یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے ۔۔۔ معاذ بن محمود

جہاد کی اصل جہد ہے۔ جہد مطلب کوشش کرنا، دوڑ دھوپ میں جتے رہنا۔ نئی پیڑھ اقبال کو ہلکا لیتی ہے حالانکہ علامہ صاحب دہائیوں پہلے حیات مجاہدوں کے ذوقِ خدائی کے بارے میں تنبیہ دے گئے تھے۔ ظاہر ہے تب کی مجبوریاں الگ تھیں۔ سیدھی جگتیں مار نہیں سکتے تھے کہ سنجیدہ شخصیت تھے۔ اوپر سے مجاہد تب بھی ایسے ہی جلالی تھے۔ جوابِ شکوہ کو آپ ناروے واقعے کے بعد ٹیلی نار کی جانب سے معذرت خواہانہ ٹویٹ کا مترادف سمجھ لیجیے۔ زندگی بھلا کسے پیاری نہیں ہوتی۔ اقبال کو بھی پیاری تھی۔ تبھی مجاہدوں کے بارے میں ذوق خدائی جیسی ذو معنی حقیقت لکھ گئے۔ اور یقیناً سچ لکھ گئے کہ خدا کی خدائی پر خدائی کا ذوق تو بہرحال پنڈی والے مجاہدین کو ہے ہی۔ جہد کے معنی کوشش کرنا۔ انسان ہیں۔ کن فیکون کی اوقات نہیں۔ پس اپنی سی جد و جہد ضرور کرتے ہیں، مگر بندوق کی نال کے زور پر۔ وہی بندوق جو عدالت عظمی کے پاس نہیں ہوتی، صدر صاحب کے دفتر میں بھی نہیں ہوتی، اور چڑیا گھر کی طرح وزیراعظم گھر میں تو بالکل نہیں ہوتی۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جس کی بندوق اسی کا میاں اسی کا زرداری اور اسی کا خان نیازی۔

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے۔۔۔

پراسرار مطلب اسرار سے بھرپور۔ اسرار جو سِر٘ کی جمع ہے جس کا مطلب ہے راز۔ یہ ریاست، سیاست، خباثت وغیرہ سبھی رازوں کے امین ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں یہ بہت اصول پسند بھی ہوتے ہیں۔ ریاست کے راز ان کا اپنا مجاہد بھی افشاں کر دے تو یہ پھانسی چڑھا دیا کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی کسی کو چڑھایا ہے۔ سیاست کے راز چونکہ ہوتے ہی باہر نکالے جانے کے لیے ہیں لہذا اس کے لیے پانچویں نسل کا جہاد عمل میں لایا جاتا ہے۔ ہاں یہ راز کب باہر آنے ہیں اس زمان و مکاں کا تعین مجاہد خود کرتے ہیں۔ حق بنتا ہے۔ پراسرار بھی ہیں اور خدائی کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔ ان پر جچتا بھی ہے۔ خباثت کے رموز و اسرار پر بات کرنے کی میری اہلیت نہیں۔ چئیرمین نیب اس معاملے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی۔۔۔

علامہ صاحب کے زمانے میں یہ ذوق صرف خدائی تک محدود تھا۔ اب والے غازی تو کھدائی پر اتر آئے ہیں۔ مگر اس سے قطع نظر آپ اقبال کے اس مصرعے پر غور کیجیے۔ وہ چاہتے تو اس مصرعے میں شوق بھی لکھ سکتے تھے۔ یعنی جنہیں تو نے بخشا ہے شوقِ خدائی۔ علامہ مگر جانتے تھے کہ یہ شوق ہرگز نہیں۔ شوق تو پینے پلانے کا بھی ہو سکتا ہے۔ سر تان لگانے کا بھی ہوسکتا ہے۔ بگٹی کو میزائل مارنے کا بھی ہوسکتا ہے۔ ذوق ایک الگ شے ہے۔ اس میں مزہ چکھنے کا عنصر آجاتا ہے۔ سواد کی بات آجاتی ہے۔ انگریزی کی قریب ترین اصطلاح “انجوائے” کرنے کی بات آجاتی ہے۔ ہمارے غازیوں کو، ہمارے پراسرار بندوں کو شوق نہیں، خدائی کا ذوق ہے۔ یہ نکتہ اہم ہے۔ یہ خدائی سے یعنی لوگوں سے “چس” لیا کرتے ہیں۔ یہ نکتہ ذہن میں رکھ کر ایک بار رعونت بھری فرعونیت والے لہجے میں میرے ساتھ دہرائیے۔۔۔

“یو بلڈی سویلین۔۔۔”

چس آئی؟ بس یہی بات۔

انسان بہت عجیب مخلوق ہے۔ ہمارے ملک والے انسان عجیب کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہیں۔ اور پھر ایک غریب اوپر سے بدتمیز بھی۔ یہ حقیقی خدا سے شکوے کرنے لگ جاتے ہیں، ذوق خدائی والے پھر کس کھیت کے کدو؟ یعنی خدائی کے ہمارے والے حصے کو ذوقِ خدائی والوں سے شکایتیں بھی ہوتی ہیں۔ محبت نفرت کی یہ آنکھ مچولی مجھ جیسے فاتر العقل کی سمجھ سے باہر ہے۔ ہر دس سال بعد انہیں ذوق خدائی کی یاد ستانے لگتی ہے۔ پھر جب وہ ان کی کھدائی شروع کرتے ہیں تو انہیں شکوے شکایتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ وہ بھی کیا کریں؟ ان کی اپنی مجبوریاں ہیں اپنے بار ہیں (شراب والے نہیں وزن والے)۔ مجھے بارہ سال ہوگئے گھر کی حفاظت کرتے۔ آج تک خود کو گھر سنبھالنے میں کامیاب نہیں سمجھتا حالانکہ کل ملا کر سات مرلے کی کٹیا ہے چھوٹی سی۔ پھر نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کس قدر مشکل کام ہے؟ کبھی سوچا اس خدائی نے؟ جو احمق انہیں دنیا بھر میں جائدادیں بنانے کا طعنہ دیتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت واسطے آسٹریلیا کے جزیروں، امریکہ کے ساحلوں اور خلیفہ کے برجوں پر اگلے مورچے قائم کرنے پڑتے ہیں۔ نظریاتی سرحدیں ہیں تو قوم ہے۔ قوم ہو نہ ہو یہ ہیں۔ قوم کی اصل حیات انہی پراسرار غازیوں سے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply