یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔۔۔ معاذ بن محمود

جمعہ ۲۰ مارچ ۲۰۲۰۔ ۸:۴۱ منٹ

سال نو کی خوشیاں دنیا بھر نے خوب منائیں۔ کئی امنگیں امیدیں آرزویں لیے بنی نوع انسان نے ۲۰۲۰ میں قدم رکھا۔ کوئی شک نہیں کہ خواہشات انسان کے لیے ضروری ہوتی ہیں لیکن اس سے زیادہ ضروری اپنے حال پر شکرگزار ہونا ہوتا ہے۔ مجھے بدھ ازم کا بس یہی تصور پرکشش لگتا ہے کہ اس گزرتے لمحے ہی میں کامل خوشی ہے۔ اپنا مذہب اسے خداوند پاک کا شکرگزار ہونا کہتا ہے۔ ہر حال میں شکر ادا کرنا۔ مذہب سے باہر نکل کر سوچیں تو اسے چیزوں کو فور گرانٹڈ نہ لینا کہہ سکتے ہیں۔

یکم جنوری ۲۰۲۰ کو ہم سب کسی نہ کسی حال میں ہوں گے۔ یہ حال اچھا ہو سکتا ہے برا بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی مثال دوں تو میں یکم جنوری کو کعبہ کے گرد شاید ساتواں طواف کر رہا تھا یا غالباً کر کے فارغ ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھے سعی کرنی تھی۔ سعی سے پہلے دو نفل ادا کرتے ہوئے سجدے کی حالت میں کسی نے میرے بالوں کی ایک لمبی لٹھ پر پیر رکھا ہوا تھا۔ میں سجدے سے اٹھا تو پوری لٹھ جڑ سے باہر آئی اور کچھ اس طرح آئی کہ میری آنکھوں سے باقاعدہ آنسو نکل آئے۔ دوران نماز ہی جانے کیا کیا خیال آئے کہ لوگ دیکھے بغیر کھڑے ہوجاتے ہیں سوچتے نہیں وغیرہ وغیرہ۔ چند لمحے پہلے میں خوش تھا اور چند لمحوں بعد ذرا سی تکلیف پر ناخوش۔ پھر سعی کے لیے چل پڑے۔ صفاء مروہ کے درمیان چکر لگانے کے بعد شدید تھکن ہوئی اور ہم جلد سے جلد ہوٹل پہنچنے کے چکر میں پڑ گئے۔ وہ سکون اور راحت جو عمرے کے بعد ملنی چاہیے تھی چند لمحے رہنے کے بعد ہوا میں اڑ گئی۔ اس کے بعد پھر ہوٹل، چند دن بعد واپسی اور جانے کیا کیا فکریں ہوں تھیں جن کے بارے میں سوچا۔ بہت دعائیں کیں لیکن یہ دعا نہیں کی کہ اے رب باری تعالی، دنیا بھر کا امن و سکون قائم رکھ۔

میں نے دینا بھر کے سکون کو فور گرانٹڈ لے رکھا تھا۔ یکم جنوری ۲۰۲۰ پر غور کیجیے تو آپ بھی کم و بیش اسی حالت میں ہوں گے۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ دنیا، اس کا نظام بقول نسیم طالب کس قدر فریجائل ہے۔ یہ میں نے ابا مرحوم کی وفات سے پہلے بھی نہیں سوچا تھا۔ پھر والد صاحب کو اوپر والے نے واپس بلا لیا اور معلوم ہوا کہ دھچکا کیا ہوتا ہے۔

امارات میں ڈرائیونگ کلاسز کے دوران ایک عملی لیسن یا سبق اسی دھچکے کے بارے میں بھی سمجھایا جاتا ہے۔ اس دوران استاد آپ کو ایک سلوپ پر لگی سیٹ پر بٹھاتا ہے جسے ریلیز کیے جانے پر وہ قریب چار فٹ نیچے پھسلتی ہے اور ٹھک کر کے آگے لگی بندش سے ٹکرا کر رک جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قریب ۸۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کے جھٹکے سے بھی کم ہے۔ یہ ایک ٹھیک ٹھاک جھٹکا ہوا کرتا ہے جس کا مقصد تیز رفتاری میں حادثے پر لگے جانے والے جھٹکے کا اندازہ دینا ہوتا ہے۔

ایسے ۸۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لگنے والے یا اس سے کہیں کم جھٹکے ہمیں زندگی بھر لگتے رہتے ہیں۔ ہم وقتی طور پر ان سے سبق لے کر پھر بھول جایا کرتے ہیں۔ غور کیجیے، آپ یکم جنوری ۲۰۲۰ کو کس رفتار سے زندگی کی گاڑی میں چل رہے تھے؟ میں شاید ۲۰۰ کلومیٹر فی گھنٹہ والی سپیڈ پکڑے جا رہا تھا۔ شاید تبھی میں رب سے یہ دعا کرنا ہی بھول گیا کہ دنیا بھر کا سکون قائم رہے۔

کرونا وائرس کو آپ حادثہ کہہ لیں، امتحان یا کچھ بھی، اسے زندگی کا ایک بہت بڑا جھٹکا سمجھ کر کم از کم یہ فیصلہ ضرور کیجیے کہ آئیندہ کوئی چیز فور گرانٹڈ نہیں لینی۔ صحت اپنی ہو یا دوسروں کی بحیثیت بنی نوع انسان خدا کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا بہت ضروری ہے۔ ہر لمحے میں نروان ڈھونڈنا نہایت اہم ہے۔ عہد کیجیے کہ آئیندہ اس کا شکر ادا کرتے رہیں گے۔ اگر آپ خود پر مذہبی ٹیگ لگانا پسند نہیں کرتے تو بھی چیزوں کو فور گرانٹڈ لینے سے گریز کیجیے گا۔ کیا پتہ کب کوئی کرونا نما امتحان سامنے آجائے جو گھڑی کی ٹک ٹوک کے آگے جدید ٹیکنالوجی کو بے بس کر ڈالے؟

آخر میں وہ بادشاہ والی کہانی سب کو یاد کرانا چاہوں گا جس کا لب لباب “یہ وقت بھی گزر جائے گا” تھا۔ صدیقی صاحب مرحوم کو لحد کے حوالے کرنے کے فوری بعد مجھے ہوش نہیں رہا تھا۔ پھر جب حواس واپس آئے تو سوچا اس سے برا وقت کیا ہوگا۔ یقیناً وہ بدترین وقت تھا مگر۔۔۔ گزر گیا۔ پھر ایک بار میں کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہوا اور پھر سے کاروبار زندگی میں مگن ہوگیا۔

ہم سب جلد ہی اس کٹھن وقت سے بھی گزر جائیں گے کیونکہ ہر رات کے بعد ایک سویرا آپ کا منتظر ہوتا ہے، بالکل ویسا ہی جو اس وقت میرے سامنے ہے، جو یہ تاثرات زیر قلم کرنے کا محرک بنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

This too, shall pass. InshAllah.

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply