جذبے۔۔۔۔۔ رابعہ احسن

وہ کئی دن سے مجھے فون کررہی تھی اور میں نمبر دیکھ کے فون ہی نہیں اٹھاتی تھی”کوئی کام نہیں ان لوگوں کو سوائے اشتہار بازی کے” مجھے سمجھ نہیں آتی تھی ایسے ہائی پروفائلوں کو مجھ سے کیا کام۔ میری تو شکل پہ لکھا ہے”گریز” مگر اس نے گریز نہ کیا اور مسلسل رابطوں کی کوشش کرتی رہی۔ میں میسیج پہ ہلکا پھلکا جواب دیتی رہی اب اتنی بدتمیز بھی نہیں تھی نا ۔تو پتہ چلا کہ وہ شہر کی مشہور ایکٹیوسٹ ہیں میرا مطلب سوشل ایکٹویسٹ ہیں ۔دل تو میرا بھی تھا یہ بننے کا اگر بس گھر بیٹھ کے ہوسکتاخیر میں ان کی خیرسگالی کی موومنٹس سے تھوڑا ہلنے جلنے لگی اور ان کے رابطے کے جواب میں اب میں فون پک کرلیتی ۔بات بھی ہوجاتی۔ اچھی خاتون تھیں دوستی بھی اچھی ہوگئی تھی ان سے۔ انہی دنوں مشاء کی شوہر سے علیحدگی کا مسئلہ شروع ہوگیا شادی کو صرف پانچ ماہ ہوئے تھے اور ساس نندوں سمیت شوہر نے بھی اس کا جینا دوبھر کردیا میں مشاء کو ٹٹولتی رہی کہ کہیں اس کی کوئی غلطی نہ ہو آجکل کی لڑکیاں بڑی جذباتی اور جلد باز جو ہوئیں اور کبھی کبھی تالی واقعی دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ محاورہ غلط ہے
پر محاورہ غلط ہی تھا مشاء بجھتی جارہی تھی اس کے پاس اب کہنے کو بھی سب ختم ہوتا جارہا تھا اور یہ بات میرے لئے بہت تکلیف دہ  تھی کہ میری چھوٹی بہن یوں دن بہ دن اجڑتی چلی جائے میں نے اس کے شوہر اور سسرال والوں سے مل کے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش بھی کی مگر میری بھی ایک نہ چلی۔ مشاء تنگ آکر شوہر کا گھر ہی چھوڑ آئی اس کی پریشانی بجا تھی بات کنٹرول سے بالکل باہر ہوتی جارہی تھی اس کا شوہر دوسری شادی کرنے جارہا تھا پہلی شادی کے چند ہی ماہ بعد۔ انہی پریشانوں میں میڈم راحت سوشل ایکٹیوسٹ نے اپنے گھر ایک گیٹ ٹوگیدر پہ مدعو کیا۔ میں چلی گئی شہر بھر کے ڈھیر سارے سوشل ورکرز، میڈیا، رائٹرز ، انویسٹرز اور جانے کون کون تھا وہاں۔ بوریت کے مارے برا حال تھا لیکن سوچا کہ میڈم راحت سے بات کروں کہ وہ مشاء کے مسئلے میں میری کیا مدد کر سکتی ہیں۔ میں نے کھانے کے وقفے میں اپنا مدعا بیان کر دیا انھیں بڑی خوشی ہوئی کہ میں نے ان پر اعتماد کیااور انھوں نے مجھے یقین بھی دلایا کہ سرتوڑ کوشش کریں گی مشاء کے مسئلے میں۔ ایک عجیب سی بات ہوئی کہ دوران گفتگو جب بھی میری نظر پڑی ان کے شوہر پر وہ مجھے بڑے انہماک سے گھورتے ہوئے پائے گئے میں نے سوچا پاکستانی مرد دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ جائیں ان کی گندی نظریں کبھی فِکس نہیں ہوسکتیں۔۔
میڈم راحت نے بتایا کہ وہ ایک سیمینار رکھ رہی ہیں عورتوں کے مسائل پہ اور وہاں وہ بہت سے وکلا سے مشورے لیں گی مشاء کا کیس بھی زیرِ غور لایا جائے گا میں بہت مطمئن تھی اب میڈم راحت میری آئیڈیل ہوگئیں “یار عورت ہو تو ایسی” اس دن میرا پرانا کلاس فیلو مل گیا اور میں لگ گئی میڈم راحت کی تعریف میں قصیدے پڑھنے اور وہ بیچارہ اپنی پریشانی میں الجھا بیٹھا تھا بیوی نے اس پر علیحدگی کا کیس کردیا تھا ایک بچہ، گھر، جائیداد ،سب مغربی قانون کے مطابق بیوی کے قبضے میں جارہا تھا اور یہ بیچارا دن رات کی کی کمائی سے جڑی مقدور بھر جائیداد اور اپنے بچے کے چھن جانے پر ادھ موا ہوا بیٹھا تھا “ تم اچھے خاصے تو ہو پھر ایسا کیا ہواکہ بات یہاں تک پہنچ گئی” ابھی مشاء کی طلاق کا طوق گلے میں پھنسا ہوا تھا اور اب ادھر دوست کا گھر بھی اجڑ رہا تھا “اسے کوئی اور پسند آگیا ہے میں دن رات کمائی میں لگا رہا اور وہ۔۔” اس کا چہرہ سرخ ہوگیا”تمھیں نہیں تھا پتہ شادہ شدہ زندگی میں کمائی اور بچے کے علاوہ بھی بہت سے عوامل ہوتے ہیں” میں نے کتاب سائیڈ پر رکھی یہ مسئلہ بہت شدید نوعیت کا تھا جسے اکثر مرد اگنور کردیتے ہیں اور یہاں مغرب میں عورت اپنے حقوق کی پائمالی پر چپ نہیں بیٹھتی یہ پاکستانی مرد ادھر کمانے، پچھلا خاندان چلانے، یہاں کی لڑکیوں سے شادی کرنے، بچے پیدا کرنے کو بہت بڑا کارنامہ سمجھ بیٹھتے ہیں “تم اس کو سمجھاؤ کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے تم لوگوں کا گھر نہ خراب ہو اور بچے کی زندگی بھی ن برباد ہو یہ سب بہت غلط ہورہا ہے وہ ماں ہے بچے سے زیادہ تو اسے کچھ بھی عزیز نہیں ہوگا” وہ چپ کرکے سنتا رہا جیسے میری سب باتیں بے معنی ہوں کسی پر کوئی اثر نہ ہونے والا ہو ۔۔۔
میڈم راحت کا سیمینار شروع ہوگیا مشاء میرے ساتھ آئی تھی بجھی بجھی سی ۔ کتنے شوق سے میں نے اس کی شادی یہاں کرائی تھی تاکہ وہ دیارِغیر میں میرے پاس آجائے اور میرا بھی کوئی میکہ ہو پر اب میں اس سے بہت شرمندہ تھی میں سوچ رہی تھی کہ آخر مجھ سے کدھر بھول چوک ہوگئی انہی خیالوں میں مجھے پچھلے ہفتے فہد سے ہوئی ملاقات یاد آگئی وہ بھی کتنا پریشان تھا آخری ہمارا فیملی سسٹم کیوں خراب ہوتا جارہا تھا۔ میاں بیوی کے رشتے میں پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی تھی کیا؟ یا پھر یہاں ہر چیز تک آسان رسائی سے اس رشتے کی اہمیت ختم ہوتی جارہی تھی گو کہ یہ سب ادھرنارتھ امریکہ میں ہورہا تھا میری بہن، میرے دوست اور دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ مگر یہ سب تھے تو پاکستانی ہی نا اور کیا یہ سب پاکستان میں بھی ایسے ہی نہیں ہے کیا؟ فیملی ویلیوز ختم ہوتی جارہی ہیں پہلے شادی نہیں ہوپاتی ، ہوجائے تو گھر نہیں بستے پھر، اگر بس جائیں تو دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک فریق قربانیوں پہ قربانیاں دیتا چلا جارہا ہوتا ہے اور دوسرا اس کی قربانی کو کمزوری سمجھتا چلا جارہا ہوتا ہے
سیمینار شروع ہوگیا۔ میڈم راحت سمیت دیگر رہنماؤں کی دھواں دار تقریریں چل رہی تھیں آج میں بھی بور نہیں ہورہی تھی کہ آج مجھے ان نعروں، ان بلند بانگ دعووں کو سن کے سکون مل رہا تھا میڈم راحت کی تعظیم دل میں بڑھتی چلی جارہی تھی مشاء اور مجھے بھی سٹیج پہ بلایا گیا مشاء روتی چلی گئی اور میڈم راحت اس کے آنسو پونچھتے میرے دل میں اترتی چلی گئیں اور میڈم راحت کے شوہر حسبِ معمول گھورتے چلے گئے۔شہر کی بہترین فیملی وکیل نے مشاء کو یقین دلایا کہ وہ اس معصوم کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دے گی
بہن کو چپ کرا کرا کے میں خود آنسوؤں میں بھیگی پڑی تھی مگر اس کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی مبادا وہ کمزور پڑجائے سو موقع دیکھ کر میں واش روم چلی گئی ۔ ہال کا یہ حصہ بالکل سنسان تھا کوئی بھی نہیں تھا پتہ نہیں مجھے کیا ہوا درد اتنا بھرچکا تھا کہ میں نے شیشے کے سامنے کھڑھے ہوکر زور زور سے رونا شروع کردیا اور اس وقت ہوش آیا جب کسی کا جلتا ہوا ہاتھ میرے کاندھے پر تھا میں نے سرعت سے پیچھے مڑکر دیکھا اور میری چیخ ہی نکل گئی میڈم راحت کے شوہر اپنی تمام تر خباست چہرے پہ سجائے دانت نکال رہے تھے” مجھ سے تمھاری پریشانی اور دکھ برداشت نہیں ہوا اس لئے تمھارے پیچھے ادھر ہی چلا آیا” ان کا چہرہ مکروہ تر ہوتا گیا” آپ کو شرم آنی چاہئے آپ کی بیوی خواتین کے حقوق کیلئے لڑتی ہے اور آپ” “ہاں اسے عورتوں کے حقوق کی آگ لگی رہتی ہے ہر وقت صرف شہرت کیلئے۔ اور شوہر کے حقوق کو چاہے آگ لگ جائے ۔دم چھلا بنا کے رکھا ہوا ہے اس نے مجھے ۔ نام کا شوہر بس ، کاغذی شوہر” وہ بکتا چلا گیا” یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں” میں نے اس کو پیچھے ہٹا کے نکلنے کی کوشش کی پر اگلے ہی لمحے اس کے بازو وا ہوئے اور اس نے مجھے زور سے اپنی طرف کھینچا میں اپنی پوری قوت سے چیخی اور چیختی چلی گئی اس کو دھکا دے کے بھاگی اتنے میں ادھر گارڈ آگیا سب لوگ جمع ہوگئے پولیس بھی آگئی۔
 میڈم راحت کے شوہر جنسی حملے کے جرم میں دھر لئے گئے
اتنی مکمل عورت کی اتنی نامکلمل زندگی۔ پتہ نہیں قصور کس کا تھا۔ جذبے اور زندگیاں کیا اتنی بے وقعت ہوتی ہیں کہ کہیں بھی لٹادی جائیں اور جہاں لٹانی ہوں وہاں کا کسی کو ہوش نہیں۔ کاش کہ سب لوگ اپنے شریکِ حیات کو وہ حقوق اور آسودگیں دے سکیں جس کا عہد سارے زمانے کے سامنے اللہ سے کی جاتا ہے تو یہ بے راہروی ختم نہ سہی کم تو ہوسکے

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply