روایت شکنی یا خودکش بمباری(دوسرا ،آخری حصّہ)۔۔ادریس آزاد

خیر تو جب اداکاری کی ایک تعریف ’’تقریباً مطلق‘‘ تعریف کے طور پر تسلیم کرلی جائے گی تو ہم اُس تعریف کی روشنی مین اداکاری کے فن اور اس کی تاریخ کا از سرِ نو جائزہ لیں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے ناٹک کی تاریخ میں اداکاری کے فن کا طرح طرح سے مظاہرہ کیا لیکن وہ ہمیشہ اداکاری کی تعریف کے ایک مخصوص دائرے میں رہا۔ اگر وہ اس دائرے سے نکلا تو وہ کچھ اور کہلایا اداکار نہ کہلایا۔ تب ہم واپس آتے ہیں اور کلاسیکی اور ماڈرن کے فرق کی روشنی میں آخری عہد کی اداکاری پر غور کرتے ہیں،
ہم دیکھتےہیں کہ ادکاری ’’پوسٹ ماڈرنزم‘‘ سے پہلے پہلے کے تمام ادوار تک اپنی نئی نئی جہات کا مظاہرہ کرنے کے لیے پرانی نسل کے ساتھ بغاوت تو ضرور کرتی آئی ہے لیکن پوسٹ ماڈرنزم کی تحریک نے جس شئے کو بغاوت کے نام سے بیچا وہ بغاوت کم اور غداری یا اُسی فن کی خودکُشی زیادہ ہے۔ پوسٹ ماڈرن عہد تک ہر کلاسیکی کے مقابلے میں ایک ماڈرن موجود تھا جو کلاسیکی کے اُستوار کیے ہوئے توازن کو قائم رکھتا تھا گویا نئی نسل بھی ایک حد تک روایت کی پاسدار بن کر رہتی ہے تب ہی معاشرہ بچ پاتاہے۔ لیکن پوسٹ ماڈرن نے کہا کہ اس توازن کی ہی سرے سے ضرورت نہیں ہے۔
کلاسیکی کے استوار کیے ہوئے کسی فن کو نئے نئے طریقوں اور ایسے طریقوں سے جو روایت شکن ہوں، بدلنا اور مسلسل بدلتے رہنا مزید اُستواری اور تعمیر ہی کی ایک قسم ہے لیکن اُس تعمیر شدہ اور استوارشدہ کو سرے سے گِرا دینا بالکل اور طرح کی چیز ہے۔ پوسٹ ماڈرن تخلیقات کی مثال خودکش بمباروں جیسی ہے جو خود اپنی جان لے لیتے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن تخلیقات خود اپنے ہی فن کی جان لے لیتی ہیں۔ پوسٹ ماڈرن فنون اپنی ہی جان لے لینے کی حد تک بغاوت کی رسم کا اجرأ چاہتے ہیں۔ ایک ہوتاہے روایت کو توڑنا اور ایک ہوتاہے روایت پر خودکش حملہ کرنا۔ پوسٹ ماڈرنزم نے روایت پر خود کش حملہ کیا ہے۔
اداکاری کی بات ہورہی ہے تو مثال بھی ادکاری کی ہی لیتے ہیں تاکہ بات مزید اچھی طرح سے سمجھ آجائے۔ جن لوگوں نے ’’ایڈم سینڈلر‘‘ یا ’’جِم کیری‘‘ کی فلمیں دیکھ رکھی ہیں اُن کے سامنے پوسٹ ماڈرن اداکاری کی نہایت قیمتی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً جِم کیری کو لیتےہیں۔ اب ذرا غور کیجے گا! کلاسیکی سے ماڈرن کس طرح پیدا ہوتاہے اور ان کے مقابلے میں پوسٹ ماڈرن کس طرح جنم لیتاہے۔
فرض کریں ایک کردار ہے جو شیکسپئر کے دور سے ہی ڈراموں میں بار بار لکھا جارہاہے۔ فرض کریں یہ ایک بادشاہ کا کردار ہے۔ فرض کریں یہ مزاحیہ کردار بھی نہیں ہے اور سنجیدہ کردار ہے۔ تو ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کوئی بھی اداکار کسی بادشاہ کا کردار مجموعی طور پر کس طرح ادا کریگا۔ ہم کسی ایک اداکار کے کردار کو کسی دوسرے سے اچھا، جدید اوربہترین تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دونوں نے بادشاہ کا کردار نہیں کیا۔ چونکہ ہم پہلے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بادشاہ کا کردار کیسے ہوگا؟ چنانچہ یہ کردار اپنی حرکات و سکنات کے اعتبار سے ’’پری ڈِکٹِو‘‘(Predictive) ہوگا اور اس کا یہی پری ڈِکٹِو ہونا ہی ثابت کررہا ہے کہ یہ پوسٹ ماڈرنزم کے دائرے میں نہیں آتا۔ اب یہی کردار آپ جِم کیری کو دے دیں۔ جم کیری کیا کرے گا؟ وہ بادشاہ کا لباس پہن کر کبھی ناک میں اُنگلی مارے گا تو کبھی بار بار زبان باہر نکال کر اپنے وزیروں اور مشیروں کو چِڑانے لگے گا۔ وہ کبھی کسی درباری کی ناک پر اپنی زبان سے چاٹنے لگے گا اور کبھی کسی قیدی کی زنجیر اپنی گردن میں پھنسا بیٹھے گا۔ یاد رہے کہ جِم کیری اُس وقت یہ کردار بطور مزاحیہ کردار کے نہ کررہاہوگا۔ اس کی کتنی ہی سنجیدہ فلموں کو اس بات کے ثبوت کے لیے دیکھا جاسکتاہے۔ خیر! تو ہم کیا کہیں گے؟ ہمیں اُصولاً یہ کہنا چاہیے کہ جِم کیری نے سب کچھ کیا لیکن بادشاہ کا کردار نہیں کیا۔ کیونکہ بادشاہ کا کردار بادشاہ کا کردار ہے۔ ایسا کوئی بادشاہ کبھی نہیں گزرا جیسا جِم کیری نے کرکے دکھایا ۔ لیکن نقاد کیالکھے گا؟ نقاد لکھے گا کہ جِم کیری پوسٹ ماڈرن عہد کا سب سے بڑا ادکار ہے جس نے بغاوت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور روایت کو اُڑا کر رکھ دیا۔ کلیشے کا خاتمہ کردیا اور بالکل ایک نئی طرز کا بادشاہ بن کر دکھایا۔
اب ذرا آپ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ ’’ایڈم سلینڈر‘‘ یا ’’جِم کیری‘‘ کوئی کردار ہی نہیں کررہے۔ وہ صرف خودکش بمبار ہیں۔ جو کلیشے اور روایت پسندی کے خلاف جنگ کا نعرہ مار کر دراصل یہ جنگ ، فن کے انہدام کی صورت میں انجام دینا چاہتے ہیں۔
یہ اتنی لمبی مثال میں نے اداکاری کے فن سے دی۔ ایسی لاکھوں مثال ہر فن سے دی جاسکتی ہیں۔ چونکہ ہمارا واسطہ زیادہ تر لٹریچر کے ساتھ رہتاہے اس لیے ہم لٹریچر سے بھی ایک مثال دیکھ لیتےہیں،
میں کسی اور کے شعر کا کباڑا کرنے کی ہمّت نہیں رکھتا۔ اس لیے میں اس مثال میں اپنے ہی شعر کے ساتھ خود کش کارروائی کرکے یہ دکھانا چاہونگا کہ ماڈرن اور پوسٹ ماڈرن کا فرق کیا ہے۔
فرض کریں کہ میرا ایک شعر ہے اور وہ کلاسیکی روایت میں ہے،
مری سُونی پڑی تھی دِل کی بستی
کہ دریا تھا مگر سُوکھا ہوا تھا
اب فرض کریں میں اسے ماڈرن روایت میں دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے،
مری سُونی پڑی تھی دِل کی بستی
کہ کوئی ہاکڑہ سُوکھا ہوا تھا
یاد رہے کہ ہاکڑہ ایک دریا کا نام ہے جو ’’سرائیکی تھر‘‘ میں واقع ہے۔ یہ ایک سُوکھاہوا دریا ہے۔ ریت کی بناوٹ سے دریا کا نقشہ کہیں کہیں واضح ہوتاہے اور ایک دو جگہ ایسے بُرج بنے ہوئے ہیں جیسے دریاؤں کے پُلوں پر محصول چونگی کے لیے بنے ہوتے ہیں۔
خیر! تو میں نے اپنے تئیں ماڈرن روایت قائم کی۔ یعنی کلاسیکی روایت جو پہلے سے اُستوار تھی اور خوب اُستوار تھی، اسے کماحقہُ داد دیتے ہوئے بغاوت کی اور دریا کی بجائے صرف ’’ہاکٹرہ‘‘ کا لفظ لگایا۔ اب ہم ایک پوسٹ ماڈرن شعر کہتے ہیں،
مرا سُوجا ہوا تھا چہرۂ دِل
کہ دریا پیڑ بن کر دوڑتاتھا
اول تو پوسٹ ماڈرن شاعری بحر اور زمین کی ہی اجازت نہ دے گی۔ یہ بھی کلیشے ہے۔ بہرحال پہلے مصرع میں دل کا چہرہ سُوجا ہوا ہے اور دوسرے مصرعے میں دریا ا ور پیڑ کے تصور ات کو توڑ کر نئے تصورات قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ دریا زمین پر بہتاہے اور پیڑ آسمان کی طرف اُٹھتاہے۔ لیکن یہ چونکہ روایت ہے اور روایت شکنی کرنا بھی مقصود ہے اور پوسٹ ماڈرن بھی رہنا ہے تو ایک ہی حل ہے کہ ہم تصورات کو ہی تباہ کردیں۔
نوم چومسکی کے ’’جنریٹوزم‘‘ نے اسی قباحت کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم تصورات کو تباہ کرنے کی بجائے اُن کی نئی تشکیل کرسکتے ہیں۔ شاعرانہ زبان میں کہا جائے تو دریا کو پیڑ کی طرح سے آسمان کی طرف اُٹھتاہوا دیکھنا ایک نئی امیجری کہلائے گی لیکن کیا دریا کا تصور تباہ نہیں ہوجائے گا؟ لیکن نوم چومسکی کہے گا کہ اس تصور کی نئی تشکیل کی جاسکتی تھی۔ ایسی کہ جس میں یکسانیت کا نظم ، تخلیقیت، انسلاک، تکرار اور قابلیت جیسے عناصر ضرور پائے جاتے ہوں۔کچھ اس طرح کہ،
مرا سُوکھا ہوا تھا چہرۂ دِل
کہ دریا خشک پتہ بن گیا تھا
یہ کوئی اچھی مثالیں نہیں ہیں۔ یہ بری مثالیں ہیں۔ کیونکہ میں خود گھڑ رہاہوں۔ یقیناً پڑھنے والے اس سے اچھی مثالیں خود سے بنا کر دیکھیں گے۔ جہاں تک پوسٹ ماڈرنزم کے یہ طعنے ہیں کہ فلاں خیال، یا فلاں شئے یا فلاں لفظ ’’کلیشے‘‘ ہے اور اس لیے بُرا ہے تو یہ بات تقریباً بجا ہے۔ شمع اور پروانے کے روایتی استعمال کو جب تک نہ توڑا جائے گا یہ کلیشے ہی رہیگا۔ شمع کی جگہ بلب لانے سے کلیشے ختم نہ ہوگا۔ شمع ہی کو کچھ ایسے رنگ میں بیان کرنا ہوگا کہ کلیشے ٹوٹ جائے۔ کلیشے توڑنا ہی تو وہی بغاوت ہے جس کا میں مسلسل اِس مضمون میں ذکر کررہاہوں کہ نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان ایک نتازعہ سا رہتاہے اور نئی نسل ہمیشہ تھوڑی سی باغی ہوتی ہے اور یہ بغاوت ایک خاص تناسب اور توازن سے رہے تو معاشرہ قائم رہتاہے۔ اس تناسب اور توازن کی ذمہ داری ہمیشہ معاشرے میں موجود بااثر افراد پر عائد ہوتی ہے اور چونکہ گزشتہ صدی میں پوسٹ ماڈرنزم نے اپنا عروج دیکھا ہے سو یہی وہ صدی ہے جس میں بغاوت کی بجائے خودکشی کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس دور کی نئی نسل خود کش نسل تھی۔ البتہ’’ پوسٹ پوسٹ ماڈرن‘‘ فکر نے اس تباہی کا کسی حدتک راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply