میرا جسم میری مرضی ۔۔۔ معاذ بن محمود

“میرا جسم میری مرضیکی کئی تشریحات موجود ہیں۔ اصولاً ہمیں خوش گمانی رکھنی چاہئے اور اسی کے مطابق اس کی تشریح سمجھنیچاہئے لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ روائتی قدامت پسندوں کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔ کیا کریں کہ معاشرہ روائتی قدامت پسندوںکی اکثریت پر ہی مشتمل ہے۔

میرا جسم میری مرضیایک نعرہ ہے۔ ہو سکتا ہے آپ اس کی تشریحمیرے جسم کو میری مرضی کے بغیر نہیں چھوا جاسکتالےرہے ہوں جبکہ مقابل فرد اسےمیری مرضی میں جسے چاہوں چھونے کا حق دوںسمجھ رہا ہو۔ جس جانب ہم چل رہے ہیں وہ دنبھی آ ہی جانا ہے بلکہ شاید آ ہی چکا ہے۔ آج کل کتنا مشکل رہ گیا ہے اپنے جسم کو اپنی مرضی کے فرد کے آگے دان کر دینا؟ بسوہی معاشرتی نارمز ہیں جن کے تحت لوگ کھل کر اسے مان نہیں سکتے ورنہ جو ایسا کرنا چاہتے ہیں آج بھی کر گزرتے ہیں۔ پھرمعاشرے سے اس قدر ضد کیوں؟ اور اگر یہ ضد نہیں ہے تو اس قدر کھلا نعرہ ہی کیوں؟

پاکستانی معاشرے کے کچھ نارمز ہیں۔ غلط یا صحیح، اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن بات کیے بغیر ماحول سازگار کیے بغیر جب ہم نارمزکے مکمل خلاف بیانیے کی ترویج کریں گے تو معاشرہ ردعمل دے گا۔ یہ جو عورت مارچ پر منفی ردعمل مل رہا ہے اس کی بنیادی وجہدراصل یہی بات چیت والا مرحلہ نظرانداز کر کے براہ راست مخالف بیانیے کی ترویج کی وجہ سے پیش آرہا ہے۔ یہ عورت مارچ میںبولڈ بینر بلند کرنے والوں کا مسئلہ ہے کہ وہ یہ بات سمجھنا یا شاید سوچنا ہی گوارا نہیں کرتے۔

میں نے ۱۹۸۶ سے ۲۰۰۷ تک کا دور پشاور میں گزارا ہے۔ تب کے پشاور میں اور آج کے پشاور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تبڈیٹکا تصور ناپید تھا۔ اب ایسا نہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ تب (بلکہ شاید اب بھی؟) پشاور میں عورت مارچ انہی سلوگنز کے ساتھبرپا کیا جاتا؟ ردعمل شدید آنا طے تھا۔ ہم اسے غلط کہہ سکتے ہیں مگر ردعمل وجود رکھتا ہے۔ ارتقاء کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ایسی ہر کوشش کا نتیجہ معاشرے میں ضد کی صورت میں نکلے گا جو ایک کلوزڈ سسٹم میں منفی فیڈ بیک لوپ بن کر اسی کیمپین کی روحکا نقصان کرے گا۔

عین ممکن ہے میں غلط ہوں لیکن میرا مانناہے کہ عورت مارچ یا کم سے کم اس میں غیر ضروری بولڈ پلے کارڈز کے بغیر بھی حقوقنسواں کا ارتقاء مثبت جانب ہی جاری رہتا۔ جذباتیت سے سوچیں تو ایک اور بات ورنہ حقیقت شاید یہی ہے کہ اس غیر ضروریرفتار نے آپ کا مقدمہ خراب کیا ہے۔

لیکن یہ قضیہ ایک فریق سے نتھی نہیں۔ آخر کو روایتی قدامت پسند بھی اپنے مسائل کا شکار ہیں۔

گناہ کی اقسام ہیں۔ کئی گناہ ایسے جن کے کیے جانے سے براہ راست کسی فرد کو گزند پہنچتا ہے، جیسے قتل، چوری، زنا بالجبر وغیرہ۔دوسرے گناہ ایسے جن سے کسی فرد کو نقصان نہیں پہنچتا مثلاً اسلامی فریم ورک کے مطابق نماز ترک کرنا، سور کا گوشت کھانا یا پھرزنا بالرضا۔

مذہب کی ڈومین میں رہتے ہوئے بھی بات کی جائے تو میں ذاتی حیثیت میں ہمیشہ اس مؤقف کا حامی ہوں کہ خدا نے گناہ کرنے یا نہکرنے کی صوابدید انسان پر رکھی ہے۔ پھر ہر ایسے گناہ پر جس کا براہ راست کسی انسان پر اثر نہیں وہ اسی کی صوابدید پر چھوڑ دیناچاہیے۔ خدا چاہتا تو انسان کو بھی فرشتے کی طرح گناہ نہ کرنے پر مجبور رکھ دیتا۔ آپکن فیکونکو مانتے ہیں۔ پھر مان لیجیے کہ خداکے لیے کوئی مشکل نہ تھا کہ وہ ریفلیکس ایکشن کی طرح، سانس لینے کی پابندی کی طرح، دل دھڑکنے پر اختیار نہ ہونی کی طرح گناہسے دوری بھی آپ کے ڈی این اے میں رکھ دیتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے تو انبیاء کا قتل کرنے والوں کو بھیچھوٹ دی، پھر آپ کیونکر تھانیدار بننے کی اہلیت رکھتے ہیں؟

جس نے اپنا مذہبی تشخص بحال رکھنا ہے اس نے یورپ اور امریکہ میں رہ کر بھی ایسا کر گزرنا ہے۔ پھر آپ کو اپنی بہن بیٹیوں پربھروسہ کیوں نہیں؟ کیا آپ کو اپنی تربیت پر شک ہے؟ ایک زمانے میں کیبل ٹی وی کے خلاف مجاہدین ایسی ہی کیمپینر چلاتےتھے۔ کیا بنا؟ روک پائے آپ؟ نہیں روک سکتے۔ یہ گلوبلازئشین کا دور ہے۔ آپ نے خود کو اپنے اہل و عیال کو انہی میدانوں میںتیار کرنا ہے۔ روایتی پابندیاں نہ مزید عملی رہ گئی ہیں نہ ممکن۔ کبھی پورن پر چھاپے پڑتے تھے، آج واٹس ایپ پر براڈ کاسٹ ہوتےہیں۔ روک پائے آپ؟ اب تو آپ پہلے جیسے مضبوط بھی نہیں رہے۔

کہنے کو اور بہت کچھ ہے لیکن سچ پوچھیے تو مزید کی ہمت نہیں۔ خواہش مثبت مکالمہ رائج کرنے ہی کی ہے، امید البتہ کم ہے۔ استمنا بہرحال یہی ہے کہ خدا کرے اس بار عورت مارچ پر جو مطالبات پلے کارڈز اور بینرز کی شکل میں سامنے لائے جائیں ان کامقصد دوسری جانب کو ضد پر اکسانے کی بجائے انہیں اپنے مسائل سمجھانا ہو۔ خواہش یہ بھی ہے کہ ہمارا رائٹ اور سوڈو رائٹونگ ردعمل دینے کی بجائے ان مطالبات کو سنجیدگی سے سمجھے اور دوسروں کی زندگی کا ٹھیکیدار بننا چھوڑ دے۔ لیکن خواہشات کاکیا، بقول شاعر۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہزار خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ۔۔۔۔ الخ

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply