میں نے ابھی اپنا انگریزی میں لکھا تحقیقی آرٹیکل انٹرنیشنل میگزین کی ویب سائٹ پر دیکھا. اچھے خاصی تعداد نے آج میرے مضمون کو اوپن کیا تھا. سوشل میڈیا پہ بھی خاصا چرچہ رہا. کمنٹس میں خاصی گرما گرمی بھی← مزید پڑھیے
وہ کئی دن سے مجھے فون کررہی تھی اور میں نمبر دیکھ کے فون ہی نہیں اٹھاتی تھی”کوئی کام نہیں ان لوگوں کو سوائے اشتہار بازی کے” مجھے سمجھ نہیں آتی تھی ایسے ہائی پروفائلوں کو مجھ سے کیا کام۔← مزید پڑھیے
بندر جانے کس کس بستی سے کس کس جنگل سے چل کر آئے تھے۔ ایک قافلہ، دوسرا قافلہ، قافلہ کے بعد قافلہ۔ ایک منڈیر سے دوسری منڈیر پر، دوسری منڈیر سے تیسری منڈیر پر۔ بھرے آنگنوں میں لپک جھپک اُترتا،← مزید پڑھیے
شازیہ ہونقوں کی طرح اپنے خاوند جاوید کا منہ دیکھتی رہ گئی، .حرافہ، سالی بازاری عورت کی بیٹی تیری ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔، میرے ساتھ تمسخر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔ فاحشہ۔ جاوید۔۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔ آپ میری ماں کو۔۔۔۔۔۔ شازیہ کے منہ سے بس← مزید پڑھیے
بس سٹاپ پر رک چکی تھی۔ وہ تھوڑی دیر سیٹ پر بیٹھا رہا۔ کھڑکی سے باہر ویسا ہی بارہ سال پرانا سماں بندھا ہوا تھا۔ وہ اٹھا اور دروازے سے اتر کر ایک گہرا سانس لیا۔ ادھر ادھر دیکھا،← مزید پڑھیے
ہر عہد اپنے ساتھ نئے مسائل اور نئے موضوعات لے کر آتا ہے۔ جب جب زمانے نے کروٹ لی ہے موضوعات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔۔۔ کچھ روایت پرست ادیب نئے موضوعات کو بہ آسانی قبول نہیں کرتے ہیں لیکن← مزید پڑھیے
زیر سمندر واقع اس شاپنگ آرکیڈ کو عالمی شہرت حاصل تھی جہاں تک رسائی آبدوزوں کے ذریعے ممکن تھی۔ اس شاپنگ آرکیڈ میں ملبوسات کے مختلف النوع کے نمونے موجود تھے جبکہ بچوں اور نوجوانوں کی دلچسپی کی اشیاء کے← مزید پڑھیے
“سادھ پکوڑے ویچ کے اپنے آپ وچّ جنت دیاں موجاں ماندا تے چور چوری کرکے اپنے بال بچے نال بلے لٹدا۔ تے انجھ سادھ اپنے حالَ وچ مست، چور اپنے مال وچ مست تے ویلا اپنی چال وچ مست سی…۔← مزید پڑھیے
جزاک اللہ۔۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں دوست میرے ریسٹورنٹ پہ بیٹھے گپیں لگا رہے تھے کہ ایک انڈین لڑکی نے کاونٹر کی بیل بجائی میں نے سیاہ فام ملازمہ کو اشارہ کیا تو وہ اسے سروو کرنے کیلیے چلی گئی ۔ مگر← مزید پڑھیے
معاذ بن محمود نے “گشتی” کے نام سے اک افسانہ لکھا۔ افسانہ کیسا تھا یہ الگ موضوع ہے مگر اس کے چھپتے ہی زلزلہ آ گیا۔ احتجاجی و تنقیدی کمنٹس تو قاری کا حق مگر گالی گلوچ والے کمنٹ ہوئے،← مزید پڑھیے
آج آخری روزہ تھا- افطاری کا وقت ہونے ہی والا تھا، نوری مسجد کے بڑے سے صحن میں قرآن شریف پڑھنے کے لئے آئے ہوئے طالبعلم دھلی ہوئی اینٹوں والے سرخ سرخ فرش پر منظم انداز میں قطاریں بنا کر← مزید پڑھیے
“نہیں رہ سکتی میں اس کے ساتھ مزید۔ وہ شراب پیتا ہے، نامحرم عورتوں سے معاشقے چلاتا ہے۔ اس کی وجہ سے میری اولاد خراب ہوجائے گی۔” مجھے محسوس ہوا جیسے اس کی ہسٹیریائی کیفیت میں ڈوبی آواز میرے پردہ← مزید پڑھیے
مانوس خوشبو کا ایک جھونکا اس نے محسوس کیا۔ ۔ چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔ وہی خوشبو تھی۔ ایک لمحے کیلئے اس کی سانس رُک سی گئی۔ ٹانگوں نے اس کا بوجھ برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ وہ قریبی کرسی← مزید پڑھیے
1970 میں لکھا جانے والا ایک پاگل افسانہ خود پرستی انا اور نادانیوں کی بھول بھلیوں میں الجھے ایک پاگل لڑکے کی خود فریبیوں کی پاگل کہانی! دکھوں کا ابراہیم۔۔۔رفعت علوی/قسط 4 تیز رفتار ٹیوٹا کار نے سڑک پر تیز← مزید پڑھیے
“تو یہ سنو۔ لنکن پارک کا نمب۔ ایک تو یہ راک میوزک ہے۔ دکھوں کی فریکوینسی سے میل کھاتا۔ دوسرا مجھے اس گانے میں اپنی کہانی سنائی دیتی ہے”۔ چیسٹر بیننگٹن کو پہلی بار سننا عاصم کے لیے کسی حد← مزید پڑھیے
بیس سال بعد جب وہ دوبارہ پیدا ہو ئی ،توڈھٹائی سے پھر اسی جھیل کے کنارے آبیٹھی ،جو محبت کی لاش سالم نگلنے کے بعدمردہ جھیل کے نام سے پکاری جانے لگی تھی،لڑکی کی بیس سال پہلے والی تمام حیرتیں← مزید پڑھیے
1970 میں لکھا جانے والا ایک پاگل افسانہ ،خود پرستی انا اور نادانیوں کی بھول بھلیوں میں الجھے ایک پاگل لڑکے کی خود فریبیوں کی پاگل کہانی! دکھوں کا ابراہیم۔۔۔۔رفعت علوی/قسط 1 آج سوچتا ہوں کہ اس روز تم نے← مزید پڑھیے
انہوں نے رات کا کھانا کھایا، روشنیوں سے چکا چوند ڈائننگ روم سے باہر آکر عرشے پر لگے کہڑے پر آکر کھڑے ہو گئے۔ خاتون نے اپنی آنکھیں موند لیں، ہتھیلیاں باہر کی طرف کر دیں، پھر اپنے ہاتھوں کو← مزید پڑھیے
اردو افسانے کے آغاز اور اولیت کو لے کر خاصے اختلافات رہے ہیں۔ حالانکہ اردو افسانے کا سفر کچھ ایسا طویل بھی نہیں ہے کہ یہ تحقیق کے لیے کوئی بہت بڑا چیلنج ہو۔ لیکن اردو افسانے کے ساتھ معاملہ← مزید پڑھیے
وہ اگر چاہتا تو بہت آسان موت مر سکتا تھا، ہاتھ کی رگ کاٹ کر دھیرے دھیرے موت کو محسوس کر سکتا تھا یا پھر پسٹل کی ایک گولی، دھماکے کی گونج، لال چھینٹے اور ابدی سکون، لیکن خود کشی← مزید پڑھیے