• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دوسروں کے بارے رائے قائم کرنے کا شوق۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

دوسروں کے بارے رائے قائم کرنے کا شوق۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہم سب دوسروں کے متعلق ایک رائے رکھتے ہوتے ہیں اور اس پر پختگی سے قائم بھی ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں کا محاسبہ بھی شوق سے کرنا چاہتے ہوتے ہیں۔ لیکن اپنی ذات اور اس کی خامیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اپنا تزکیہ نہیں ہوتا، لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ ہم سب اپنی ذات کو بہرحال درست ہی مانتے ہوتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں ہم میں سے سے لوگ وبسے ہوتے نہیں جیسا وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

اپنی ذات کو بھول جانا اور بس دوسروں سے متعلق آراء قائم کرتے رہنے کا شوق رکھنا، مسائل کی جڑ ہے۔

مسلم اور منافق کے عنوان سے دو خانے بنائیے۔ ان خانوں میں پانچ پانچ  نشانیاں لکھیں اور ان میں سے دیکھیے کس خانے کی علامات زیادہ ہمارے اندر پائی جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان کی علامات سے زیادہ منافق کی علامات پائی جائیں گی۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے والا اس امر کو بخوبی محسوس کرسکتا ہے کہ ہم کس طرح کے مسلمان ہیں۔

ہم سب سے زیادہ جس معاملے میں غفلت اور لاعلمی کا شکار ہیں وہ دوسرے انسانوں سے تعلق کا معاملہ ہے۔ یعنی انسان کا انسان سے تعلق۔

دورِ حاضر میں اب اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے۔ میں جنہیں زندگی بھر نہیں ملا اور شاید کبھی نہ مل سکوں وہ بھی اب میرے تعلق میں ہیں۔ وہ مشہور ہیں یا گمنام۔ سب میرے تعلق میں ہیں۔ ہم سب سے زیادہ غفلت جس معاملے میں برتتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوسرے کے بارے انہیں جانے بغیر ہی بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں اس کی تعلیم و تربیت ہی نہیں ملتی ہے۔ زبانی تعلیم گھر سے ادارے تک، ادارے سے مسجد تک ہر شخص دیتا ہے لیکن تربیت کوئی نہیں کرتا۔ تربیت تب ہو گی جب معاشرہ اس تعلیم پر عمل کرتا نظر آئے گا۔ عموما تو تعلیم دینے والے خود اس تربیت سے نہیں گزرے، بھلا وہ دوسروں کی تربیت کیسے کریں گے؟ شعوری یا لاشعوری طور پر وہ اپنی دی ہوئی تعلیم کے برعکس تربیت کررہے ہوتے ہیں۔

آئیے! اب اس تعلق پہ بات کرتے ہیں۔ اس تعلق بارے ہمیں کیا تعلیم دی گئی ہے۔

’’جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بُری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فُحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں‘‘۔

قاعدہ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر قائم ہونی چاہیئں۔ ’’ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گناہ گار ہونے کا ثبوت نہ ملے، نہ یہ کہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہوجائے‘‘۔(تفہیم القرآن، سورۃ النور)

ہم سب سے زیادہ جس معاملے میں غفلت اور لاعلمی کا شکار ہیں وہ دوسرے انسانوں سے تعلق کا معاملہ ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی چار خصلتیں ہیں، جس شخص میں وہ پائی جائیں گی وہ خالص منافق ہوگا، اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جائے گی حتٰی کہ اسے ترک کردے، (وہ خصلتیں یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب کوئی عہد کرے تو بے وفائی کرے اور جب جھگڑا کرے تو ناحق چلے۔ ایک اور مقام پہ فرمایا: ’’منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے‘‘۔

یہ دو پیراگراف اور دو حدیثیں مسلم معاشرے کی بنیاد ہیں کہ مسلم معاشرہ ان خرابیوں سے پاک ہوگا۔ اجتماعی طور پر مسلمانوں کا کردار ایسا ہونا چا ہئیے:

1۔       بے ہودہ خبریں اور بُری افواہیں نہ پھیلائیں۔

2۔       مسلمان فُحش اور فواحش کو رواج نہ دیں۔

3۔       جو ایسا کرے اس کی تحسین نہیں ہونی چا ہئیے۔

4۔       حسن ظن کو اجتماعی تعلقات کی بنیاد ہونا چاہیئے۔

5۔       ہر شخص بے گناہ ہے، جب تک اس کے گناہ گار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔

یہ مختصر پانچ باتیں اور دو حدیثوں میں بیان کردہ منافقین کی نشانیاں ایک مسلمان کے دوسرے انسان سے تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ اگر آپ ان پانچ باتوں اور دوحدیثوں کا جائزہ لیں گے تو آپ حیران ہوں گے کہ ان میں سے ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو ہمارے معاشرے میں مروّج نہ ہو۔

گویا ہم اور ہمارا معاشرہ ان اقدار سے محروم ہیں جن سے ایک مسلم معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

دور رسالت میں مدینہ چند ہزار کی آبادی پر مشتمل بستی تھی، جہاں ہر شخص ایک دوسرے سے واقف تھا۔ اس معاشرے میں رہنے والا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو منافقین کا گروہ تھا، جو مسلمان ہونے کا دعویدار بھی تھا لیکن کردار اور اخلاق میں کہیں سے بھی مسلمان نہیں دِکھتا تھا۔ تجارت بھی ناجائز اور معاشرت بھی جھوٹ پہ مبنی۔ آسودہ حالی اور خوشحالی نے انہیں عیاش اور بد معاش بنا دیا تھا۔ سنسنی خیز خبریں اور اطلاعات، ہیجان انگیز جنسی واقعات گھڑنا اور ان کی اشاعت انہیں زندہ رکھتیں اور اسی سے ان کا کاروبار زندگی رواں دواں تھا۔ یہ عمل جنسی اور سفلی جذبات کی تسکین کا ذریعہ تو ہے ہی لیکن اس کا انفرادی اور اجتماعی نقصان یہ ہے کہ فرد اور معاشرہ ’’قیمتی جوہر‘‘ سے محروم ہو جاتا ہے۔ قیمتی جوہر ذہنی صلاحیت اور اخلاقی قوت ہے۔ بعض اوقات سماج ذہنی اور اخلاقی گراوٹ و پستی کا اس حد تک شکار ہو جاتے ہیں کہ ذہن سنجیدہ اور معیاری فکر سے اُکتانے لگتا ہے اور اخلاقی اقدار سے بے پروا ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہماری اجتماعی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ ایک شخص جسے میں زندگی میں کبھی نہیں ملا۔ میرا رابطہ صرف اور صرف میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہے۔ میں نے تمام زندگی اسے دیکھا یا اس کے بارے میں صرف سنا۔ میری معلومات کا ذخیرہ بالواسطہ ہے لیکن میری ہر بات اس کے بارے میں ایسی وثوق اور یقین سے ہوتی ہے جیسے میں نے اس کے ساتھ سفر کیا ہو، کھانا کھایا ہو یا اس کے ساتھ کوئی معاملہ کیا ہو، جبکہ میں نے کچھ بھی نہیں کیاہوتا۔ میں نے ایک مجلس میں لوگوں کو کسی کے بارے میں گھنٹوں بات کر تے ہوئے دیکھا ہے جس سے وہ کبھی ملے ہی نہیں۔ طرف دار اور مخالف دونوں گمان و خیال سے الجھ رہے ہوتے ہیں لیکن خاموشی کوئی بھی اختیار نہیں کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آغاز مضمون کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ہر شخص دو کالم ضرور بنائے اور ان میں پانچ مسلمان اور پانچ منافق کی نشانیاں لکھے اور اس کی روشنی میں اپنے کردار کا جائزہ لے وہ اصل میں کون ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply