قصہ حجر اسود تک رسائی کا۔۔۔ معاذ بن محمود

امت مسلمہ نامی تصور کی عملی صورت دیکھنی ہو تو عمرے، حج یا طواف کے دوران حجر اسود تک رسائی پر غور کیجیے۔ یقیناً اس میںعقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ بلکہ کیا ہی خوب نشانیاں ہیں۔ تصور کا پردہ پھاڑنے کو تیار رہیے۔ کوشش ہے کہ منظر کشی صدفیصد درست ہوسکے۔

کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر (جو بذات خود ایک مضمون کی متقاضی ہے) جس قدر بھاری اور پُرجلال تھی، کعبہ کی دیواروں اور نزدیکترین مقامات پر اسی قدر بدتہذیبی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مقامِ ابراہیمی سے اندر کعبہ کی طرف ایک الگ ہی عوام پائی جاتی ہے دھکمپیل اور جہاں جگہ ملے وہاں ایلفی لگا کر بیٹھ جانا جس کے بڑے حصے کا خاصہ ہے۔ ہماری حرکتوں کو دیکھتے ہوئے مقام ابراہیمی پرایک سرکاری مولوی صاحب متعین ہیں جن کی ڈیوٹی عالمِ حجاج کو شرک و بدعات سے دور رکھنا ہے۔ عالم اسلام کے کلاس مانیٹر کانمائیندہ شرطہ کعبے سے لٹکتی رسی میں بغل گھسائے نیچے ایک دوسرے کو دھکا دیتے عالم خواران الاسلام کی جانب بیزاری سے دیکھ رہاہے۔ یہ ایک چوبیس پچیس سالہ سعودی جوان ہے جس کی بیزاری اورسانوں کیکا نتیجہ نیچے جنگِ حجر اسود کو بوسے کی ہڑبونگی دوڑکی صورت میں برپا ہے۔ آٹھ مربع فٹ پر کوئی سو بندہ ایک دوسرے کو دھکا دے کر حجر اسود چومنے یا اسے مس کرنے کی خاطرگرنے مرنے کو تیار ہے۔

میں حجر اسود تک پہنچنے کی دو بار کوشش کرتا ہوں۔ ہر بار خواتین کے ہاتھوں واپس ہونا پڑتا ہے۔ حرم کے اس حصے میں خواتین کےسر سے چادریں اتری ہوئی ہیں۔ رش میں حالت بری ہے۔ ایک انڈونیشین عورت شرطے کی جانب امید بھری نگاہوں سے فریاد کرتیہےہیلپ۔۔۔ ہیلپ۔ ایک افریقی اور ایک پاکستانی اسی دھینگا مشتی کے ماحول میں اس پر پھبتی کستے ہیںاو کہڑی ہیلپ بیبی، تینوں اسی کہیا سی ایتھے آ؟۔ یقین کریں کشمیر فلسطین کی یاد آگئی۔ خواتین کو تو حیا نہ آئی مجھے آگئی۔ یوں میں پہلی کوشش میںحجر اسود کے کافی قریب پہنچ کر خواتین کے حق میں دستبردار ہو کر واپس چلا گیا۔

طواف کرتا دوسری بار حجر اسود کے قریب پہنچا تو پھر خیال آیا جنت کے پتھر کو محسوس کیا جائے۔ میں پھر اس انسانی کہکشاں میںگھستا ہوں۔ اب کی بار کافی دیر تک کوشش کے باوجود قریب نہیں پہنچ پاتا۔ ایک بار پھر ایک خاتون بالکل آگے اور دو تین دائیںبائیں آجاتی ہیں۔ اب مجھے جو دھکے لگتے ہیں وہ میں مناسب طریقے سے آگے پہنچانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ مجبوراً پھر سے ہرمان کرمیدانِ اسودچھوڑنا پڑتا ہے۔

اب میں ہار مان کر ان دوستوں اور احباب کے نام کے طواف شروع کر دیتا ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ یہ حکم دےسکیں۔ کوئی نہیں، خواہش تو تھی مگر حجر اسود کو بوسہ دینا یا چھونا کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں کہ اس پر دل چھوٹا کیا جائے۔ تینچار طواف کرنے کے بعد بغیر سوچے سمجھے پھر سے اس ہجوم میں گھس پڑتا ہوں جہاں دنیا حجر اسود کے دیدار میں مری جارہی ہے۔

اب کے ایک یورپی لہجے میں انگریزی بولتا عرب اور ایک پاکستانی جوان مجمع کو منظم کرنے کی کوشش میں ہیں مگر نامراد و ناکام۔ دوبندے کسی کے کاندھوں پر چڑھے حجراسود کو والد صاحب کی میراث سمجھتے ہوئے ایک ہاتھ اس پر رکھے جی جلانے والیمسکراہٹ کے ساتھ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نہیں ہٹنے والے۔ اس وقت کعبے کے عین سامنے اپنے جذبات پر قابو پانا ایکمشکل کام تھا مگر مجبوری کہ خدا کے گھر کی دیوار کے سامنے اسی کو دل سے منصف ماننے میں ہی عافیت تھی۔ رائٹ لیفٹ آگےپیچھے مسلمان، عروج کے نشے میں مسلمان، زوال کے احساس میں مسلمان، مگر ایک دوسرے ہی سے نبرد آزما۔۔۔ ہائے مسلمان۔

خیر میں اب چونکہ اسی میدان کا ایک مجاہد تھا اور حجر سے وصل کے تقریباً پاس لہذا آگے تو بڑھنا تھا۔ جانے کہاں سے ایک لمحےکو سامنے جگہ بنی، قابل دسترس علاقے میں اضافہ ہوا اور میں نے موقع ضائع کیے بغیر مطاف کی جانب سے ہاتھ سیدھا حجر اسود سےلگا دیا۔ معرکہ سر ہوا۔ چومنے کا میرا حوصلہ نہیں تھا۔ بندہ بشر ہوں جس قسم کے بندے بشر وہاں موجود تھے ان کی نسبت تو بہتہی ناتواں۔ تھوڑے کو بہت جانا اور اب واپسی پر غور کرنا شروع کیا۔

کافی دیر تک غور کرنے کے بعد غور فکر میں اور پھر ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کی شکل میں بدل گئی کیونکہ جس جانب میں نے جانا تھاوہاں سے تو ایک جم غفیر جسم پر کفن نما احرام باندھے  میری ہی جانب چلے آرہا تھا۔ سوچا تھا تیس کے پیٹے میں چلتاکڑیلجوانہوں، دیکھ لوں گا کون روکتا ہے۔ پر صاحب، دو چار گھڑی ٹس سے مس نہ ہو پایا تو کعبہ کے سامنے موت کی فضیلت دماغمیں ابھرنے لگی۔ ابھی میں براستہ شہادت حوروں کی جانب نکلنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ پاکستانی جوان نے میری جانب دیکھتے ہوئےمیرے چہرے کے رنگ بھانپ لیے اور چلایا،آپ نکل رہے ہیں؟۔ کہاہاں, ہاں، ہاں، ہاں نکل رہا ہوں مدد کر دے جوانحالت پتلی ہے۔ جوان نے آواز لگائییخرج یخرج۔

اور پھر میں نے ہاتھ اٹھا کر اپنی پوری قوت سے نعرے لگانے شروع کر دیے۔۔

یخرج یخرج واللہ یخرج

دو چار چہروں کی جانب سوالیہ نگاہوں سے ہاتھ بڑھانے کے بعد نیلے رنگ کی شرٹ میں ملبوس ایک انڈونیشین فرشتے نے،

قد کاٹھ جس کا حیرت انگیز طور پر چھ سات فٹ تھا، ہاتھ بڑھایا اور دو قدم کھینچ کر مجھے باہر نکالا۔ باہر نکل کر میں نے فرشتے نماانسان کا شکریہ ادا کیا اور پھولے سانس کے ساتھ ایک پاکستانی انکل کے طواف کے مدار میں آکھڑا ہوا۔ وہ غالباً دور سے مجھے دیکھرہے تھے۔ بڑی خوشی کے ساتھ پیٹھ تھپکی اور مجھے سوچ میں ڈوبا چھوڑ کر آگے چل پڑے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو قوم اس مبارک مقام پر منظم نہ ہو سکے وہ کسی بھی محاذ پر کسی کے خلاف یا کسی کے حق میں کیونکر متحد ہو پائے گی؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply