لب کشائی ۔۔۔ معاذ بن محمود

عرصہ ہوا فیس بک پر کسی سے باقاعدہ گالیاں کھائے۔ یکسانیت بھلا کس قدر برداشت کرے کوئی؟ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی سہی، آج ایک بار پھر حکومتِ وقت (ظاہری و باطنی) پر لب کشائی کی جسارت حاضر ہے۔

میں لب کشائی کر رہا ہوں، آپ میری خرافات پڑھنے کے بعد اپنے اپنے جذبات کے مطابق متعلقہ اعضاء کشا کر سکتے ہیں۔ چونکہ ہم سب پاکستانی بھائی بہن ہیں لہذا کوشش کریں گے یہ کشائی کشادگی تک رہے، کشیدگی تک نہ جائے۔ بوجہ مکمل مایوسی، کشیدگی ویسے بھی آج کل ذرا کمیاب ہے۔ افسرانِ بالا نے بالا بالا جو حاکم کشید کیے ہیں وہ اب ہماری کشادگیِ سکون کے کشت میں پوری طرح مصروف ہیں۔ شک ہے کہ کشت کا عالم یہی رہا تو مشت مشت پتھر ہوں گے، سڑک سڑک انتفاضہ۔ “فیض” کا یہ فیض بھی کم ہے۔ کم پر قناعت کیجیے، تھوڑے کو خوب جانیے۔

اللہ بخشے کبھی اپنے خان صاحب پشتونوں کے حقوق کے لیے فوج کی سرپرستی میں وزیرستان مارچ کیا کرتے تھے۔ کیا ہی خوب دن تھے وہ بھی۔ اب مارچ میں اسی وزیرستان کے مستقل وزیروں کو اپنے موسمی وزیروں کے ہاتھوں ذلیل کرتے دکھائی دینے کو ہیں۔ منظور کبھی پشتون پشتین ہوتا تھا۔ خان صاحب کے بڑوں نے اسے افغان بنا کر ہی چھوڑنا ہے۔ جانے اس کے ساتھ کتنوں کو غداری کا لیبل چسپاں کرنا پڑے۔ اوپر سے پشتین کو افغان بھی ٹرمپ کی مہربانی سے ایسے عظیم ملے، کھلے عام اس کی طرفداری کرتے ہیں۔ بھلا اپنوں کا بھی کوئی ساتھ دیتا ہے؟ اکبر ایس بابر، حامد خان، وجیہہ الدین صدیقی والا حشر کیا جاتا ہے اپنوں کے ساتھ پگلے۔

سوشل میڈیا کی وساطت سے معدودے ہمسائے ملک شہریوں سے سلام دعا ہے۔ ان میں سے چند مسلمان بھی ہیں۔ ہم آپس میں حافی کی مہان شاعری سے لے کر ٹرمپ کی حرام شاطری تک سب زیر بحث لاتے ہیں۔ نہیں لاتے تو ایک دوسرے کے داخلی ریاستی معاملات۔ وجہ؟ ہمارے بڑوں کو پتہ چل گیا تو ہم را کے ایجنٹ، ان کے چھوٹوں کو معلوم ہوا تو وہ پاکستانی ایجنٹ۔ اب یا تو کمبخت ملت افغانیہ کو اتنی بھی عقل نہیں کہ یہ بات سمجھ سکیں یا پھر مارخور پرستوں کو سمجھ نہیں کہ انہیں بھینس کا نہیں سنڈے کا دودھ پلایا جا رہا ہے۔ دونوں میں سے ایک تو احمق ہے۔ مجھے ویگو ڈالے سے خوف آتا ہے لہذا باآواز بلند نعرہ لگاتا ہوں منظور پشتین نامی حق کا سوال کرنے والا شخص غدار ہے۔ آپ چاہیں تو پشتین کو افغانی شہری بنا دیں۔ وہ کون سا سینیٹر حمد اللہ ہے جو بچ جائے گا۔

میرا وطن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ بات آپ کو ماننی پڑے گی۔ تشکیک کا مرض پالنے والے سن لیں، اس بات پر مجھ جیسے محب وطن کا بھی ایمان ہے۔ ہاں کچھ مسائل ضرور ہیں۔ کچھ چیلنج ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر جس ترقی کی راہ پر ملک گامزن ہے پچھلے چند برس میں اسے یوسفی صاحب کی متعارف کردہ لاہور کی گلیوں کی طرح تنگ کر دیا گیا ہے۔ اس شر میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ آئیندہ عام انتخابات سے ٹھیک ایک سال پہلے ترقی کی یہ راہیں سال بھر کو کشادہ کر دی جائیں گی۔ انہی دنوں عین ممکن ہے بلکہ دعا ہے بالا خرچ زیریں نشیں پشاور میٹرو بھی بالغ ہوجائے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے۔ جو سکون میسر ہے فی الوقت اسی پر قناعت کیجیے اور ایمان رکھیے کہ وزیراعظم ہاؤس کا مسکن مسکین آپ کے سکون کی خاطر رات دوگنی دن چھنکنی کوششیں کر رہا ہے۔ آپ کا سکون اس باوصف باکردار شخص کا نصب العین ہے۔ اور  اصلی سکون آپ جانتے ہیں صرف قبر میں ہے۔

قبر سے پہلے پہلے سکون کے لیے بھی وزیرِ اعظم پاکستان نے دو انقلابی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ پہلا اعلان ملک میں تصوف کی تعلیم عام کرنے کا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک انقلابی قدم ہے جو زندگی میں سکون حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ تاہم اس خبر کا انفرادی حیثیت میں اتنا اثر نہیں جتنا ایک اور خبر کے ساتھ ملا کر تاثیر ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ خان صاحب کی خواہش کے عین مطابق تیراہ میں چرس، ہیروئن اور افیم سے “دوائیں” بنانے والے فیکٹری پر کام شروع ہوچکا ہے۔

آہ سکون!

اور خان مخالف طبقہ خان کے وژن پر شک کرتا ہے؟ بدبختو اگر تمہیں تیراہ کی چرس کا ایک کش مل جائے تو تم جانو کہ سکون کسے کہتے ہیں۔ سوچو کمبختو سوچو۔۔۔ تیراہ کی چرس کے اثر میں کسی مزار کا احاطہ کو اور دھمال ہو۔ پھر بندہ بھلا کیوں نہ نعرے لگائے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“مرشد پاک کہندے نے جہڑا دھمال نئی پایا او بہت ای بڑا۔۔۔ الخ”

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply