تم دینا ساتھ میرا ۔۔۔ معاذ بن محمود

آج ان کی آخری ملاقات تھی۔

اسے سنو۔ یہ لنکن پارک کا مائیک شنوڈا ہے۔ فورٹ مائنر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گانے میں ایک اداسی بھی ہے اور ایکعجیب سی اداسی بھری راحت بھی۔

افشین نے گانا چلایا اور ایم پی تھری کا ایک سپیکر اس کے کان میں پھنسا دیا۔

Where’d you go? I miss you so. It’s like it’s been forever since you’ve been gone. Please come back home.

عاصم سوچ میں چلا گیا۔

کیا ہوا؟افشین کا سوال اسے واپس لے آیا۔

اس گانے میں تو نرا دکھ ہے افشین۔ کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ۔ کسی کے پاس نہ رہنے کا احساس۔ احساس بھی احساسِمحرومی۔ اس میں فقط اداسی ہے۔ راحت کہاں؟

افشین عاصم کی بات سن کر مسکرانے لگی۔ عاصم کو اس کی مسکراہٹ کچھ عجب محسوس ہوئی۔ ایک اداسی بھری مسکراہٹ۔

مگر مسکراہٹ تو راحت کی نشانی ہوتی ہے، پھر یہ مسکراہٹ؟

عاصم ایک بار پھر سوچ میں پڑ گیا۔ ایک بار پھر افشین اسے اپنی دنیا میں واپس لے آئی۔

تم اس میں صرف دکھ پاتے ہو۔ مجھے اس میں سکون سنائی دیتا ہے۔ میں ان الفاظ میں آس سن سکتی ہوں۔ کسی کی واپسی کیآس۔ کسی کے قرب کی چاہ۔ کسی کی محبت کا احساس۔ کیا محبت راحت نہیں؟ پھر کیا ہوا جو محبت کسی بھی دو انسانوں کےدرمیان ہو۔ بہن بھائی کے درمیان، ماں بیٹے کے درمیان، باپ بیٹی کے درمیان یا پھر دو اجنبیوں کے درمیان؟

عاصم آخری سوال پر چونک اٹھا۔ اس کے پاس چونکنے کی وجہ بھی تھی۔ اسی پہلی بار احساس ہوا کہ افشین کے اور اس کے رشتےکا کوئی نام نہیں۔

کیا ہمارا رشتہ اجنبی ہے؟ کیا یہ محبت ہے؟ محبت؟

ایک بار پھر عاصم سوچ کی بھول بھلیوں میں حقیقت کا راستہ کھو بیٹھا۔

ان دونوں کی جان پہچان فیس بک کے ایک گروپ کے توسط سے ہوئی جہاں موضوعِ سخن موسیقی رہا کرتا۔ عاصم ٹرانس موسیقیمیں کھو جانے والا شخص تھا جس کی دنیا تخیلاتی پردے پر کسی بھی لمحے کسی بھی قسم کے بلند طرز تخاطب سے غائب ہونے کو تیاررہتی۔ دوسری جانب افشین زندگی کے مشکل ترین لمحات میں بھی خوشی کی وجہ ڈھونڈنے والی روح تھی۔ زندگی سے بھرپور، رنگوںسے محبت کرنے والی لڑکی۔ ان دونوں کے درمیان فیس بک کی دنیا میں پیدا ہونے والا نامعلوم رشتہ واٹس ایپ سے ہوتا ہوا جبپہلی ملاقات تک پہنچا تب افشین کے نکاح کو ایک سال ہوچکا تھا۔ افشین کے والد نجی امریکی فرم میں اعلی درجے کے ملازم تھے۔وہ ہر ماہ پندرہ دن ملک سے باہر گزارا کرتے۔

کیا سوچ رہے ہو؟افشین نے ایک بر پھر عاصم کو سوچ کے زنداں سے آزاد کروایا۔

سوچ رہا ہوں مجھے تم سے کسی قسم کی لالچ نہیں۔ دیکھا جائے تو ہم دونوں بس چند کٹھن گھڑیاں ایک دوسرے کے گوش گزارکرتے ہیں، من کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں ایک دوسرے کو موسیقی سنا کر چند لمحے ہوا میں اڑ لیتے ہیں۔ پر ہمارے درمیان رشتہ کیاہے؟

افشین کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہی، بیک وقت اداسی اور اطمینان کا عجب امتزاج رکھنے والیمسکراہٹ۔

افشین کا تعلق قبائلی علاقے سے تھا۔ ابا پڑھ لکھ تو گئے تھے تاہم گاؤں میں موجود بزرگوں کے اثر سے چھٹکارا حاصل نہ کر پائےتھے۔ اسی ذہنیت کے باعث افشین کا نکاح اس کے چچا زاد تیمور سے کر دیا گیا تھا۔ تیمور، افشین سے دس سال بڑا تھا اور سعودیہمیں انجینئر تھا۔ وہ نہایت ہی کٹر قسم کا مسلمان تھا جن کی خصوصیات میں ٹخنوں سے اوپر پائنچے اور موسیقی کو حرام سمجھنا ہواکرتا۔ افشین یہ سب جانتی تھی، پھر بھی وہ باپ کی خوشی کے آگے ایک لفظ بولنے کا نہیں سوچ سکتی تھی۔

اب کی بار افشین خلاء میں نظریں گما بیٹھی۔ عاصم نے اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلاتے ہوئے سوال کیا۔

کیا ہوا؟ میرے اور اپنے رشتے کا نام ڈھونڈ رہی ہو؟

اس نے دیکھا کہ اب افشین کی آنکھیں ٹپ ٹپ بہنے لگی ہیں۔ ساتھ وہی مسکراہٹ اب بھی اس کی الجھن بڑھانے کا سبب بنیہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال پوچھتا، افشین خود ہی بول پڑی۔

عاصم۔۔۔ محبت کسی مخصوص رشتے کی متقاضی نہیں ہوتی۔ محبت کسی بھی رشتے سے مبرا ہوتی ہے۔ تم اور میں دو اجنبی ہیں۔میں منکوحہ ہوں، کسی کی امانت ہوں۔ پھر بھی مجھے تم سے ملنا اچھا لگتا ہے۔ جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ مجھے تمہارے نام، چہرے یاجسم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میرا رابطہ تمہارے روح سے ہے۔ رب باری تعالی اگر مجھے ایک خواہش پوری کرنے کی طاقت دیتا تومیں تمہیں کسی بھی روپ میں اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتی، پھر چاہے وہ باپ ہوتا، بیٹا یا داماد۔ تم اجنبی ہو مگر محبت تو کسی سے بھیہو سکتی ہے۔ مجھے تمہاری روح سے محبت ہے۔ ہو سکے تو بس ایسی ہی پاک محبت میں۔۔۔ تم دینا ساتھ میرا۔

اس کے بعد وہ اس پرسکون گوشے میں کچھ دیر بیٹھے اور پھر بچھڑ گئے۔ البتہ عاصم فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ افشین کہ یہ خواہش پوری کرکے رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افشین۔۔۔ ادھر آؤ۔۔ یہ دیکھو تمہارے لیے کیا لایا ہوں؟ تمہاری پسند کا چاکلیٹ کیک۔

عاصم نے گھر داخل ہوتے ہوئے شہر کی بہترین بیکری کا چاکلیٹ کیک ڈائیننگ ٹیبل پر رکھا اور خاموشی سے ایک جانب چھپ کرکھڑا ہوگیا۔

افشین سرخ کپڑے زیب تن کیے دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔ وہ عاصم کوبھی ڈھونڈ رہی تھی اور کیک کی جانب بھی متوجہ تھی۔ افشین کے ایک ہاتھ پر پچھلے روز پیر پھسل کر گرنے کے باعث پلستر چڑھاہوا تھا۔ وہ پھر بھی خوش تھی۔ وہی، ہر حال میں خوش رہنے والی عادت۔۔

یہ بھی ناں۔۔۔ کسی بھی حالت میں خوشیاں اور رنگ ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ عاصم سوچنے لگا۔

چشم زدن میں عاصم کی آنکھوں کے آگے دس سال پرانی یادیں کسی فلم کی طرح چلنے لگیں۔

رب باری تعالی اگر مجھے ایک خواہش پوری کرنے کی طاقت دیتا تو میں تمہیں کسی بھی روپ میں اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتی، پھرچاہے وہ باپ ہوتا، بیٹا یا داماد۔

ہاں، وہ افشین کی دنیا میں نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن وہ اپنی دنیا کا مالک تو تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کا نام افشین رکھ کر اپنی دنیا میں اسکی جگہ بنا ڈالی۔ اسے افشین کی روح سے محبت تھی۔ پھر وہ کسی بھی رشتے میں ہو۔ شاید خدا بھی محبت کو رشتوں سے مشروطکرنے کا حامی نہیں۔ شاید تبھی اس نے اس افشین کو بھی ویسا ہی ہنستا کھیلتا ہر حال میں رنگ بکھیرتا تخلیق کیا۔

عاصم نے اچانک سامنے آتے ہوئے افشین کو گود میں لیا اور اپنے ہاتھ سے افشین کو کیک کا ٹکڑا کھلاتے ہوئے خود کلامی کرنے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسی ہی۔۔۔ اس پاک محبت میں۔۔۔ میں دوں گا ساتھ تیرا۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply