پاکستان کا مسیحی وزیر اعظم۔۔۔۔تحریر/اعظم معراج

وہ جنوری2014ء کی ایک سرد صبح تھی اس دفعہ کراچی میں پچھلے چند روز سے زیادہ سردی پڑ رہی تھی چونکہ ایسا موسم شازوناذر ہی ہوتا تھا اس لئے لوگ ایسی سردی سے خوش ہوتے اکرام خان بار بر شاپ جو کہ شاہراہ فیصل سے جیکب لائن کی طرف آنے والی سڑک پر واقع تھی بابا اکرام خان جو کہ دکان کا مالک تھا دکان کے باہر انگیٹھی میں آگ جلا کر بیٹھا ہوا تھا اندر اس کے کاریگر ابھی آ کر دکان سیٹ کر رہے تھے سامنے والی چھوٹی سی بستی جو کہ ایک احاطے پر مبنی تھی۔ بستی سے نکل کر اقبال مسیح چاچے اکرام خان کی جانب آیا۔ یہ بستی تبیلہ بھی کہلاتی تھی اس میں زیادہ مسیحی اور ہندو آبادتھے جو کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کے ملازم تھے یہ بستی جب آپ شاہراہ فیصل سے جیکب لائن کی طرف جاتے ہیں تو سڑک کے دونوں طرف پرانے فرنیچر کی دکانیں ہیں۔ یہ سڑک آگے جا کر دو شاخوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یعنی دو سڑکوں میں بٹ جاتی ہے اور دو سڑکوں میں تقسیم ہونے سے جو دو شاخا(دوسانگی) سی بنتی ہیں اس ‘‘دو سانگی’’ کی نکڑ پر کنٹونمنٹ بورڈ کی ڈسپنسری ہے جس کے باہر کنٹونمنٹ بورڈ جنرل اسپتال کا دھاتی بورڈ چمک رہا ہے اس کے بعد چھوٹی سی گلی پھر ایک چھوٹا سا کمپاؤنڈ جس میں کنٹونمنٹ بورڈ کا ٹیکنیکل اورکلریکل اسٹاف کے صاف ستھرے کوارٹرز ہیں اس کے بعد پھر ایک چھوٹی سی گلی ہے اور پھر یہ احاطہ ہے جس کے باہر گیٹ پردھاتی محراب پر کنٹونمنٹ بورڈکمپاؤنڈ لکھا ہوا تھا لیکن اب یہ صرف ایک لوہے کی زنگ آلود محراب ہے یہ بورڈ بھی اس کمپاؤنڈ کے مکینوں کے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح مٹ چکا ہے۔اس چھوٹے سے کمپاؤنڈ کے اندر جو بستی ہے اسے اس کے مکین اور ان کے شہر میں دوسرے بسنے والے عزیزو اقارب تبیلے کے نام سے پکارتے ہیں۔اس آبادی کا گیٹ آرمی پبلک اسکول( جہاں کسی زمانے میں بوہریوں کا سالانہ میلہ لگتا تھا) والی سڑک پر ہے اسی سڑک پر آرمی پبلک اسکول کے بعد سینٹ پالز اسکول ہے اس کے بعد یہ سڑک لکی اسٹار پر جا کر صدر کے رش میں گُم ہو جاتی ہے اس بستی کے پیچھے والی سڑک پر آگے جا کر دائیں ہاتھ پر آرمی پبلک اسکول کی پچھلی دیوار جبکہ پچھلے حصے میں دائیں ہاتھ پر لائنز ایریا ختم ہونے کے بعد پارسی کرکٹ گراؤنڈ جو کہ برطانوی دور کی یاد دلاتا ہے اس کے بعد ایک گلی جو لائنز ایریا میں جا رہی ہے اس کے بعد پہلے سینٹ پیٹرک کالج ،اسکول اور پھر بائیں طرف سینٹر پیٹرک کھیڈریل اور سینٹ جوزف کالج وغیرہ ہیں۔ سارا دن ان دونوں سڑکوں سے گزرکر آرمی پبلک، سینٹ پالز اسکول یا سینٹ پیٹرک کالج و اسکول سے ہوتے ہوئے شارٹ کٹ لے کرکیفے اسٹوڈنٹ سے گزر کر ایم اے جناح روڈ جانے والے یا پھر سینٹ جوزف کانونٹ اسکول و کالج سے ہوتے ہوئے صدر جانے والے بہت سے کراچی کے مکینوں کونہ تو اس بستی کا نام پتا ہے اور نہ ہی کبھی کسی نے نوٹس کیا ہو گا کہ یہاں بھی کوئی بستی ہے جس کے چند قدم پر پاکستانی مسیحیوں کے ایک بڑے فرقے رومن کاتھولک ، سینٹ پیٹرک کیتھڈریل ہے جوکہ ایک طرح سے سندھ پاکستان میں ان کا ہیڈ کوارٹر ہے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کرتا دھرتوں میں سے بھی چند ہی کو پتا ہو گا کہ یہاں ان کے بالکل قریب ان کے وہ پیروکاربھی بستے ہیں، جن کے ذمے کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کے اس علاقوں کی سڑکوں کی صفائی ستھرائی ہے اور اس بستی میں ان سڑک مزدوروں کی دوسری تیسری نسل ان کے بالکل پہلو میں بستی ہے۔شواہد بتاتے ہیں جو لوگ ان کو کبھی نہیں بھولتے وہ ہیں معجزے کرنے والے پادری کیونکہ ان کے کمپاؤنڈ کے گیٹ پر شفائیہ کروسڈوں کے اشتہاروں کی بھرمارہے اور یا پھر جب کبھی الیکشن کا موسم آتا ہے تو امیدوار بلکہ زیادہ تر امیدواروں کے نمائندے باقاعدگی سے ان کے ہاں چکر لگاتے ہیں اور ایسا عموماً سالوں بعد ہوتا ہے۔ اس کمپاؤنڈ کے اندر بہت پرانے زمانے کے فلیٹ بنے ہوئے ہیں جو اب بہت مخدوش ہو چکے ہیں۔ کسی زمانے میں ان فلیٹ کے گرد جو کھلی جگہ تھی وہاں لوگوں نے کچے مکانوں سے بھی بدتر طریقوں سے پکے مکان بنائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اندر گلیاں شدید تنگ ہیں۔ چند گھروں کے اس کمپاؤنڈ کے اندر بھی دو تین چرچ ضرور ہیں۔ اندر ہی چند دکانیں بھی ہیں پورے کمپاؤنڈ میں تھوڑی سے صحن نما جگہ جو تقریباً اس کمپاؤنڈ کے وسط میں ہے خالی ہے اگر آپ 20دسمبر کے بعد یہاں جائیں تو اس خالی جگہ پر بہت ساری لکڑیوں کا انبار نظر ، جن کا کرسمس کی رات بڑا آلاؤ لگا کر اس بستی کے نوجوان اس کے گرد سستی دیسی شراب کا شغل کرتے اور ناچ گانا کرتے اور خوش ہوتے ہیں۔
سینٹ پیٹرک اسکول جانے والی اس کمپاؤنڈ کے پیچھے والی سڑک پر اس کمپاؤنڈ کے خالی حصہ پر ہی شائد کنٹونمنٹ بورڈ نے یا کسی بلڈر نے کراچی کینٹ بورڈ والوں سے مل کر کر دکانیں بنائیں ہوئیں ہیں۔ جن میں زیادہ تر گیراج ہیں۔ اس وجہ سے اس سڑک سے گزرنے والے کو یہ بستی نظر نہیں آتی اس بارہ پندرہ سو گز کے کمپاؤنڈ کے اندر ایک دنیا آباد ہے پرانی کراچی میں اس طرح کے ہندؤں اور مسیحیوں کے اور بھی محلے ہیں مثلاً لیاری میں سلاٹر ہاؤس، جوبلی مارکیٹ میں دھک تبیلہ، کلفٹن میں سولہ نمبر گٹر اور رنچھوڑ لائن میں اس طرح کے دیگر کئی محلے ہیں۔
اقبال مسیح نے چاچے کو سلام کیا اور چاچے کے پاس بیٹھ گیا اقبال مسیح کراچی کنٹونمنٹ بورڈ میں صفائی کا کام کرتا تھا۔ میٹرک فیل تھا اس کے والد بھی کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کے ملازم رہے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اقبال مسیح ان کی جگہ بھرتی ہوا تھا۔ میٹرک فیل ہونے کے باوجود باشعور تھا اخبار بڑے دھیان سے پڑھتا سیاسی شعور رکھتا تھا۔ پیپلز پارٹی کا زبانی جمع خرچ والا حمایتی تھا یعنی ووٹ ڈال دیا ان کے حق میں بحث کر لی دکان کے باہر بیٹھا ہوا اکرام باربر بڑا دلچسپ کر دار تھا چکوال کے کسی دوردراز کے گاؤں سے اس کا تعلق تھا کم عمری میں گھر سے بھاگ کر فوج میں بھرتی ہو گیا آبائی پیشہ نائی کا تھا فوج میں بھی یہ ہی ٹریڈ مل گیا اخباروں کو چاٹنے کی عادت تھی اخباروں سے کتابوں کی لت لگ گئی مشاہدہ و حافظہ اچھا تھا فوج میں افسروں سے جان پہچان اور گپ شپ کے دوران بہت کچھ سیکھا۔
اچھا خاصا دانش ور تھا وسیع مطالعے کی وجہ اور ملک بھر کے شہروں میں پوسٹنگ کے دوران اس نے بہت کچھ سیکھا تھا اس کی آخری پوسٹنگ کراچی میں تھی اپنی 30سالہ نوکری میں دو دفعہ کراچی رہا اسے یہ شہر بہت پسند آیا یہ شہر نہیں بلکہ پورا پاکستان تھا ملک بھر کے بلکہ 60کی دہائی میں تو دنیا بھر کے لوگ اس شہر میں رہتے تھے نہ صرف ملک بھر کے مختلف رنگ نسل لسانی تہذیبی پس منظر کے لوگ یہاں بستے تھے بلکہ بیرونی دنیا کے کئی ممالک کے لوگوں نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا ہوا تھا اس لئے یہ شہر اکرام کو بہت پسند آیا غریب پرور بے تہاشا تہذیبی پس منظر رکھنے والے لوگوں کا مسکن محبت امن کا گہوارہ جو کہ بعد میں اسی کی دہائی میں بدامنی کا استعارہ بھی بنا۔گوکہ اکرام خان کے بچوں نے صدر میں بھی سیلون بنا رکھے تھے لیکن کراچی کے بیچ شہر میں یہ غریبوں کا علاقہ اُسے بہت پسند تھا۔ وہ یہی دکان کے اندر یا باہر حسبِ موسم محفل لگاتا کام اب کاریگر کرتے تھے گو کہ لائنز ایریا میں زیادہ اردو بولنے والے آباد تھے لیکن اکرام کی دکان پر تقریباً ہر رنگ نسل کے لوگ آتے تھے اور تو اور سامنے والی آبادی جو تبیلہ کہلاتی تھی گو کہ اس کے مکین نہ زیادہ کسی سے گھلتے ملتے تھے اور نہ دوسرے انہیں منہ لگاتے تھے بس ان کی زندگی کام اور کام کے بعد اندر ہی رہنا تھا حتیٰ کہ لائنز ایریا میں رہنے والے کئی دوسرے مسیحی بھی اس بستی میں جانا پسند نہ کرتے تھے ماسوائے شراب وغیرہ پینے کے، اقبال مسیح نے چاچے کو سلام کیا چاچے نے پوچھا ……‘‘ یار اقبال اس دفعہ تم کرسمس نئے سال پر نظر نہیں آئے؟’’ اقبال نے بتایا ‘‘ چاچا میں نے اس دفعہ گاؤں میں کرسمس گزارا ہے سالے کی شادی بھی تھی اس لئے ذراجلدی چلے گئے تھے چاچا تمہیں تو پتہ ہے۔
سسرال کی شادی میں تو میرے جیسا بھی عزت دار ہوتا ہے۔ چاچے نے ڈانٹتے ہوئے کہا ‘‘اوے اقبال تجھے کتنی دفعہ سمجھایا ہے ایسی باتیں نہ کیا کر ……کیا کمی ہے تجھ میں؟ ’’ محنت کرتے ہو حق حلال کی کماتے ہو عزت سے رہتے ہو…… اقبال نے کہا ‘‘حق حلال کی تو پتہ نہیں لیکن چاچا تمہیں بھی پتہ ہے عزت سے نہیں رہتے بس رہتے ہیں…… چاچے نے کہا چھوڑو…… یہ مایوسی کی باتیں میرے پاس تھیں تمہیں خوش کرنے کے لئے دو بڑی ہی شاندار خبریں ہیں…… ایک تو مجھے پتہ ہے تمہیں معلوم ہی ہو گی اتنی دیر میں چاچے کو لیاقت نظر آیا…… وہ سڑک پار کرکے تبیلے کی طرف سے دکان کی طرف آرہا تھا۔ چاچے نے لیاقت کو دیکھتے ہوئے کہا لو تمہارا یار چوہدری بھی آ گیا۔ اتنی دیر میں لیاقت بھی پہنچ گیا اس نے اقبال کو کرسمس اور نئے سال کی مبارک دی اس کا حال احوال لیا چاچے کو سلام کیا۔ اقبال نے چاچے سے پوچھا…… چاچا کیا خبر تھی؟ ……چاچے نے اندر اپنے کاریگر کو آواز دی او احمد وہ اخبار لانا جو میں تمہیں سنبھالنے کے لئے دیا تھا…… احمد اخبار لے آیا چاچے نے آرٹیکل والا صفحہ اقبال کو دکھایا یہ دیکھو زاہدہ حنا کا کالم جو 29 دسمبر2013ء کو چھپا ہے ایک تو تمہارے شریک چیئرمین کی اس خواہش پر کہ وہ چاہتے ہیں۔ پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم کوئی مسیحی ہو……تمہارے لیڈر کے اس بیان پر زاہدہ حنا نے ان کی بڑی تعریف کی ہے یہ سن کر اقبال کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا اور اس نے کہا چاچا یہ خبر تو میں نے سیالکوٹ میں ہی پڑھ لی تھی دوسری خبر کیا ہے چاچا؟ اقبال نے بے تابی سے پوچھا چاچے اکرام نے کہا دوسری کسی نے کوئی کتاب لکھی ہے…… زاہدہ حنا نے اس کی بڑی تعریف کی ہے اور یہ کتاب میں نے منگوائی ہے گھر پڑی ہے…… زاہدہ حنا نے اس کتاب کی بڑی تعریف کی ہے۔
لیکن مجھے تو کتاب کوئی خاص نہیں لگی علمی ادبی اعتبار سے تو کوئی سر پیر مجھے اس کا سمجھ نہیں آیا لیکن کتاب لکھنے والے کا مقصد مجھے بڑا اونچا اور تگڑا نظر آتا ہے اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تگ و دو میں وہ جنون بھی نظر آتا ہے جو بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے چاہیے ہوتا ہے‘‘ لیاقت جو اس وقت سے خاموش کھڑا اقبال مسیح اور چاچے اکرام کی گفتگو سن رہا تھا مصنوعی غصے سے بولا چاچا ،، بجھارتیں کیوں بھجوا رہے ہو…… بتاؤ وہ کتاب ہے کیا؟
چوہدری اس بستی کا بڑا دلچسپ کردار تھا اس کا تعلق ضلع شیخوپورہ (موجودہ ضلع ننکانہ صاحب کے قریب ایک مسیحی گاؤں ینگسن آباد سے تھا مارٹن پور، کلارک آباد، فیصل آباد میں گوجرہ اور جنوبی پنجاب میں ضلع خانیوال ، ضلع ساہیوال، میانوالی اور لیہ کے علاقوں میں بھی کل ملا کر47 ایسے گاؤں اور سندھ میں بھی 6 ایسے گوٹھ ہیں جہاں مسیحی مشنریوں نے زیادہ تر برطانوی دور میں برصغیر کے دور دراز علاقوں سے مسیحیت قبول کرنے والے ہندوستان کی معاشی اور سماجی طور پر پسے ہوئے مسیحیوں کو ان کی معاشی اور سماجی بحالی کے لئے لا کر آباد کیا انہیں زرعی زمینیں دی گاؤں بسا کر دیئے یہ 53گاؤں اور گوٹھ پاکستان بھر میں ماڈل گاؤں تصور کئے جاتے ہیں باقاعدہ منصوبہ بندی سے آباد کئے گئے یہ دیہات پاکستانی مسیحیوں کی ایک بہت بڑی پہچان تھے اس طرح کے دیہاتوں سے مشنری اسکولوں نے بڑے قابل اور کامیاب لوگ پیدا کئے۔ لیکن اب صاحبِ حیثیت پڑھے لکھے مسیحیوں کی یورپین ملکوں میں ہجرتوں کے سبب اور مسیحیوں کی موجودہ نسلوں کی تعلیم سے دوری سہل پسندی نے اس طرح کے مسیحی گاؤں اور ان کے مکینوں کا بھی ستیاناس کر دیا ہے اور ان علاقوں کے مسیحیوں کی چوتھی اور پانچویں نسل مسلسل تنزلی کا شکار ہو کر اب تبیلے جیسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے جب کے ماضی میں ایک ہی نسلی حسب نسب اور مذہبی پس منظر ہونے کے باوجود ان مسیحی گاؤں کے لوگ اپنے آپ کوئی خاص نسل گردانتے تھے اور ان کی طبیعتوں میں ایک خاص احساسِ تفاخر اور اعتماد پایا جاتا تھا گو کہ وہ گئے دنوں کی باتیں ہیں کیونکہ اب یہ گاؤں دیہات منشیات اور ہر طرح کے نشوں کے گڑھ بن چکے ہیں اور ان گاؤں کی موجودہ نسلوں کی بدقسمتی کی ایک وجہ شائد یہ ہے اور مذہبی انارکی اتنی ہے کہ ایک گاؤں جہاں ایک چرچ سے سارا گاؤں اپنی روحانی ضرورت پوری کرتا تھا اور اتوار کے اتوار اپنے سماجی مسائل پر بھی ایک جگہ ااکٹھے ہو کر بات کرتا تھا وہاں سے اب لاتعداد گرچے بن چکے ہیں جس سے مذہبی و سماجی غرض ہر طرح کا انتشار زوروں پر ہیں لیکن ان کے یہ غریب ہم مذہب و ہم وطن ہمیشہ انہیں اپنے لئے قابلِ فخر گردانتے ہیں۔ اور ان گاؤں کے زمینداروں کے قصے مزے لے لے کر ایک دوسرے کو سناتے اور خوش ہوتے ہیں۔ کہ سارے ہم مذہب اور ایک ہی برادری کے لوگ بسنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے کوئی جھجھکتا نہیں اور پتہ نہیں کن بقراطوں نے شراب ان کے لئے جائز قرار دی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دن بدن ان کی حالت ابتر سے ابتر ہو رہی ہے۔
اس لئے چوہدری لیاقت رُلتا کھلتا جب اپنے عزیزوں کے پاس کراچی پہنچا تو انہوں نے اس کی نوکری کا بھی بندوبست کیا اسے عزت بھی دی چوہدری لیاقت نے جلدی پر پرزے نکالے اور ان کا لیڈر بن بیٹھا چوہدری لیاقت کردار میں پاکستان کے کسی بھی بڑے، چوہدری سے کم نہ تھا پولیس سے یاری رکھنا شراب پینا بڑے سیاسی بلکہ صاحب اقتدار لوگوں کے پیچھے بھاگنا پولیس کے ساتھ مل کر غریبوں کو تنگ کرنا جو بھی سیاسی حکومت ہو اس کے لیڈروں کے آگے پیچھے پھرنا اور اپنی ساری دو نمبر حرکتوں کے باوجود اپنے آپ کو عزت دار سمجھتا تھا، چوہدری لیاقت جو شروع میں تو منہ پر ڈھاٹا باندھ کر سڑک پر جھاڑو پھیرتا تاکہ کوئی دیکھ نہ لے پھر جلد ہی اس نے اپنے انچک (بے جھجک) اور کمزور کے ساتھ بدتمیزی اور ا پنے سے بڑے کے ساتھ چاپلوسی کی خصلت کی بدولت جلد ہی اپنے افسروں کی توجہ حاصل کی اور صفائی والوں کا سپروائزر یعنی جمع دار ہوگیا اب وہ سفید کپڑے پہن کر گولڈ لیف سگریٹ کا پیکٹ ہاتھ میں لے کر گھومتا اور اپنے انڈر کام کرنے والے اپنے ہی طرح کے حالات کے مارے ہوؤں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا سیاسی شعور نہ ہونے کے باوجود چاچے اکرام سے سیاست پر بحث کرتا اور اقبال مسیح کا دل جلاتا۔ چاچے نے چوہدری کو کہا بیٹا صبر کرو بتا رہا ہوں یہ کتاب پاکستانی مسیحیوں کے دفاعِ پاکستان میں کردار کے بارے میں ہے اور اس میں پہلی دفعہ مسیحی شہداء کا بھی کھوج لگایا گیا ہے اور زاہدہ حنا نے تو یہ تک لکھا ہے کہ جو پاکستانی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ دفاعِ پاکستان صرف ان کی ہے ذمہ داری ہے انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ جی ایچ کیو سے حاصل کردہ باون مسیحی شہداء کی فہرست کے علاوہ بہت سارے اعزاز یافتہ مسیحی افسران اوران میں سے کئی تو جرنیل بھی ہیں اس کے علاوہ اس میں کئی اعزاز یافتہ افسران و جوان مثلا ستارہ جرات، تمغہ جرات ، ستارہ بسالت، تمغہ بسالت، اور اسی طرح کے دیگر کئی اعزاز یافتہ افواج پاکستان کے مسیحی شہداء غازیوں اور محافظان وطن کا ذکر ہے۔
جیسے میں نے پہلے کہا ہے علمی اور ادبی لحاظ سے مجھے تو ایویں سی کتاب لگی ہے لیکن تمہارے لئے ایک تاریخی دستاویز ہے اور مجھے لگتا ہے تم مسیحیوں کو یہ عزم اور حوصلہ دے گی اور تمہاری نسلوں کے کام آ ئے گی۔ یہ سن کر لیاقت کا چہرہ بھی چمکنے لگا اور جیسے ہی اکرام خان خاموش ہوا لیاقت نے پرجوش لہجے میں کہنا شروع کیا چاچا میں جب بھی بستی کے لوگوں کو بتاتا ہوں کہ ہمارے گاؤں سے کئی میجر کرنل اور جج غرض ہر محکمے میں افسر بنے ہیں لیکن یہ لوگ مانتے ہی نہیں شکر ہے کوئی ایسی کتاب آ گئی ہے اب یہ لوگ میری بات مان لیں گے اقبال نے شرارتی لہجے میں اکرام خان کو کہا چاچا چوہدری کو بلاول کی بات بتاؤ ۔اس نے کرسمس کی مبارکباد دیتے ہوئے کیا کہاہے ؟‘‘ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کا وزیر اعظم کوئی مسیحی بھی ہو’’۔ چوہدری سمجھ گیا کہ اقبال مجھے چھیڑ رہا ۔ کیونکہ چوہدری آج کل نواز لیگ حکومت کا بڑا حامی تھا لہٰذا اس نے فوراًکہا چاچا بتاؤ…… اسے یہ کیسے ہو سکتا ہے چاچا پتہ نہیں ہماری برادری کو کیا ہو گیا ہے…… بس اس طرح کی سنی سنائی باتوں سے خوش ہو جاتی ہے بھائی انہیں بتاؤ ہمارے اسکول ادارے کس نے چھینے تھے؟ اقبال مسیح کے جواب دینے سے پہلے چاچے نے کہا لیاقت وہ اور چکر تھا اس میں بڑی نیشنلائزیشن کی پالیسی تھی…… وہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوئی لیکن عام لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے اس سے تم لوگوں سے واقعی زیادتی ہوئی کیوں تمہاری غریب برداری کے پاس یہ ہی تو چند اثاثے تھے اور ایسے اثاثے تھے جن سے تمہاری نسلیں سنواری جا سکتی تھی وہ بھی حکومت نے لے لئے چلو غصہ تھوک دو آخری جملہ چاچے نے اقبال کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا شائد اسی نقصان کا ازالہ اب وہ تمہارا وزیراعظم بنا کر کرنے لگے ہیں اب تو خوش ہو جاؤ‘‘ اقبال نے کہا ’’چاچا تمہیں بھی پتا ہے…… چوہدری لیاقت صاحب ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں…… ان کا یہ ہی وطیرہ ہے کل پیپلز پارٹی کی حکومت میں یہ ہمارے ساتھ تھے…… اب مسلم لیگ نون کل پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ لیاقت نے غصے سے منہ دوسری طرف کیا یہ اس کا خاص اسٹائل تھا…… جب وہ غصے میں کوئی جھوٹی دلیل دینے لگتا تو جس سے مخاطب ہوتا بجائے اس کی طرف منہ کرنے کے منہ دوسری طرف کر لیتا اور زور شور سے بولنے لگتا…… وہ زور زور سے بولتے ہوئے کہنے لگتا ‘‘چاچا اسے بتاؤ چوہدراہٹ ایسے ہی ہوتی ہے…… تھانے تپھانے جانا ہے تو حکومت میں رہنا پڑتا ہے۔ ہم پارٹی نہیں بدلتے بلکہ ہم تو حکومت میں رہتے ہیں…… پارٹی بدلتی ہے ہم تو حکومت کے ساتھ ہیں جو پارٹی بھی حکمران ہو گی وہ ہماری ہو گی۔ لیکن اس اقبال کو کیا پتہ ہے’’ اقبال نے نرم لہجے میں کہا میرا دیہاتوں میں آنا جانا ہے…… مجھے پتہ ہے بیچارے چوہدریوں کا اٹھارہ گریڈ کے اسسٹنٹ کمشنر کو دیوتا اور چودہ گریڈ کا تھانے دار ان کا مائی باپ اور غریبوں کے لئے یہ چھوٹے چوہدری خدا ہوتے ہیں اور یہی حال بڑے چوہدریوں کا اوپر کے لیول پر ہوتا ہے’’۔
چوہدری لیاقت نے اسی طرح منہ دوسری طرف کرکے زور زور سے بولتے ہوئے کہا اقبال اپنے یہ فلسفے چھوڑو‘‘ یہ بتاؤ جو تمہارے چیئرمین نے یہ جو مذاق کیا ہے اس کا کیا مطلب ہے’’ اقبال کہنے لگا ‘‘چوہدری مذاق نہیں اس نے پوری نیک نیتی سے یہ بات کی ہے’’۔
جب سڑک پر بیٹھے ہوئے یہ تین پاکستانی آپس میں باتیں کرتے تھے تو کنٹونمنٹ بورڈ اسپتال کے ساتھ والے کمپاؤنڈ میں لگے ناریل اور نیم کے درخت اور سیلون کے بالکل سامنے بوڑھا پلکن کا درخت اور اس کے سامنے سڑک کے پار قدرے کم بوڑھا پلکن کا درخت اور بہت بوڑھا ہوتا ہوا پلکن کا درخت بڑے دھیان سے یہ گفتگو سنتے تھے۔ پلکن کے بوڑھے درخت نے کم بوڑھے ہوتے پلکن ، ناریل اور نیم کے درخت نے جب اقبال کی یہ بات سنی…… تو بوڑھا درخت اپنے ساتھیوں سے یہ کہنے لگا کہ ‘‘یہ اقبال بھی کتنا مورکھ ہے اسے یہ نہیں پتا کہ پاکستان کا وزیرِ اعظم یا صدر غیر مسلم نہیں ہو سکتا اور یہ دو شقیں آئین پاکستان میں لکھی ہوئی ہیں اور یہ آئین بنانے کا سہرا بلاول کے نانا کے سر ہے اور وہ تاریخ سماجی معاملات کا ادراک اپنے نواسے اور داماد سے زیادہ رکھتا تھا اور 10اپریل1973ء کو جب یہ آئین اسمبلی سے پاس ہوا تو اس اسمبلی میں اور بھی بڑے بڑے سمجھ بوجھ والے سیاسی لوگ تشریف فرما تھے جنہیں یہ بھی پتہ تھا کہ اس ملک کے غیر مسلم اس وطن کے ہزاروں سال سے بچے ہیں اور آزادی ہند میں بھگت سنگھ ، روپلو کوہلی جیسے آزادی کے متوالوں کی اولادیں ہیں…… قیام پاکستان میں جوگندرناتھ منڈل، سردار گیانی ہری سنگھ، رلیا رام برادرز ایس پی سنگھا ، لالہ کوٹورام، تھیوڈور فیلوس، سوامی دھرما تیرتھ جیسے دیگر ہزاروں قیام پاکستان کی جدوجہد میں قائد کے ساتھیوں کے بچے ہیں…… پھر یہ ان کی اولادیں بھی ہیں جنہوں نے اس ملک و معاشرے کو بنانے سنوارنے کی جدوجہد کرتے کبھی اپنے آپ کو غیر نہ جانا مثلاً ڈاکٹر ایچ ایم دریگو، جسٹس کرنیلیس ، ارد شیرکاوس جی، راجہ تری دیو، مارٹن سموئیل برق، سوبھو گیان چندانی، جسٹس بھگوان داس، سلیم رضا ، ڈاکٹر ڈینس ایزک جیسے لاکھوں اور غیر مسلمان پاکستانیوں جو شب و روز اس ملک کی تعمیر و ترقی تشکیل و ترقی کے لئے اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں…… کیا اس وقت کے اسمبلی کے ممبران کو یہ پتہ نہیں تھا۔ راجہ تری دیو جیسے پاکستانی تو اس اسمبلی میں ان کے ساتھ بیٹھے تھے…… جب آئین کی دو شقوں سے ان لاکھوں دھرتی جائے پاکستانیوں کو لکھ کر پرائے ہونے کی سند وی جا رہی تھی شائد ہمارا سماج اس وقت بھی اور آج بھی اس نہج پر تو نہیں پہنچا جہاں کی مثالیں دیتے ہم تھکتے نہیں اور اگلی کئی دھائیوں بلکہ صدیوں تک ایسے آثار بھی نظر نہیں آتے کہ وہ کسی غیر مسلمان کو ان عہدوں پر دیکھ سکے…… لیکن لکھ کر ان دھرتی کے بچوں کی دل آزاری کرنے کی کیا ضرورت تھی ہاں اگر کسی خاص گروہ سے کوئی شکایت یا شدید اختلاف ہے تو اسے کھول کر لکھتے نہ کہ تقریباً78لاکھ اس دھرتی کے غیر مسلم بچوں کی آزاری کا سبب بنتے لہٰذا بلاول جیسے سیاسی لیڈروں کی نوروز‘‘ بیساکھی’’ کرسمس، ایسٹر ، دیوالی و دیگر اس طرح کے تہواروں پر اس طرح کی لولو پھتیاں (جھوٹی سچی باتیں) لگانے کی بجائے پہلے یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے بڑوں سے غلطی ہوئی تھی پھر ہی درستگی ہو سکتی ہے اور یہ ممکن نہیں…… لہٰذا اس طرح کا جذباتی استحصال کرنے والے لفظ استعمال کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ ایسے موقعوں پر ان شہداء کے وارثوں کے کیا جذبات ہوتے ہیں جنہوں نے ا پنی جانیں عرضِ پاک پر قربان کی’’ ناریل جو کہ عموما پلکن کے بوڑھے درخت کو کھسکا ہوا بابا درخت سمجھ کر کبھی مزے لیتا اور کبھی نظر انداز کرتا اس پہلو کا سن کر وہ بھی پلکن بابے کی بات دھیان سے سنتا تھا ……پیلکن بابا دفاع پاکستان کے لئے غیر مسلمان پاکستانیوں کے کردار اور خاص کر مسیحی محافظوں کی دفاع پاکستان کے لئے جان دینے کی ایمان افروز داستانوں کا ذکر کرتا تو جذباتی ہو جاتا آج بھی اقبال ، لیاقت اور اکرام خان کی گفتگو نے اسے جذباتی کر دیا اور برصغیر کی ہزاروں سالہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اس بوڑھے رُکھ کو ہزاروں سال سے اس دھرتی کے ان بچوں کے ذلتوں کے سفر یاد آنے کے کس طرح ہمیشہ انہیں دھرم کے نام سے روندا گیا اور وہی ہزاروں سال پرانا قصہ تم شودر ہو تم یہ نہیں کر سکتے تم ایسے نہیں رہ سکتے اور آج تم چاہے دھرتی کے بچے ہو آزادی کے سپاہی اور روپلو کوہلی اور بھگت سنگھ کی طرح ہنس کر پھانسی کے پھندوں پر جھول جانے والوں کی اولادیں ہو۔
قیامِ پاکستان کی خاطر سردار گیانی ہری سنگھ کی طرح اپنے خاندان کے 129افراد قربان کرواکر قائد اعظم کی آواز پر پاکستان میں بسنے والوں کے وارث ہو چاہے سنگھا صاحب کی طرح سینے پر گولی کھا کر پاکستان بنانے کا عزم کرنے والوں کی اولاد ہو یا تعمیرِ پاکستان کے ہر شعبے میں اپنا حصہ اپنے جثے سے بڑھ کر ڈالنے والے غیر مسلمان پاکستانیوں کی اولاد ہو۔ اپنی ریاست اپنا قبیلہ اپنے ماں باپ چھوڑنے والے راجہ تری دیو کے ہم مذہب یا1978 ء کو یہ جانتے بوجھتے کہ 1973ء میں جس شخص کی قیادت میں آئین میں یہ دو شقیں ڈالی گئی ہیں پھر بھی اس دھرتی ماں کے بہتر مستقبل کی خاطر اسی شخص کی خاطر یعقوب پرویز کھوکھر جیسا آشفتہ سر خود سوزی کرتا ہے اور پانچ اکتوبر 1978ء کو وہ قرض اتارتا ہے جو واقعی اس پر واجب نہیں تھا۔ کیونکہ جن پر واجب تھا انہوں نے اور ان کی اولادوں نے تو اس قوم کی رگوں سے اپنے ایک ایک دن کی جیل اور ایک ایک کوڑے اور اپنی ایک ایک لاش کو اربوں کھربوں میں بیچ کر حساب برابر کر دیا بلکہ اپنی آنے والی کئی نسلوں کے لئے مال و دولت کے انبار لگوانے کی کوشش میں وطن عزیز کے کروڑوں شہریوں کی آنے والی کئی کئی نسلوں سے پیشگی خراج وصول کیا۔
بوڑھے پلکن کی یہ سوچ کر روتے ہوئے گگی بند جاتی جب گوجرانوالہ کی پانچ اکتوبر کی ایک ٹھٹھرتی شب میں پولیس کے پہرے میں جوان بیٹے کے لاشے کو دفناتے ہوئے یعقوب عنائت کھوکھر کو جو کہ بحکم سرکار اکیلا اپنے جوان بیٹے یعقوب پرویز کھوکھر کے لاشے کو دفنانے آیا تھا کو پولیس والوں نے یہ کہا کہ‘‘ بابا تم نے جوان بیٹا پال پوس کر بے حس دیوتوں کے چرنوں میں قربان کر دیا۔ بوڑھا عنائت کھوکھر دل میں سوچتا ہے سرکاری تنخواہ دار کیا جانے میرے بیٹے نے اس وطن میں جمہوری قدروں اور جمہوروں کو ذلتوں سے نکالنے کے لئے جان دی ہے لیکن کچھ سالوں بعدہی اس بوڑھے کی ساری غلط فہمی دور ہو گئی جب اس کا دکھ روز دوگنا ہوتا جب وہ جمہوریت کے نام پر چند گھرانوں کو لاکھوں سے کروڑ اور پھر ارب سے کھرب پتی ہوتے دیکھتا پھر وہ یہ آس اُمید لئے اس دنیا سے رخصت ہوا کہ کبھی غریبوں کے دن بھی بدلیں گے لیکن آج چالیس سال گزرنے کے بعد بھی اس کے دوسرے دونوں بیٹے گوجرانوالہ کے اسی گھر میں غربت سے جنگ لڑتے ہیں اور اگر کبھی کوئی بھولے بسرے ان سے ان کے بھائی کی قربانی کی بات کرے تو اس سے جان چھڑاتے ہیں۔ حالانکہ بھٹو کے لئے خود سوزی کرنے والے وحید قریشی، پرویز یعقوب کھوکھر، عزیز ملک، عبدالرشید عاجز، منور حسین اور عبدالعزیز جیسے بھٹو کی خاطر جل مرنے والے اپنے پروانوں کیلئے بھٹو نے جیل سے اپنے وارثوں کو کہا تھا‘‘ جب کبھی تم میری یادگار بناؤ تو اس وقت ان شہدائے اکتوبر کو مت بھولنا جنہوں نے خود کو جلا ڈالا’’ فرخ سہیل گوندی کی کتاب ‘‘میرا لہو’’ لیکن پچھلے 40سالوں میں بھٹو کی یاد گاریں تو کئی بنی لیکن ان آشفتہ سروں کے جیتے جاگتے بیوی، بچے، ماں ، باپ، بہن، بھائی کچی قبروں کی طرح ڈھے گئے۔
اس طرح کے ہزاروں پاکستانیوں کی اولادیں اس ملک کے صدر، وزیر اعظم کے عہدے کے کاغذات داخل کرنے کے اہل نہیں اور میاں (گری کے بوٹے) ناریل کے درخت کیسے کیسے ہوس زور اقتدار کے مارے ہوئے ذہنی مریض جن کے اجداد آزادی کے سپاہیوں کے سودے کرتے رہے جو ٹکے ٹکے پر آج بھی عرض پاک کے مفادات کے سودے وٹے کرتے ہیں ان کی اولادیں ان عہدوں کی اہل ہیں یہ بیچارے نہیں’’ پھر نیم کا درخت جو کہ طبعی حکمت اور عقلی حکمت کا بھی استعمارہ اور بوڑھے پلکن کے درخت سے پوچھتا ‘‘دفاعِ پاکستان میں جانوں کے نذرانے دینے کی یہ اکرام کیا باتیں کرتا ہے’’۔ اے بوڑھے دانش مند رکھ تم جو لوگوں کے ماضی اور حال کو دیکھ کر ان کے مستقبل کی پیشن گوئیاں کرتے ہو یہ کیا ماجرہ بیان کرتا ہے محمد اکرام۔‘‘ بوڑھے رکھ نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا’’ جس طرح یہ غیر مسلم پاکستانی دھرتی کے بچے آزادی ہند کے سپاہی، قیام اور تعمیرِ پاکستان میں میں شاندار کردار کے حامل ہیں اس طرح ان کے اجداد اور موجودہ نسلیں خاص کر پاکستانی مسیحی تو دفاعِ پاکستان میں بہت ہی شاندار ورثہ رکھتے ہیں اکرام جس کتاب کا حوالہ دیتا ہے وہ اسی موضوع پر ہے۔1948 کے جہاد کشمیر میں بھی مسیحیوں کا خون شامل تھا۔ اسی طرح 1965ء کے معرکے میں بھی مسیحیوں نے خون بھی بہایا جانیں بھی قربان کی ان میں سے ایک سیالکوٹ میں دفن نائیک آر سی جیمزجس کی شہادت کے وقت اس کے بچے ٹیرنس جیمز تقریباً 5 سال ،جوزف جیمز تقریباً3 سال اور رچرڈ جیمز تقریباً ڈیڑھ سال کے تھے۔ جبکہ اُن کی بیٹی کیتھلین جیمز اُن کی شہادت کے تقریباً ایک مہینے بعد پیدا ہوئی اسی طرح کی کئی قربانیاں وطن عزیز کے لئے ان غیر مسلمان پاکستانیوں نے دی ہیں۔ بہادری اور وطن پرستی کی کئی داستانیں اپنے لہو سے لکھی ہیں۔ یقیناً اہلِ لاہور 1971ء میں جہاں کئی دل دہلا دینے والی خبریں مشرقی پاکستان موجودہ بنگلا دیش کے محاذ سے آتی تھی ابھی نہیں بھولے ہوں گے ان میں سے ایک خبرجو 13دسمبر 1971ء کو لاہور کے ایک مسیحی خاندان جس گھر کے چار مرد مختلف محازوں پر دشمن سے نبرد آزما تھے۔ اس خاندان کے 19سالہ افسر لیفٹیننٹ ڈینئل عطارد کی شہادت کی خبر آئی تھی جس نے پورے لاہور میں کہرام مچا دیا تھا۔ 6دسمبر کو پیٹرکرسٹی نے اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے اور اس سے دو بڑی بیٹیاں یتیم چھوڑ کر وطن پر قربان ہو گیا تھا۔ مارون لیسلے مڈل کوٹ اپنی نو سالہ بیٹی اور جوان سال بیوہ جو پشاور میں اس کی شہادت کے کئی سال بعد بھی اس کی راہ تکتی تھی ان کو تنہا چھوڑ کر وطن پر قربان ہو گیا تھا۔ اس طرح جب 1973ء کے آئین میں یہ شقیں لکھنے کی اجازت دی جا رہی تھی تواس وقت تک کئی غیر مسلم پاکستانی اور 1947ء سے لے کر 12اپریل1973 ء کو تقریباً بیس بائیس افواج پاکستان کے مسیحی اپنی دھرتی ماں پر جانیں قربان کر چکے تھے۔ کم بوڑھا پلکن کا درخت بہت بوڑھے درخت سے پوچھتا کہ اے صدیوں پیچھے کا علم اور سینکڑوں سال آگے کا حال جاننے والے بوڑھے برگزیدہ درخت جو یہ ان شقوں کو پاس کر رہے تھے۔ کیا وہ دھرتی کے ان بچوں کی دھرتی سے اس نسبت اور کردار سے بے بہرہ تھے یا لاپروائی اور بے حسی تھی؟ بوڑھا درخت ایک لمبی آہ بھر کر اپنے گھنے پتوں سے کراچی کی آلودہ فضا میں صبح صبح اپنی تروتازہ آکسیجن چھوڑتا کہتا ‘‘نہیں سب ادراک تھا سب پڑھے لکھے تاریخ سے آشنا اور انسانی جذبات و احساسات کا صحیح فہم رکھنے والے لوگ تھے بس کچھ لوگوں کی ہٹ دھرمی اور کچھ کی مصلحت پسندی یا اس سے کوئی سخت لفظ بھی سمجھ لو یا پھر ایک خاص مذہبی گروہ پر غصے میں دوسرے بہت سو کو بھی رگڑ دیا گیا یا پھر شائد وہ سارے سیاسی لوگ تھے رہنما نہیں سیاسی لوگ لوگوں کے پیچھے چلتے ہیں اور راہنما لوگوں کو بتاتے ہیں تمہارے لئے صحیح کیا ہے،،۔نیم جو صبح کے تازہ سورج کی کرنوں سے اپنے سبز پتوں کو سرخی مائل سنہری ہوتا دیکھتی اور اپنے اس نیم خوابیدہ کندن ہوتے حسن پراتراتی تھی اور جوش جذبات میں بولی یہ ان خاک نشین پاکستانیوں کی مذہبی شناخت پر جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں یہ ان کی اس قابلِ فخر شناخت کی بات کیوں نہیں کرتے مثلاً پارسی، سکھ، مسیحی، ہندو وغیرہ غیر مسلم پاکستانیوں کے گروہوں کا کوئی نہ کوئی نمائندہ تو ہوتا ہے۔ بوڑھا پلکن کا درخت توجہ سے ہی نیم جو کہ پوری حکیم اور عقل و حکمت کی بھی نیم حکیم کڑوی دیوی تھی کو غور سے دیکھتا اور پھر بولا‘‘ بی بی نیم یہ لمبی رام کہانی ہے 1970ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی سیٹ کوئی غیر مسلمان مغربی پاکستان سے نہیں جیتا تھا مشرقی پاکستان سے راجہ تری دیو جیت کر مغربی پاکستان موجودہ پاکستان کی اسمبلی کا ممبر بنا۔ اس کی ہم مذہب عوام بنگلا دیش رہ گئی اور وہ اپنے اصولی موقف پر پاکستان آ گیا گو کہ اس کی بوڑھی ماں نے بہت منتیں کی بیٹا واپس آ جاؤ لیکن کہتے ہیں جن لوگوں نے اسے صدر پاکستان بنانے کا عندیہ دیا تھا انہوں نے ہی اس قائداعظم کے پاکستان کے حامی سے مسلمان پاکستانیوں کے متفقہ آئین پر دستخط بھی کروا لئے باقی مجھے یاد نہیں پڑھتا کوئی غیر مسلمان پاکستانی اس اسمبلی کا ممبر تھا ہاں 21نومبر1975ء کو جب پاکستانی مسلمانوں کے اس متفقہ آئین میں چوتھی ترمیم سے 6سیٹیں غیر مسلمان پاکستانیوں کے لئے بڑھائی گئی اور حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے اپنے جان پہچان کے چھ غیر مسلمان پاکستانی بھی ممبر قومی اسمبلی بنا لئے لیکن یہ شق کو 1973ء کو آئین میں ڈالی گئی تھی بعد میں آنے والے بھی بیچارے اپنی دیہاڑیاں ہی پکی کرتے رہے اور کرتے بھی کیا دن بدن حالات ایسے ہوتے گئے کہ لوگ کسی بھی طرح کے انسانی حقوق کی بات کرنا ہی بھول گئے کیونکہ روشن خیالی انسانی حقوق کو وطن دشمنی اور مذہبی تناؤ کا استعمارہ بنا دیا گیا لہٰذا پھر جو بھی ان غیر مسلم دھرتی کے بچوں کے نام پر ایوانوں میں پہنچا بس اپنے مفادات وقتی شوشا بڑا تیر مارا تو کسی سوئے ہوئے ضمیر کے مسلمان کو اپنا سوتا ہوا پارٹنر بنا کر شراب خانے کا لائسنس لے لیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیر مسلمان پاکستانیوں کے لئے شراب پینے کے حقوق حاصل کرکے شراب ان کو بیچ کر خوب مال بنایا جنہیں بیچتا یہ ام الخبائث منع بلکہ حرام ہے اور مسیحی ممبران کا تو یہ حال ہے کہ وہ شراب خانوں کے ساتھ دوسرا کام یہ بھی کرتے ہیں کہ دوچار پانچ سال اپنی ممبری کے دوران بال بچے دیار غیر سیٹ کئے جیسے ہی ممبری گئی یہ بھی پھُر کرکے دیار غیراُڑ گئے اور پھر وہاں بیٹھ کر پاکستانی مسیحیوں کے حقوق کے لئے آہیں بھر بھر کے پیٹ اور جیبیں بھرنے لگے اور ساتھ اپنے مذہبی اداروں کے زیر انتظام مہنگی جائیدادیں بیچنے میں بھی سہولت کاری کا نیک کام کرتے ہیں۔
بوڑھا درخت نیم کے درخت کو دکھ سے کہتا بچے اگر یہ ممبران کہیں کسی جوگے ہوتے تو پچھلے 70سالوں میں مسیحیوں کی شناخت پر جو 3سینیٹر43ممبر قومی اسمبلی پنجاب اسمبلی میں 62، سندھ اسمبلی میں22بلوچستان اسمبلی میں 9کے پی کے میں بھی9سے 10 اس طرح صرف مسیحیوں کی شناخت پر یہ تقریباً 147 کے قریب ممبران ہیں تو یقیناً ہندوں کی شناخت پر بھی اتنے ہی پہنچے ہوں گے ایوانوں میں دیگر اقلیتوں کے بھی کوئی بیس لگا لو تو یہ اب تک تقریباً سوا تین سو(325) کے قریب غیر مسلم ممبران سینیٹ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے ہیں اب اگر یہ مفاد پرست چند ایک چھوڑ کر کسی قابل ہوتے تو یہ حال ہوتا ان کے ان غریب ہم مذہبوں کا جن کی شناخت پر یہ ایوانوں میں پہنچتے ہیں پھر پلکن مزید کہتا ۔
بوڑھے درخت نے یہ سب نہایت ہی دلگیر لہجے میں کہا پھر اچانک اس کے لہجے میں ایک تلخ سی شگفتگی آئی اور اس نے دوسرے رکھوں سے کہا تمہیں ایک لطیفہ سناؤں کل تھوڑی دیر کے لئے ٹریفک کم ہوتے ہی مجھے جھپکی سی آئی اور میری مستقبل بینی نے مجھے2018ء دکھایا ادھر ٹریفک جام کا سین چل رہا تھا ایک اسمارٹ سا نوجوان عین میرے سائے میں اپنی سرخ بڑی سی کار میں اپنے دوستوں کے ساتھ مسیحیوں کی پسماندگیوں پر بات کرتے ہوئے وہ اپنے دوستوں سے بڑے دکھ سے کہہ رہا تھا ‘‘چند دن پہلے میں کسی محفل تھا وہاں مسیحیوں کا ایک نو منتخب اسمبلی ممبر اپنے ذاتی دوستوں کی محفل میں کہتا تھا موقع ملا ہے تو سب سے پہلے ایک ضروری کام کر نا ہے دوستوں نے اشتیاق سے پوچھا کون سا ایسا کمیونٹی کے وسیع تر مفاد کا کام ہے جو یہ مخلص ایک پارٹی رہنما کی پسند سے مسیحیوں کی شناخت پر چنا ہوا ایم پی اے کرنا چاہتا ہے تو اس نے جواب دیا یار سب سے پہلے شراب خانہ کھول کر مالی طور پر مستحکم ہونا ہے۔ کچھ تو یہ سن کر شاک میں آ گئے اور باقی شغل کرنے لگے’’ رکھ دکھ سے کہتا یہ ہے ان بدقسمتوں کی پستیوں کا المیہ۔
بی بی نیم اور میاں گری (ناریل کا درخت )ماضی کو چھوڑو اس وقت آج 2013 ء سے 2018 ء تک کی اسمبلی میں سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسیحی شناخت پر 22ممبران تقریباً اٹھارہ بیس ہندو شناخت والے 2تین سکھ ایک دو پارسی اس طرح تقریباً 45غیر مسلمان پاکستانی ممبران ہیں یہ بیچارے کہیں اکٹھے بیٹھ کر یہ تک تو کہہ نہیں سکے کہ بھائی خدارا ہمیں ہمارے تہواروں پر اس طرح کے دل خوش کرنے والے بیان دینے کی بجائے اسمبلی میں ترمیم کے لئے مسودہ کیوں داخل نہیں کرواتے کوئی بات نہیں پاس نہیں ہو گا لیکن اس دھرتی کے ان غیر مسلم بچوں کو یہ تو پتہ چل جائے گا کہ کون ہمیں دل سے اپنا بھائی اور اس ملک کا برابر کا شہری سمجھتا ہے اور کون صرف دن دیہاڑوں اور تہواروں پر اپنے کمیوں کی دل پشوری کرتا ہے اور اندر سے زیادہ باہر والوں کی دل پشوری کرتا ہے کہ اب کی باری مجھے دنیا میں بڑا روشن خیال ہواور تم نے کبھی کسی بھگت سنگھ، روپلو کوہلی، یعقوب پرویز کھوکھر، سردار گیانی پری سنگھ، مارون لیسلے مڈل کوٹ، ڈینئل عطارد و دیگر ایسے ہی عظیم شہداء کے وارثوں سے کبھی سنا ہے کہ وہ اپنی اس وارثت اور شناخت کی بات کریں یہ بیچارے دیہاڑی دار نہ پڑھتے ہیں نہ سوچتے ہیں ان کو اس طرح کی باتوں سے کیا لینا دینا یہ تو بس اپنے آقاؤں کے جمہوری غلام ہوتے ہیں اور کبھی اگر سالوں بعد انہیں اسمبلیوں میں بولنے کا موقع ملے تو اپنے اپنے جمہوری آقاؤں کی تعریفوں کے وہ پل باندھتے ہیں کہ خدا کی پناہ اور ہاں میری مستقبل بینی مجھے بتاتی ہے کہ کچھ عرصے بعد روپلو کوہلی کی پڑپوتی بھی سینیٹ آف پاکستان میں پہنچنے والی ہے دیکھ لینا وہ بھی بس کچھ لوگوں کے لئے ایک پوسٹر ہو گی جو کچھ دن میڈیا پر چلے گا واہ واہ ہوگی اور بس اور ہاں یہ جمہوری غلام کسی کام کے ہوتے تو یہ چند قدم پر ایمپریس مارکیٹ ہے جہاں1857ء کی جنگِ عظیم کے شہید رام دین پانڈے اور اس کے ساتھیوں نے آزادی ہند کے لئے جانیں دی تھیں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک تقریباً ڈیڑھ سو ہندو سینیٹ و قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران بنے ہیں کبھی کسی کو توفیق ہوئی کہ وہ14ستمبر کو ان شہداء کی یاد میں چھوٹی موٹی تقریب ہی کر لیں کتنی بڑی شناخت ہے کہ پاکستانی ہندؤں کی روپلو کوہلی کی برسی بھی مسلمان قوم پرست سندھی ہی مناتے ہیں کبھی پاکستانی ہندؤ لیڈروں سے بھی ذکر سنا ہے اس کا! اسی طرح لاہور کے مسلمان بھگت سنگھ کو یاد کرتے ہیں کبھی سکھوں یا غیر مسلمانوں کے نام پر اقتدار کے ایوانوں تک بیٹھنے والوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ایسی شناخت کو اُجاگر کریں۔ یہ اکرام جس کتاب کی بات کرتا ہے اور اسے علم و ادب کے معیار سے کم گردانتا اور مقصد اور جنون کو سراہتا ہے یہ جنون مجھے تحریکِ شناخت میں ڈھلتا نظر آتا ہے جو اس دھرتی کے ان ہزاروں سال سے محرومیوں اور معاشرتی رویوں کے وار سہتے خاک نشینوں کو سوچ کی نئی جہد دے گا اور آنے والے دوچار سالوں میں ہی یہ پاکستانی مسیحیوں کی شناخت کے قابلِ فخر کرداروں کا بڑے منظم طریقے سے انبار لگا دے گا اور ساتھ ہی اس دھرتی کے دوسرے غیر مسلمان بچوں کو بھی انہی خطوط پر کام کرنے کا مشورہ دے گا لیکن آفرین ہے ان مسیحیوں پر۔ غیر مسلم غیر مسیحی پاکستانی تو اس کی آواز پر کان نہیں دھرے گا۔یہ تو سمجھ آتا ہے لیکن عام مسیحیوں کو چھوڑ کر سماجی، سیاسی و مذہبی اداروں کے کرتا دھرتا تعریف کے ڈونگرے تو خوب برسائیں گے اور جہاں کہیں ضرورت پڑی ان شناختی ،تاریخی دستاویزی کُتب کے ثبوت کو اپنا بھی گردانے گے اور اپنی ملکیت اور شناخت بھی قرار دیں گے اور صاحبِ اقتدار لوگوں کو بطور تحفے دیں گے اور ان کُتب کے مندرجات پرمبنی معلومات کو غلط توڑ مروڑ کر اپنے الو بھی سیدھے کریں گے۔ لیکن اس خود آگاہی کو پھیلانے والے مسیحیوں کے حقیقی محسنوں سے کنی کترائیں گے لیکن یہ فکر پھیلانے والوں کے ساتھ حیران کن طور پر اس ملک کے روشن خیال و محب وطن شہری بڑی تعداد میں شریک ہوں گے اور یہ فکری تحریک ‘‘تحریکِ شناخت’’ ان تقریباً 78 لاکھ غیر مسلمان پاکستانیوں کو بالعموم اور تقریباً چونتیس لاکھ مسیحی پاکستانیوں کو بالخصوص ایک فخر دے گی اور اسی فخر سے اُمید کی روشنی پھوٹے گی’’ فضا میں یہ رکھ جب غیر مسلم پاکستانیوں کے نوحے پڑھتے اور مرثیہ گوئی کرتے تھے اور بوڑھا رکھ ان نوحوں اور مرثیوں سے امید سحر کی نوید سناتا تھا؟ تو نیچے سڑک پر چاچا اکرام نے پوچھا اقبال تمہارا بھائی کیا کر رہا ہے آج کل؟۔ اقبال چاچے اکرام کا یہ سوال سن کر ذراجھینپ سا گیا اور کہنے لگا چاچا اسے ابے نے کراچی کینٹ میں بھرتی کروا دیا ہے چاچے نے بے تابی سے پوچھا کلرک کروایا ہے؟ اقبال نے زہریلے لہجے میں تلخی سے کہا ‘‘چاچا میرے بھائی نے بارہویں کے بعد بھی کنٹونمنٹ بورڈ میں صفائی والوں میں نام لکھوا دیا ہے میں نے تو ابے کو کہا تھا لیکن ابا نہیں مانا کہنے لگا پکی نوکری ہے ’’چاچے اکرام کو تو جیسے یہ سنتے ہی آگ لگ گئی غصے سے بولا‘‘ اقبال مسیح کیا کرتے ہو تم لوگ یار کوئی کام برا نہیں لیکن یہ تو زیادتی ہے بارہ جماعت پاس صفائی والا حد ہے کوئی بھوکے مر رہے ہو’’؟ چاچا کیا کریں؟ نوکری نہیں مل رہی تھی ‘‘چاچے اکرام نے کہا اپنے باپ کو کہنا مجھے نہ ملے کچھ دن…… ورنہ بڑی بے عزتی کروں گا غضب خدا کا اتنا بڑا شہر ہزاروں مواقع بس تم لوگ اندر سے مر گئے ہو کوشش ہی نہیں کرتے چار دن بیکار رہ جاتا تو کیا ہوتا؟ اور اب کیا کہوں میں تمہارے ان مذہبی لوگوں کو معجزوں کے اشتہار بانٹتے ہیں لیکن تمہیں یہ نہیں بتاتے کہ بارہ پڑھا ہوا بچہ کیا کیا کر سکتا ہے اور اس بچے کی ایسی کی تیسی جو مان گیا اس عمر میں ہی انسان آسمانوں پرکمندیں ڈالتے ہیں،،چاچا ابا کہہ رہا تھا کہیں نشے پر نہ لگ جائے یہ سن کر اکرم نے پھنکارتے ہوئے کہا اب لگے گا نشے پر اب گم کرے گا…… اپنی شرمندگی کو اپنی مدہوشی میں ……جب سارا دن رہے گا ان کے ساتھ جن کرموں جلوں نے اپنا مقدر بنا لیا ہے نشے اور صفائی کے کام کو اقبال فوراً بولا نہیں چاچا کام پر نہیں جائے گا آدھے پیسے سپروائزر لے گا اور اسے آدھے گھر بیٹھے ملیں گے کبھی خدا نخواستہ کوئی بڑی انسپکشن ہوئی تو جائے گا۔ بس جس طرح کا پتر رویہ ہے نا ہمارا ان صفائی والوں سے اسی مہینے پندرہ دن والی انسپکشن ہی مار دے گی…… اس کی روح کو جوان بچہ ہے ……کسی کام کا نہیں رہے گا۔ چوہدری لیاقت خاموش اور افسردہ تھا اس نے یہ رویے سہہ تھے اسے اندازہ تھا پہلے پہل جب آپ ذہنی طور پر ان رویوں کے لئے تیار نہ ہوں تو کتنی تکلیف دیتے ہیں یہ لوگوں کے حقارت بھرے رویے آپ کو ان رویوں اور ہزاروں سال سے برصغیر کے واسیوں کی نس نس میں بسے اس ذات پات اور چھوت چھات کے سماج میں بسنے والے لوگوں کے معاشرتی رویوں نے اس پیشے کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے اس معاشرے کی اجتماعی ذہنی کیفیت ایسی کر دی ہے۔ ہزاروں سال پہلے دھرم کے نام پر اس وقت کے مذہبی ٹھیکے داروں نے سماج کی بنیاد ایسی رکھ کرجنہیں شودر اور کمی کمین بنایا آج کی اشرافیہ نے انکا اتنا معاشی استحصال کیا ہے کہ مذہب بدلنے کے بعد بھی مذہبی سے وہ معاشی و معاشرتی شودر ہو گئے ذہنی بیماریوں کا یہ حال ہو گیا ہے پاکستانیوں شہریوں کے نوکر اور پاکستانی شہریوں کی خدمت کا حلف اٹھانے والے بڑے اداروں کے فارغ التحصیل پڑھے لکھے پاکستانی شہریوں کے نوکر اور پاکستانی شہریوں کی خدمت کا حلف اٹھانے والے کا حلف اٹھانے کے بعد شاہوں کی نوکری کرتے کرتے اب نوکر شاہی کہلاتے ہیں۔ وہ سرکاری اشتہاروں میں بڑے دھڑلے سے لکھتے ہیں ہمیں صفائی کے کام کیلئے غیر مسلم چاہیے یعنی وہ مساوات کی تعلیم کی نفی کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں اسلامی ریاست کو صاف غیر مسلمان ہی رکھیں گے ہم تو گند ہی ڈالیں گے ہر طرح کااور غیر مسیحی تو یقیناً ایک خاص رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن سفید پوش مسیحی بھی ان خاک نشینوں کے ساتھ حقارت ہی برتتے ہیں بلکہ اصل شرمندگی تو اقبال کے بھائی جیسے لوگوں کو اپنے لوگوں سے ہوتی ہے لیاقت بے چینی محسوس کر رہا تھا جب وہ گاؤں میں باپ کے خرچے پرسر پر پگ باندھ کر مونچھوں کو تاؤ دیتا کندھے پر بندوق لٹکائے گھومتا تھا تو وہ شہر سے جانے والے اپنے غریب رشتہ داروں کو حقارت سے پوچھا کرتا تھا کہ ‘‘ہاں وائی شہر وچ کی کردے او’’ ہاں بھائی شہر میں کیا کرتے ہو تو وہ بیچارے شرمندگی سے بغلیں جھانکنے لگتے اور پھر جان چھڑانے کے لئے کہہ دیتے (پا لیاقت اسی او تھے سُکا کم کرنے آں) بھائی لیاقت ہم وہاں خشک کام کرتے ہیں ذات پات کے نظام کے ساتھ ہی برصغیر میں لوگوں کے ذہنوں میں ایسا زہر بھر دیا ہے خاص کر صفائی کے کام کو تو ایسی گالی بنا دیا ہے کہ جہاں جن آبادیوں میں اس پیشے سے منسلک زیادہ لوگ بستے ہیں وہاں جو نالیاں گٹر کھولنے کی بجائے کسی دفتر یا گھر میں صفائی کا کام کرتے ہیں وہ اپنی کلاس زرہ بہتر بتانے کے لئے کہتے ہیں ہم (سکا کم ) خشک کام کرتے ہیں چوہدری اپنی کمینی فطرت کی وجہ سے جب اپنے کسی غریب رشتے دار سے یہ کہلا لیتا تو وہ پھر ایک کمینی مسکراہٹ سے کہتا( اوے کھیتی باڑی چھڈ کے ای کی کرن لگے او) یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر یہ کیا کر رہے ہوپھر باپ کی موت اور چوہدری کی شاہ خرچیوں نے جب تھوڑی بہت زمین جو باپ کے سلیقے کی وجہ سے بڑا رقبہ لگتی تھی جلدی ہی بکنا شروع ہوئی اور پانچ سالوں میں ہی تمام بک گئی چوہدری کی شادی باپ کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی اب جب بال بچے بھوکے مرنے لگے تو پہلے گاؤں میں محنت مزدوری جس سے ظاہر ہے گھر چلنا مشکل تھا پھر کراچی آیا اور بھوک نے جلد ہی ساری چوہدراہٹ نکال دی اور پھر اس نے بھی کھیتی باڑی چھوڑ کر (سکا کم) خشک کام جو اکثر گیلا بھی ہو جاتا شروع کیا اس لئے اس نے یہ وار سہے بھی تھے اور یہ وار کئے بھی تھے لہٰذا وہ اس موضوع سے کنی کتراتا تھا کبھی جس موضوع پر وہ مزے لے لے کر بات کرتا تھا اب کوئی اس پر سنجیدگی سے بات کرتا تو اسے لگتا جیسے یہ شخص اسے گالیاں دے رہا ہے اور اسے اپنے آپ پر رحم آنے لگتا اور اس کا دل کرتا وہ دھاڑیں مار مار کرروئے اسی کیفیت میں اسے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے چاچے سے پوچھا چاچا جس بندے نے یہ کتاب لکھی ہے وہ ہمارا بندہ ہے یا تمہارابندہ ہے ؟……چاچے نے ہنس کر کہا ‘‘بندے تو سارے رب کے ہی ہوتے ہیں لیکن یہ تمہارا ہی لگتا ہے میں نے اپنے بیٹے سے اس کا گوگل پروفائل نکلوایا تھا’’ اب لیاقت کو بات بڑھانے کا موقع ملا اور اس موضوع پر فرار کی بھی راہ نظر آئی جس پر بات کرکے وہ دونوں بے خبری میں لیاقت کی روح کو کانٹوں پر گھسیٹتے تھے لیاقت نے فوراً کہا ‘‘چاچا آخر کسی نے ہمارے لئے کچھ کیا ورنہ ٹی وی، ریڈیو، اخبار میں تو ان باتوں کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا’’۔ چاچے نے کہا ‘‘اوے چوہدری اس بندے نے اظہارِ تشکر میں زیادہ تر مسلمان پاکستانیوں کا ہی لکھا ہے جنہوں نے اس کام میں اس کی مدد کی اور تو اور زیادہ کتابیں جس سے اس نے مدد لی ہے وہ بھی مسلمان ادیبوں کی ہی لکھی ہوئی ہیں اور یہ سب کام حکومتی اداروں کی راہنمائی میں معاشرے کے ذرائع ابلاغ نے کرنا ہوتا ہے حکومتی اداروں نے ہمارے لئے کون سی دودھ شہد کی نہریں بہا دی ہیں جو تمہارے لئے نہیں اور رہ گئے ذرائع ابلاغ تو وہ بھی پورے معاشرے کی طرح پیسے کی دوڑ میں ہیں لہٰذا پورا معاشرہ ہی ایک فکری انارکی کا شکار ہے تو بس جس کو جو فوری اپنے فائدے میں نظر آتا ہے وہ ہی کرتا ہے ہاں ایک بات مجھے یاد آ گئی میں نے تمہاری بستی کے ذرا چوہدری ٹائپ بندے سے جب بھی بات کی ہمیشہ ساری محرومیوں مصیبتوں کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر ڈالتے ہو کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک لیا کرو۔ تم ایک بات بتاؤ مجھے بولتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور اگر تم مذہبی تعصب سے ہٹ کر سنوں اور سوچوں گے تو تمہیں بھی شرم آئے گی وہ یہ ہے کہ ہمارا تمہارا پوری قوم کا ہیرو سیسل چوہدری ستارہ جرات، ستارہ بسالت1965ء سے آج تک اس قوم کا متفقہ ہیرو بہادری اور پیشہ وارانہ مہارت کا استعمارہ ہے میں یہ جو گلہ کرنے جا رہا ہوں کبھی نہ کرتا اگر مجھے اس کتاب سے یہ پتہ نہ لگتا کہ 1986ء میں پاکستان ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سینیٹ انتھی اسکول لاہور اور تمہارے کاتھولک چرچ کے نیچے تمہارے نیشنل کمیشن فارجٹس اینڈ پیس قومی کمیشن برائے امن انصاف NCJP کے چیف بھی رہے یعنی تنخواہ دار سماجی کارکن بھی رہے ۔
جب چاچا یہاں پہنچا تو بوڑھے درخت نے ایک جھر جھری سی لی اور کن اکھیوں سے اپنے ساتھی رکھوں کی طرف دیکھا کہ کہیں وہ اس کی یہ کیفیت جان تو نہیں گئے کیونکہ یہ سوچ کر اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے کہ آج کل اسی ہیرو کا بیٹاا ن خاک نشینوں کے لئے امن اور انصاف لینے کے لئے گرجے کے بڑوں کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے جس کا یقینا مقصد یہ ہی ہو گا اور عموماً اس طرح کی دوسری تقرریاں بھی اس ڈاکٹرائن پر ہوتی ہوں گی کہ آپی کھاآویں اورساڈے لی لے آویں (خود کھا آنا اور ہمارے لئے لے آنا) اور پھراس ڈاکٹرائن پر بھرتی ہونے والے ان عہدوں کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں اور بجائے انہیں خود شناسی و خود آگاہی اور خود انحصاری کے درس سے امن ، انصاف اور حقوق دلوانے کے وہ ان مسیحیوں کی محرومیوں کو بطور بیوپار اور انہیں ایک جنس ہی استعمال کرکے وہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ بوڑھا درخت جب یہ سوچتا تو اسے اپنے آپ سے بھی شرم آتی کیونکہ دھرتی جائے ہونے کے ناطے وہ اپنے آپ کوان خاک نشینوں کا بڑا سمجھتا تھا لہٰذا یہ عجیب و غریب المناک صورتِ حال کا سوچ کر بھی اسے شرم سے جھرجھری آتی کہ اگر ان پستیوں کے ماروں کے سماجی مذہبی و سیاسی بڑے ایسے ہیں تو پھر یہ کیسے ان پستیوں سے نکلیں گے۔لیکن 1965ء سے ان کی موت 2012ء کے بعد سے تقریباً 47سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مرتبہ ٹی وی، ریڈیو ، اخباروں نے ان کے انٹرویو کئے ہمیں کبھی ان کے منہ سے یہ نہیں پتہ لگا تو ان کے علاوہ 5اور مسیحیوں نے بھی 6 ستارہ جرات حاصل کئے ہیں اور ان میں سے ایک تو ایسا شہید بھی جس کے پاس دو دفعہ ستارہ جرات، ستارہ بسالت حاصل کرنے کا منفرد اعزاز ہے اور یہ اعزاز حاصل کرنے والا وہ واحد پی اے ایف شہید ہے اور ایم ایم عالم جیسا عالمی شہریت یافتہ فضائی جنگجو جس کے بارے میں کہتا ہے کہ‘‘ اگر1971ء میں کسی میں کسی فضائی جنگجو کو آپریشنل کارکردگی پر نشان حیدر ملتا تو وہ ونگ کمانڈر مڈل کوٹ شہید ہی ہوتا’’ اسی طرح ان پانچ میں ایئر کموڈورنذیر لطیف ستارہ جرات، ستارہ بسالت جیسا دیوما لائی کردار کا حامل فضائی جنگجو بھی ہے جس کے بارے میں ایئر فورس ہیرو سجاد حیدر کہتے ہیں۔ ‘‘وہ ہمت اور جرأت کی ایسی سچی مثال تھے جن کے لئے ‘‘ہلال جرأت’’ تخلیق کیا گیا تھا’’
اور ایئر چیف مارشل جمال لکھتے ہیں۔
‘‘ بِل لطیف نے دو اسکواڈرنز، تین ونگز (ان میں دو کی دو دفعہ) اور دو ایئر بیسز (پشاور اور کراچی کی مسرور بیس) کی کمان کی، ایک ایسی کمان جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی بنا ء پر سینکڑوں پی اے ایف پائلٹس فضا میں اور زمین پر اس کرشماتی قائد کے قریب ترین رابطے میں آنے کاباعث بنے۔اپنے اسٹاف اسائنمنٹس میں انھوں نے ڈائریکٹر آف آپریشنز کے اہم عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بِل لطیف اس بات کا کبھی بھی کوئی اشارہ تک نہیں دیتے دکھائی دیئے کہ وہ کتنے اچھے پائلٹ تھے۔ انھوں نے بہت مشکل فضائی فرائض ادا کرکے اوربہ ظاہرآسانی کے ساتھ اہداف حاصل کرکے کے خود بخود احترام کمایا۔دوسروں کے ساتھ میں نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ وہ اپنے استحصال اور موت کو قریب سے دیکھنے کے واقعات کو ، جو کہ بہت سارے ہیں،ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کرتے ۔فائٹر پائلٹس کے اندرونی حلقوں میں ان رونگٹے کھڑی کردینی والی فلائٹس کو اس یقینِ کامل کے ساتھ بیشترمرتبہ دہرایا جاتاکہ اگر کسی کو بھرپور مہارت حاصل ہے اور خطرے کو عمل میں آنے سے پہلے بھانپ لیا جائے تو یہاں تک کہ موت کو بھی دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔’’
شان سبز و سفید
اور ائر فورس کے اس کے دور کے ہزاروں افسر اسے دنیا کا بہترین فضائی جنگجو گردانتے ہیں بتاؤ تم نے کبھی اپنے بلکہ ہم سب کے اس ہیرو کا ذکر اور پھر پاکستانی مسیحیوں کے لئے امن و انصاف ڈھونڈنے والوں کے منہ سے سنا کیا تم نے کبھی اس سماج سوک سے سناکہ کوئی شہید پیٹرکرسٹی بھی تھا جو ستارہ جرأت اور تمغۂ جرأت تھا اپنا ڈیڑھ سال کا بیٹا دو چھوٹی بچیاں اور جوان بیوہ کا آج پاکستانی قوم کے کل پر قربان کر گیا تھا چاچا روہنساہ ہو گیا اور چیخا اور بتاؤ وہ کون سے حقوق اور امن ہے جو خود شناسی یا اپنی شناخت جانے بغیر کئے حاصل کئے جا سکتے ہیں کیا سیاہ فام ناول نگار رالف ایلسن جیسے کئی دانش مند یہ نہیں کہہ گئے کہ‘‘ مجھے میرے حقوق تب ملیں گے جب میں جان لوں گا میں کون ہوں’’ کیا شاعرِ مشرق نے یہ نہیں کہا تھا کہ آدابِ خود آگاہی ہی غلاموں پر اسرار شہنشاہی کے رموز کھولتی ہے چوہدری یہ سنتا اور شرمندہ ہوتا اور اقبال اپنی پشمانی میں چاچے کو کہتا چاچا ہماری ذلتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک اگر کچھ بن جائے تو وہ بس پھر وہ ہی سب کچھ ہوتا ہے باقی اور کوئی کچھ نہیں ہوتا اور اجتماعی شناخت کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہم ایسے ہیں تو آج جتنے ہم تعداد میں ہیں تقریباً اتنے ہی ہمارے چرچ ہیں اور ہماری بھلائی کے ادارے بھی گھر گھر میں یعنی ہ مارا ہر بندہ اپنی ذاتی میں انجمن ہے اس لئے وہ شاندار پیشہ وارانہ ریکارڈ کے حامل ہوا باز کبھی زیر بحث نہیں آئے حالانکہ تم بتاتے ہو کہ ان میں سے دو تو شہید اور باقی چار میں سے دو اپنے پیشے کی مہارت کی بلندیاں چھونے والے تھے۔ چاچا بولا چوہدری یہ سات ستارہ جرأت لینے والے مسیحی پائلٹ یہ سارے اپنی اپنی ذات میں پاکستان کے ہیروز ہیں لیکن اس کتاب سے پہلے ہم نے ایک کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں سنا تھا جب کہ ائر مارشل ایرک جی ہال ستارہ جرأت، ستارہ بسالت، ایئر کموڈور نذیر لطیف ستارہ جرأت، جرأت بسالت ، ونگ کمانڈر مارون لیسلے مڈل کوٹ شہید دو بار ستارہ جرأت، ستارہ بسالت، اسکوارڈن لیڈر پیٹرکرسٹی شہید ستارہ جرأت، تمغہ جرأت اور ڈیسمنڈ ہارنی ستارہ جرأت یہ پانچوں پاکستانی قوم، پاکستان ایئر فورس اور خاص کر پاکستانی مسیحیوں کی ایسی وراثت ہیں جنہیں 1965ء سے لے کر اب تک مسیحیوں کے ہر اسکول اور گھر گھر ان کے چرچے ہونے چاہیے تھے لیکن گروپ کیپٹن سیسل چوہدری ستارہ جرأت اور ستارہ بسالت کی طرح نہ تو یہ چرچ سے منسلک رہے اور نہ ان کے عزیزو اقارب میڈیا میں تھے اس لئے یہ گمنام ہیروز پاکستانی قوم اور پاکستانی مسیحیوں جن کی حقیقی، اجتماعی وراثت ہیں ان کے لئے تو بالکل گمنام رہے حالانکہ پاکستان ایئر فورس اپنے ان ہیروز کو کبھی نہیں بھولا چوہدری دکھ سے بولا چاچا ہماری مذہبی ، سیاسی و سماجی انارکی کی بہت ساری دوسری وجوہات میں ایک یہ بھی ہے خودنمائی کی بڑی خوفناک بیماری ہے اسی لئے تو ہم نے گھر گھر گرجے اور سماجی بھلائی کے ادارے بھی بنا لئے ہیں۔ تاکہ ہماری انفرادی شناخت برقرار رہے چاہے اس کے عوض ہماری اجتماعی شناخت گم ہی کیوں نہ ہو جائے اور چاچا شغلی لہجے میں کہتا ‘‘اور ہاں وہ تمہارا مصنف لکھتا ہے مجھے سات ستارہ جرأت حاصل کرنے والے مسیحی افسروں کے بارے میں معلومات سابقہ ایئر فورس افسر اور ناول نگار محمد حنیف سے ونگ کمانڈر حالی کے لکھے ہوئے مضمون سے ملی اب بتاؤ ہماری وجہ سے ہی تمہاری یہ شناخت باہر آ گئی ہے اور تمہاری نسلوں کی وارثت بنی ہے بشرطیکہ اس وراثت کوتمہارے لئے امن و انصاف حاصل کرنے والے تنخواہ دار اور محرومیوں کے بیوپار کرنے والے اسے تمہاری نسلوں تک منتقل کریں۔ ہاں پھر تمہیں خود ہی اتنی عقل آ جائے اور تم ان کی طرف دیکھنے کی بجائے خود انحصاری کی سوچ اپناتے ہوئے اپنا بوجھ خود اٹھا لو اس طرح کی دو چار سو کی ایک کتاب پوری پوری بستی کے لئے کئی دہائیوں تک کافی ہے خود اپنی وارثت منتقل کرو اپنی نسلوں میں۔ چھوڑو ان تنخواہ دار سماج سیوکوں اور محرومیوں کے بیوپاریوں کو،چاچا جلال میں تھا۔ غصے میں بولا تمہارے مذہبی راہنماؤں ماہرین تعلیم اور سماج سیوکوں سے تو اتنا نہیں ہو سکا کہ اپنی ان روشن مثالوں کی تصاویر ہی اپنے تعلیمی اداروں میں لگا دیتے۔
چاچا جب سانس لینے کو رکا تو بوڑھا پیلکن کا رکھ دکھ بھری طنزیہ ہنسی سے بولا سیٹھیا گیا ہے یہ اقبال! اسے پتہ نہیں ان کے سیاسی، سماجی اور خاص کرمذہبی رہنما چند اشتشنات کو چھوڑ کر جن کے زیرِ انتظام ان کے تعلیمی ادارے ہیں وہ باقاعدہ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اس خود شناسی کی شعوری مہم کے اور اس نوجوان نسل کے جو اسکول کالجوں میں ان کے پاس آتی ہے گو کہ ان کی ذرا سی کوشش سے اگر نوجوان مسیحیوں کو دھرتی سے ان کی نسبت آزادئ ہند ، قیام تعمیر و دفاعِ پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے کردار کی قابل فخرِ شناخت کی وراثت ان کو منتقل ہو جائے تو صرف پانچ سال منظم طریقے سے یہ خود شناسی، خود آگاہی اور خود انحصاری کی سادہ سی یہ مہم جنگی بنیادوں پر اپنے تعلیمی اداروں میں شروع کر دیں تو ایک فکری اور شعوری انقلاب برپا ہو سکتا ہے جو ان کے لئے وطنِ عزیز کے معروضی حالات میں تعلیمی، معاشی، سماجی ، معاشرتی ،علمی،مذہبی،تہذیبی اور سیاسی ترقی کے انقلاب کا پیشہ خیمہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہر طرح کے انقلابات کی شروعات فکر اور شعور سے ہی شروع ہوتی ہیں۔
چاچاسانس لینے کے بعد پھر بولا اور رہ گئی ہمارے سرکاری اداروں کی بات تووہ جو دن رات ہماری ترقی کے لئے کوشاں ہیں تو ان اداروں کے کرتا دھرتاؤں کے لئے جالب نے کیا خوب کہا ہے
دنیا کی جن کو فکر ہے معدودے چند ہیں
باقی بس اپنی ترقی پسند ہیں
چاچا مزید کہنے لگا یہ اب دیکھو تمہارے کمپاؤنڈ کے گیٹ کے دائیں بائیں جو شفائیہ جنگوں کے اشتہار لگے ہوئے ہیں ان میں دیکھا کبھی کوئی نوکری کا اشتہار ؟……کہ دسویں پاس کے لئے یہ مواقع ……بارہویں پاس کے لئے یہ مواقع…… اس لئے تو میرا دل اس وقت کٹ گیا تھا جب مجھے پتہ چلا تھا یعقوب مسیح نے اپنے چودہ پڑھے ہوئے صاحب زادے کو صفائی والوں میں بھرتی کروا دیا تھا اور ان بے حس عقل کے اندھوں کو کیا کہوں جنہوں نے چار دمڑیاں لے کر اپنے اور اپنے وطن کے چہرے پر یہ کالک ملی تھی وہ تو شکر ہے وہ بچہ یہ نوکری بھی چھوڑ گیا اور یہ محلہ بھی ورنہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں بدنام کرنے والے ہزاروں واقعات میں ایک اور شرم ناک واقعہ کا اضافہ تھا شکر ہے ان دنوں میڈیا ابھی اتنا آزاد نہیں تھا۔ جب یہ چاچا اکرام اس المیے کا رونا رو رہا تھا تو درختوں کی ٹولی بھی دھیان سے یہ سنتی اور بوڑھاپلکن کا رکھ اپنے ساتھیوں کو کہتا ‘‘اگر ان راندہ دو گا لوگوں کے نام پر سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے جمہوری غلام یا ملک کے صاحب ِاقتدار لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانے اور تصویریں کھنچوانے کے لئے جا رہے سماجی و مذہبی رہنما اگر متفقہ طور پر مل کر مسیحی وزیرِ اعظم کی خواہش رکھنے والے لیڈر سے کہیں کہ اسمبلی میں جہاں اب تک25 ترمیمیں پیش ہوئی ہیں اور بیس پاس بھی ہو گئی ہیں۔ اگر چھبیس بھی پیش ہو جائیں تو کیا کوئی انہونی ہو جائے گی؟ کوئی بات نہیں پاس نہ بھیہو لیکن دوست دشمنوں کا پتہ چل جائے گا ویسے یہ مسئلہ دھرتی کے بچوں کے بنیادی حقوق پر دار تو ہے لیکن حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو ان بیچاروں کے ہزاروں اور مسائل ہیں ان پر توجہ دینی چاہیے مثلاً یہ مسیحی وزیرِاعظم کی خواہش رکھنے والے سے کہیں کہ وزیرِ اعظم تو دور کی بات ہماری قابلیتوں کا یہ عالم ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے والے مقابلے کے امتحانوں میں پاس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لوگ تو ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹے کی جگہ پوری نہیں کر پاتے لہٰذا کیوں ان کے لئے ملک بھر کے کالجوں، یونیورسٹیوں ، میڈیکل کالجوں، انجینئرنگ کالجوں و دیگر تعلیمی اداروں میں کوٹے پر وظیفے مقرر نہیں کرتے؟ تاکہ یہ اعلیٰ ملازمتوں کے کوٹے کو پورا کرنے کی بنیادی شرائط کو تو پہنچ سکے اس طرح یہ فوری قلیل المیعادی طور پر شروع کیا گیا یہ کام طویل المیعادی منصوبہ بندی میں بھی کام آئے گا اور کچھ سالوں میں ہی اس کے ثمرات پاکستان کے تمام غیر مسلم شہریوں تک پہنچیں گے’’۔ پھر بوڑھے رکھ نے آہ بھر کے اپنے ساتھی رکھوں کو یوں مخاطب کیا میرے وطن کے اس چہرے کو شہر آلودہ میں ڈھلنے کے آگے اپنے ناتواں پتوں سے بندھ باندھتے میرے رکھ بچو…… ان غیر مسلمان خاک نشینوں کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ رہ گئی بات یہ جو اقبال ان بدنصیب خاک نشین دھرتی کے واسیوں کے کرتے دھرتوں سے گلہ کرتا ہے تو بھی ان کا مت پوچھو۔ انہوں نے تو محرومیوں کو بیچنے کی صنعتیں لگائی ہوئی ہیں ورنہ اگر یہ اپنے اپنے مذہبی گروہوں کے حقیقت پر مبنی تجزیئے طکمخ کر لیں اور پھر مسائل کی نشاندہی کرکے ان کے سد باب کا سوچیں۔
کیونکہ یہ مسئلے بھی وہ ہی اجاگر کرتے ہیں جن میں غیروں کی دلچسپی اور ان کا مفاد ہوگا ورنہ جو انسان دوست لوگ ان کے جھانسوں میں آ کر انہیں چندے اور بھیک دیتے ہیں اگر یہ اپنے تجزیئے حقیقت پر مبنی کریں اور اپنی کمزوریوں طاقتوں کو درپیش خطرات اور دستیاب موقعوں کا صحیح تخمینہ لگا کر لوگوں سے مددمانگیں تو کچھ بات بنے اور پھر ان تخمینوں کی روشنی میں انہیں خود آگاہی و خود شناسی کے سبق پر زور دے کر خود انحصاری سے ان ہزاروں سال کی پستیوں سے نکالنے کی کوشش کریں جو اس خطے میں مسیحیت کے بانیاں نے ان کے لئے تعلیمی و سماجی اداروں کی صورت میں جو اثاثے چھوڑے ہیں یہ ان کی تنظیم نوکریں اور انہیں جدید خطوط پر چلائیں…… ان کو ان پستیوں سے نکالنے کے لئے یہ ادارے ہی کافی ہیں باقی سب گورکھ اور گندے دھندے ہیں وہ چاہے 21کروڑکے اس ملک کے شہریوں کے نام پر سیاسی اشرافیہ کرے یا تقریباًپچھترلاکھ غیر مسلمان پاکستانیوں کے نام پر ان کے مذہبی محرومیوں کے سوداگر، مذہبی ٹھیکیدار کریں یا تنخواہ دار سماج سیوک کریں یا پھر جمہور کے نام پر جمہوری غلام بننے والے سیاسی رہنما کریں۔
اور ہاں اپنے چاہے وہ ان پڑھ ان گڑھ آئین کی شق62-63کے ویری فہم سے عاری وزیر بنائیں ، وزیراعظم یاصدر تمہیں اس سے کیا تم تو اپنے میں قابلیت پیدا کرو کیوں کہ تمہارے پاس جمہور کی طاقت 2013ء کے الیکشن کے مطابق بارہ لاکھ چالیس ہزار تھی اور2018ء کے الیکشن میں اسی تناسب سے بڑھتی ہوئی زیادہ سے زیادہ ساڑھے سولہ لاکھ ہو جائے گی۔ تمہیں تو صرف قابلیت پر بھروسہ کرنا ہے اور قابلیت تعلیم سے آتی ہے۔ تعلیمی ادارے آپ کے پاس بہت ہیں انہیں اپنی طاقت بناؤ اور بس صبر، تدبر فہم وفہراست سے ان کو استعمال کرو اپنی اس معاشرے میں بہت ساری کمزوریاں درپیش خطرات کے ساتھ دستیاب موقعوں اور ان اداروں کی طرح دیگر وارثتی توانائیوں کو استعمال کرکے معاشرے میں فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، معاشرتی، علمی مذہبی، تہذیبی اور سیاسی ترقی کرو۔

“دھرتی جائے کیوں پرائے”سے اقتباس

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply