گھروندا ریت کا(قسط30)۔۔۔سلمیٰ اعوان

دونوں وقت ملتے تھے جب وہ برآمد ے میں آئی اور کُرسی پر بیٹھی۔ا ُس وقت پروائی ہوائیں اُس کے لان میں اُگے کیلوں اور پپیتے کے پتوں پر دھیرے دھیرے بہہ رہی تھیں۔نیلا شفاف آسمان قدرے سیاہی مائل نظر آرہا تھا۔ پرندوں کے غول قطاروں میں اُڑے چلے جارہے تھے۔اس نے حسرت سے بھرپور نظر اُن پر ڈالی اور اپنے آپ سے بولی۔
”مجھ سے تو یہ پرندے ہی اچھے ہیں۔“
اُس کی آنکھیں بند ہوگئی تھی۔اُسے تو یہ سوچ سوچ کر حیرت ہوتی تھی کہ وہ اب تک زندہ کیسے ہے؟اس کا ہارٹ کیوں نہ فیل ہوگیا؟ ہنگاموں سے پُر اُس گھر میں رحمان سے متعلق اتنی رکیک خبر سُن کر اُسے بھلا یونہی رہنا چاہیئے تھا۔ایک عورت تو غلط بات کہہ سکتی ہے۔مگر دوعورتیں اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتی ہیں؟آخر ضمیر اتنا بھی مُردہ نہیں ہوتا۔
وہ بھاری بھر کم عورت تو اسے یہ مُثردہ جانفرا سُنا کر اٹھ گئی پر اُس کا جی چاہا کہ چیخیں مارے۔بین ڈالے۔زور زور سے روئے۔اتنی اُونچی آواز میں کُر لائے کہ سارا گھر اکٹھا ہوجائے۔سب حیرت واستعجاب سے پوچھیں کہ کیا ہوا ہے؟وہ کیوں اتنی ہلکان ہورہی ہے؟کس لیے اتنا بلیا پاپ کرہی ہے؟تب وہ انہیں بتائے کہ دیکھویہ عورتیں مجھے کیا بتا رہی ہیں۔ کہیں رحمان ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
کھانا شروع ہورہا تھا۔کمرے میں بیٹھی عورتیں اٹھ اٹھ کر جانے لگیں جب جہاں آرا آپا اندر آہیں اور انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں اُس سے کہا۔
اٹھو۔جاؤ بیٹی تم کھانا کھا آؤ۔بھوک لگ رہی ہوگی۔
اُس نے سفید ساڑھی اور سفید بالوں والی اس مہربان سی عورت کو دیکھا تب اس کا دل بے اختیار چاہا کہ اُن کے سینے سے لگ جائے اور دل کا سارا درد آنکھوں سے بہا دے۔اُن سے کہے۔
”جہاں آرا آپا میرا تو یہاں کوئی نہیں۔میں تو اس سرزمین پر اجنبی اور غیر ہوں۔اگر رحمان ایسا ہی ہے تو یہ اس کے ساتھ کتنا بڑا دھوکا ہے؟کتنا بڑا فراڈ ہے؟
اُسے یہ بھی خیال آرہا تھا کہ رحمان اپنے رشتہ داروں سے بڑا الرجک ہے۔بڑا بدظن ہے۔اس کے خاندان کی عورتیں اول نمبر کی سازشی اور حاسد ہیں۔پر وہ عورتیں اس کی بھاوجیں نہیں تھیں۔بہنیں بھی نہ تھیں۔یوں بھی ایک آدھ عورت غلط بیانی کر سکتی ہے۔اکٹھی تین عورتیں۔خود رحمان کی بھی بعض باتیں مشکوک لگتی ہیں۔
ذہن سوچوں کے بھنور میں اُلجھا ہوا تھا۔جہاں آراآپا اُسے پیار بھرے لہجے میں کھانا کھانے پر اصرار کررہی تھیں۔بچے بھی اِدھراُدھر گھوم پھر رہے تھے۔اس کے پاس آگئے اور “مما بھوک لگی ہے چلیئے نا کھاناکھانے” کاورد کر رہے تھے۔وہ اٹھی اور پنڈال پہنچی۔اس نے بچوں کو کھلایا۔پر جب اُس نے چمچ اپنے منہ میں ڈالنا چاہا۔اسے احساس ہوا اگر اس نے یہ چاول کھالیے تو اُس کی انتڑیاں تک باہر آجائیں گی۔
ٹھنڈے پانی کا گلاس پیا۔پھر وہ ان کے ساتھ واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گئی۔
اِس گھر میں آنے اور یہ شادی اٹنڈ کرنے کی ساری خوشی خاک میں مل گئی تھی۔ہر آنکھ اُسے گھُور رہی تھی۔ہر نظر کی وہ زد میں تھی۔رحمان کی دوسری بیوی سُن سُن کر اُس کے کان پھوڑا بن گئے تھے۔جن سے خون ملی پیپ رسنے لگی تھی۔وہ چاہتی تھی۔بھاگ جائے کہیں۔سلیمانی ٹوپی پہن لے۔ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجائے۔بیٹھنا عذاب بن گیا تھا۔
جب وہ رحمان کے بلُاوے پر جانے کے لئے باہر آئی وہ گاڑی کے قریب کھڑا اس کامنتظر تھا۔اس کی چال میں اُس وقت وہ بانکپن نہیں تھا جو صبح محسوس ہوتا تھا۔شکستگی تھی۔چہرہ نڈھال تھا۔صبح والی بشاشت اور تازگی کا فور تھی۔
رحمان اگر شادی کے ہنگاموں سے اتنا نہ تھک چکا ہوتا تو شاید اس پر ایک نظر پڑتے ہی بھانپ جاتا پر اُس نے گاڑی چلائی اور تیزی سے گھر آیا کیونکہ اُسی شام اُسے دس دن کے لئے کُشیتا۔ سراج گنج بوگرا اور گائے بندا کے دورے پر جانا تھا۔اُس نے کپڑے بدلے۔منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھنٹے مارے اور کمرے میں آکر اس کے ساتھ لے جانے کے لئے سامان پیک کرنے لگی۔
نوکر نے سامان کار کی ڈکی میں رکھ دیا۔رحمان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اس پر الوداعی نظر ڈالی۔عجیب پتھرائی پتھرائی آنکھوں سے وہ اُسے دیکھ رہی تھی۔رحمان گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔رُک گیا گھبرا کر باہر نکلا اُس کے قریب آیا۔اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
تم پریشان نظر آرہی ہو۔
اور اس نے گویا کلیجے پر پتھر رکھ لیا۔پہاڑ جتنا حوصلہ کر لیا۔بڑے ضبط کا ثبوت دیتے ہوئے بولی۔
نہیں تو شادی والے گھر کی تھکاوٹ کا اثر ہے۔
”نجمی مجھ سے جھوٹ مت بولو۔“
”کمال ہے آپ یقین کیوں نہیں کرتے۔“
اُسے بہت جلدی تھی۔خداحافظ کہا۔گاڑی میں بیٹھا اور گیٹ سے نکل گیا۔
اور یہ دن کیسے گذر رہے تھے۔سوچوں میں، اُلجھنوں اور عجیب وغریب خیالوں میں۔ایک بار اُس کا جی چاہا کہ وہ جہاں آرا آپا کے پاس جائے اور اُن سے دریافت کرے۔کبھی اس کا دل اس بات کی سچائی پر بالکل ایمان نہ لاتا۔وہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔وہ اپنے آپ سے کہتی۔اس کا طرزِ عمل اول دن سے آخر تک اس کے سامنے آتا۔وہ اس کی روشنی میں ا س کی ایک ایک حرکت کا جائزہ لیتی۔
”نہیں نہیں رحمان کبھی ایسا نہیں ہو سکتا۔وہ تو اعلیٰ اقدار کا حامل ایک بے حد پیارا انسان ہے۔“
تب اس کا بے قرار دل ٹھہر جاتا۔پر یہ کیفیت زیادہ دیر قائم نہ رہتی۔شراب پینے فلیش کھیلنے اور لڑکیوں سے دوستی والی باتیں اگر درست ہو سکتی ہیں تو زہردینے والی بات بھی غلط نہیں ہوسکتی۔ چھوٹی سی کا بتنگڑ تو بن سکتا ہے۔ رائی کا پہاڑ تو ہو جاتا ہے مگر بغیر بنیاد کے باتیں گردش نہیں کرتیں۔
وہ کہاں جائے؟ کس سے پُوچھے؟کیاکرے؟اس کا دل چاہتا بھاگ جائے۔زمین کی پنہائیوں میں گُم ہو جائے۔آسمان کی وسعتوں میں کھو جائے مگر اس لئے کہیں گوشہ عافیت نہ تھا۔وہ تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہی تھی۔رسوائیوں اور بدنامیوں کی کالک اُس نے اپنے چہرے پر آپ ہی مل لی تھی۔ اور ان سب کے بدلے اس نے کیا حاصل کیا؟یہ پریشانیاں یہ دل کو ڈستے دُکھ جن میں وہ گھر گئی تھی۔
اب اسے ایک نئے اندیشے نے گھیرے میں لے لیا تھا۔رحمان آخرکب تک اس کی اشک شوئی کرے گا۔ایک دن ایسا آئے گا وہ اُس کی بور رفاقت سے اکتا جائے گا۔اُسے پھر کسی شوخ وشنگ اور چُلبلی لڑکی کی تلاش ہوگی جو یقینا اُسے مل بھی جائے گی۔
یہ اندیشے ایسے خوفناک تھے۔یہ سوچیں ایسی خطرناک تھیں کہ جنہوں نے اُسے ذہنی طور پربُری طرح مجروح کر دیا تھا۔
ایک دن جب بیڈ پر لیٹی ہوئی ایسی ہی اُلٹی پلٹی سوچوں میں گُم تھی۔خواب گاہ میں ہلکی نیلی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کمرے کی سب چیزیں اس کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ گھبرا کر اُس نے چیخ ماری اور دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا۔اسے یوں لگا جیسے کوئی غیر مری طاقت اُس کا گلا گھونٹ رہی ہے۔دیر تک وہ دم سادھے لیٹی رہی۔پھر بڑے حوصلے سے اٹھی۔لائٹ جلائی۔کمرے میں ٹیوب کی دودھیا روشنی جگمگائی تو اُسے قدرے سکون ہوا۔
اب اُس کے لئے چت لیٹنا محال ہوگیا تھا۔جہاں سیدھی لیٹتی بس یوں لگتا جیسے ابھی کوئی گردن مروڑ دے گا۔عالم تصور میں بارہا وہ اُس کے ہاتھوں کو اپنی گردن کی طرف بڑھتے ہوئے بھی دیکھتی۔
اور دن رات کی ایسی کربناک سوچوں میں گھُلنے کا نتیجہ ظاہر ہونا ہی تھا اور وہ یوں ہوا کہ رحمان جب دس دن بعد گھر واپس آیا تو عقبی برآمدے میں اُسے کرسی پر نیم درازآنکھیں موندھے دیکھ کر اُسے جھٹکا سا لگا۔
یہ اِسے کیا ہوگیا ہے۔میں تو اچھا بھلا چھوڑ کر گیا تھا۔لگتا ہے جیسے سالوں کی مریض ہو۔
وہ اس کے قریب آیا۔اس کی پیازی رنگت سرسوں کے پھولوں جیسی ہو رہی تھی۔پہلی مرتبہ اُسے احساس ہوا کہ اُس نے اس لڑکی کو اپنا کر ظلم کیا۔اتنی نازک سی معصوم دل ودماغ کی مالک یہ یقینا اتنے بڑے صدمے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔یہ سوچوں کی جن گھمن گھیریوں میں اُلجھی رہتی ہے انہیں وقت کے ساتھ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔لیکن مصیبت تو یہ بھی ہے کہ اُسے مجھ پر اعتماد نہیں۔یہ نہیں جانتی کہ میں اس کے لیے کیا کررہا ہوں؟کیا سوچ رہا ہوں؟
تب وہ جھُکا اُس نے چاہا کہ وہ اس کی گردن پر پیار کرے۔پیشانی پر بوسہ دے پھر اُسے آواز دے اور جب اس کے ہونٹوں نے اس کی گردن کو چھوا۔یک لخت اس نے آنکھیں کھول دیں اور تیز آواز میں کہا۔
”خدا کے لئے میرا گلا نہ گھونٹنا۔“
رحمان یوں پیچھے ہٹا جیسے اُسے بجلی کا کرنٹ لگا ہو۔وہ حواس باختہ سا ہوگیا۔چند لمحوں بعد خود پر قابو پایا۔تعجب اور حیرانگی سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا۔
”نجمی کیا بات ہے؟“
وہ برف کی طرح ٹھنڈی ہوگئی۔اُس کے ہونٹ سفید ہورہے تھے۔آنکھیں پتھرائی ہوئیں یوں جیسے نزع کا عالم ہو۔گھبرا کر اُس نے اُسے اپنے بازؤوں میں سمیٹا اور کمرے میں لے آیا۔بیڈ پر لٹانے کے بعد اس نے ڈاکٹر کو فون کیا۔
ڈاکٹر آیا تفصیلی معائنے کے بعد بولا۔
”انہیں کوئی شدید صدمہ پہنچاہے۔“
رحمان کو اس بات پر حیرت تھی کہ اس نے یہ کیوں کہا ہے؟ میرا گلا نہیں گھونٹنا۔ اس کا پس منظرکیا ہے؟ یقینا کوئی ایسی بات ضرور ہوئی ہے جس نے اِس کے ذہن پر اس درجہ اثر کیا ہے کہ مریض بن گئی ہے۔
وہ جب ڈاکٹر کو رخصت کر کے واپس لوٹا۔برآمدے کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ کر اُس نے سگریٹ جلایا اور وہیں ذراٹھہر کر اُس نے لمبے لمبے دوکش لئے۔اس کی آنکھوں میں اس وقت گہری سوچیں تھیں۔
تب دفعتاً اُس کی چھٹی حِس جاگی اور جیسے اُسے یقین سا ہو گیا کہ اولڈڈھاکہ والوں نے کچھ گڑ بڑ کی ہے۔وہ تیسری سیڑھی چڑھ کر برآمدے میں آگیا۔اب اُسے غصہ آرہا تھا۔اُس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
”لاکھ بھی کوئی کچھ کہے یہ کس قدر احمق ہے؟وہ خود سے بولا۔
اور جب وہ برآمد ے میں چکر کاٹ رہا تھا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا اندر بیڈ پر لیٹی اس بیمار لڑکی پر اس کا غصہ تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔
”لاکھ سمجھاؤ۔لاکھ واہ ویلا کر وپر وہاں کچھ اثر ہی نہیں ہے اسکنڈلز تو بنتے ہی رہتے ہیں۔افواہیں اڑتی رہتی ہیں۔جھوٹی سچی کہانیاں گردش میں رہتی ہیں۔مگر اس کا مطلب یہ کب ہے؟کہ انسان بغیر تحقیق کئے اُس پر ایمان لے آئے۔اور اُسے دل پر لگا کر بیٹھ جائے۔میں آخر اُسے کس طرح سمجھاؤں کہ وہ میرے لئے کیا ہے؟ میں اس کے احساسات وجذبات سے ناواقف نہیں۔ جا نتا ہوں؟ سمجھتا ہوں اِس جیسی حساس لڑکی کے لئے ایسا سوچنا فطری امر ہے؟مگر شاید اُسے وقت کا انتظار نہیں۔دس دن بعد تھکا ہارا گھر پہنچا ہوں تو یہ پریشانیاں میرے انتظار میں ہیں۔
اور جب وہ دیر بعد اُس کے کمرے میں آیا۔وہ دونوں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھے کروٹ لئے لیٹی تھی۔اُس کی آنکھیں کھلی تھیں۔اور ان کھلی آنکھوں سے کبھی کبھی آنسوؤں کا کوئی قطرہ اُس کے گالوں پر ڈھلک پڑتا۔
وہ خاموشی سے آکر بیڈ کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔نوکر نے چائے لاکر رکھی۔اُس نے چائے بنائی۔ایک کپ اپنے لئے ایک اس کے لئے چائے پی کر سگریٹ سُلگایا۔ایک دوتین چار وہ بیٹھا سگریٹ پر سگریٹ پھُونکتا رہا۔نوکر نے کھانا تیار ہونے کی اطلاع دی۔بچوں کو ٹیوٹر پڑھا کر جاچکا تھا۔وہ کمرے میں آگئے۔بیٹا اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولا۔
ممااب کیسی ہیں آپ؟
ٹھیک ہوں۔تم جاؤ کھانا کھاؤ۔
دونوں بچوں نے ضد کی کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔رحمان نے ان کے ہاتھ پکڑے اور انہیں کمرے سے باہر یہ کہتے ہوئے لے گیا۔
مما کو تنگ نہیں کرو۔اُن کی طبیعت کچھ خراب ہے۔
نوکر نے اُس سے بھی کھانے کا پوچھا۔
بھلاکچھ کھانے کو جی چاہ رہا تھا۔اس کے تو آنسو ہی بہنے بند نہیں ہو رہے تھے۔بچوں کو سُلا کر گیارہ بجے کے قریب وہ پھر کمرے میں آیا۔دوبارہ کُرسی پر بیٹھا۔ سگریٹ پھر جلنے اور بُجھنے لگے۔
اس کا جی چاہتا تھا وہ اُسے اپنے بازؤں میں سمیٹے۔اُس سے وجہ پوچھے۔ صورت حال کی اُس پر وضاحت کرے۔اُسے تسلی وتشفی دے پر وہ تو گم سم چپ چاپ بیٹھا اپنا سارا اُبال غالباً سگرٹیوں پر اتار رہا تھا۔
عین اُسی وقت ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔فون سُنتے ہی وہ بہت فکر مند نظر آیا یکدم مخاطب کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”مگر دیکھونا۔بچوں کو لے جانا کس قد مشکل ہوگا؟“
پتہ نہیں اس کے جواب میں کیا کہا گیا تھا۔بہت دیر ریسیور اُس کے کانوں سے لگا رہا۔اس کے چہرے پر تذبذب کی کیفیات نمودار ہوتی رہیں۔آخر میں اُس نے صرف اتنا کہا۔
”ٹھیک ہے میں پہنچ رہا ہوں۔“
پھر وہ اُس کے پاس آیا۔بیڈ پر بیٹھا اور آہستگی سے بولا۔
تم سے تفصیلی باتیں واپسی پر ہوں گی۔طاہرہ کی والدہ کلکتے میں شدید علیل ہیں بچنے کی امید بہت کم ہے۔بچوں کو دیکھنا چاہتی ہیں۔میں نے احتشام کی بیوی سے کہا تھا کہ بچوں کو کہاں گھسیٹتے پھریں گے۔مگر اس کا کہنا ہے کہ امّاں بچوں کیلئے بہت تڑپتی ہیں۔
وہ چلے گئے اور اُسے اذیت ناک تنہائیوں سے کھیلنے کے لئے اکیلا چھوڑ گئے ان تنہائیوں نے اس کے اُلجھے دماغ کو اور بھی اُلجھایا۔گھر بھائیں بھائیں کرتا تھا۔بچوں کے وجود سے جو رونق اور گہما گہمی تھی وہ بھی مفقود ہوگئی۔
وہ صبح کی نکھری ہوئی دھوپ میں ایک ایک کمرے کا چکر کاٹتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
“یہ سب ایک ہیں۔میں ہی ان کے درمیان اجنبی ہوں اور سدا اجنبی رہوں گی۔ان کی خوشیاں اِن کے غم دکھ درد سبھی مشترکہ ہیں۔”
ایک دن وہ نازی اور ثریا کے ہاں گئی۔ڈھاکہ میں وہی دونوں بہنیں اس کی سچی غمگسار تھیں۔لیکن اس بار وہ ان سے بھی کوئی بات نہ کر سکی۔ثریا کے بار بار پوچھنے پر بھی بس ٹال مٹول سے کام لے گئی۔
اس وقت کمرے میں ریڈیوبج رہاتھا۔
نور جہاں غزل سرا تھی۔
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
وہ کُرسی پر بیٹھی جام ہوگئی تھی ہاتھ نیچے جھول رہا تھا۔اور اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اُسے اُوپر کر سکے۔
دونوں نے دوپہر کے کھانے پر روکا۔یہ بھی کہا کہ رات کو فلم دیکھنے چلیں گے۔ پر وہ نہیں رُکی۔
طوفانی فیصلہ جو کر بیٹھی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply