر ایک انتہائی خفیہ ٹیکنالوجی کی ڈیولپمنٹ پر حکومت سے مبرا طبقوں اور خفیہ سائینسدانوں کی ٹیم کا اتفاق ہوا۔ سائینسدانوں نے البتہ اتفاق کے باوجود چند خدشات کا اظہار کیا جن کی تلافی کے لیے ایک ایسی شخصیت کی تلاش تھی جسے سائینس اور ٹیکنالوجی اندر باہر سے ازبر ہو۔←  مزید پڑھیے

کیا لکھیں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

بنام بلوچ برادران۔۔۔ جو کھولیں لب تو اٹھتے ہیں صدائیں دیں تو دبتے ہیں زباں ہے بند، تڑپتے ہیں سہمتے ہیں، سسکتے ہیں، بلکتے ہیں الم کی داستاں بھی کیا لکھیں جو لکھ ڈالیں تو گڑتے ہیں پھر ان کی←  مزید پڑھیے

قاتل انسان، انسان مقتول ۔۔۔ معاذ بن محمود

ریاست کے بھونڈے مذاق پر مفصل رونا پھر کبھی کے لیے رکھتے ہیں۔ فرات کے کنارے کتے کی موت والی مثالیں دینے والے حکمران انسانوں کی کتوں والی موت پر خاموش رہتے ہیں۔ ابھی کے لیے اسی فقرے کو مختصر گریہ سمجھ لیجیے۔ کیا فرق پڑتا ہے جو ایک فرد مارا گیا۔ اتنے سارے کروڑ افراد ہیں۔ کوئی نیا پیدا ہوجائے گا یوں سرعام گولیاں کھانے واسطے۔ میں اور آپ اگر قتل ہونے سے بچ بھی گئے تو یوں ہی اپنے دل کے پھپھولے تو باہر نکالتے ہی رہیں گے۔←  مزید پڑھیے

ممانی دردانہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

ممانی دردانہ علم کا منبع ہیں۔ ایک دن چار گھنٹے اس بحث میں گزار چکی ہیں کہ فلاں دینی شخصیت سکالر نہیں عالم ہیں۔ ان کا علم جملہ کتب سے بالا ہے کہ آکسفرڈ ڈکشنری میں سکالر کے معنی عالم دیکھ کر بھی وہ اپنے مؤقف پر قائم رہ چکی ہیں۔ استقامت کے یہ درجات اللہ پاک کسی کسی کو بخشتا ہے۔←  مزید پڑھیے

سفرنامچہ: کراچی تا ملتان ۔۔۔ معاذ بن محمود

“افضل بھائی، نہیں بنا کام۔ اب کیا کریں؟ موٹروے پولیس کو کال کر لیں؟”۔ بولے “سر آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ ایسا کریں بیٹری کے ٹرمینلز پر پانی ڈالیں”۔ پوچھا “افضل بھائی پانی دونوں ٹرمینلز پر ڈالا اور ٹرمینل مل گئے تو کوئی شارٹ وغیرہ نہ ہوجائے”۔ جواب آیا “آپ نے گھبرانا نہیں ہے”۔ اس وقت ہمیں سمجھ آئی کہ خان صاحب فلسفۂ گھبرانا نہیں ہے سے ریاست کس طرح چلا رہے ہوں گے۔ خیر ہم نے یہ کام بھی کر دیکھا۔ گاڑی پھر سٹارٹ ہونے سے انکاری۔ اب کی بار افضل بھائی کو کال کرنے سے ہم گھبرا رہے تھے۔ ←  مزید پڑھیے

سفرنامچہ: ٹنڈو الہہ یار کا تیسرا دورہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

یہاں پر کپڑے تبدیل کر کے ہم گھر کی طرف نکلے۔ میاں صاحب کے دل میں نجانے کون سے خواہش مچلی کہ اچانک پوچھا “میرے پپیتے دیکھنے ہیں؟”۔ یہ سوال تھوڑا عجیب کسی حد تک فحش اور بہت حد تک غیر متوقع تھا۔ ہم سب نے میاں صاحب کو گھور کر دیکھا تو انہیں شاید اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ کہنے لگے “مطلب میرے پپیتوں کی کاشت دیکھنی ہے؟”۔ اگرچہ میاں صاحب کے پپیتوں کی کاشت واضح طور پر ہم جانتے تھے، پھر بھی مزید اعتراض مناسب نہ سمجھا۔ اثبات میں سر ہلایا اور میاں صاحب کے پپیتوں کی طرف نکل پڑے۔←  مزید پڑھیے

ریاست اور فرد کے حقوق ۔۔۔ معاذ بن محمود

زندہ رہنا، آزاد رہنا اور خوشیوں کا حصول ایک انسان کی بنیادی ضرورت اور متفقہ بنیادی ترین حقوق ہیں۔ ریاست کا بنیادی ترین مقصد ان حقوق پر منڈلاتے کسی بھی خطرے سے تحفظ کی یقین دہانی ہے۔ آپ پونے چار ارب صفحات پر مبنی دستاویز لکھ ڈالیں، یہ تین حقوق کا تحفظ نہیں تو ریاست کچھ بھی نہیں۔←  مزید پڑھیے

معرفت، ادراک اور پیر کامل ( حصہ سوئم) ۔۔۔ معاذ بن محمود

تشکیک کسی بھی مرید کی بے راہ و روی کے لیے زہر قاتل ہے۔ پس اے مریدین، آپ پیرِ کامل کے فرامین کی روح تک پہنچیں کہ اس کے بغیر ولی اللہ وقت کی معرفت کا اعتراف و ادراک ناممکن ہے۔ یہ دنیا ایک گولا ہے جو پیرِ کامل کی ہتھیلی پر گھوم رہا ہے۔ وہ جس نگاہ سے اسے دیکھ رہا ہے، مریدین کے زیر مشاہدہ زمان و مکان اس پر حجت نہیں رہتے۔ “جرمنی اور جاپان پڑوسی ہیں”۔ ←  مزید پڑھیے

وباء کے دن اور۔۔ نماز عید ۔۔۔ معاذ بن محمود

اب ہم کھڑے ہوئے۔ ایک دوسرے سے عید ملی تو اجنبی گلے ملنے آنے لگے جنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے کرونا کا بڑا ورژن گلے ملنے آرہا ہو۔ اب کے دماغ میں خبث بھرا آئیڈیا آیا۔ جو اجنبی قریب آتا میں کھانسنا شروع ہوجاتا اور اگلا بندہ فوراً دور۔ الحمد للّٰہ۔ ←  مزید پڑھیے

آئی کو کون ٹال سکتا ہے؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

اس کے بعد سی ای او پی آئی اے کے حق میں ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور ان کی گدی کی جانب اٹھنے والے تمام ہاتھ ٹنڈے کر دیے جاتے ہیں۔ نہ ہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے پوچھا جاتا ہے کہ گستاخ بھلا تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس قدر جلیل القدر شخصیت پر ایسی گھٹیا دشنام طرازی کی، نہ سندھ ہائی کورٹ سے استفسار ہوتا ہے کہ جنگی علوم پر مہارت رکھنے والے ہرے پوش کے لیے ایسا طرز تخاطب۔←  مزید پڑھیے