جادوئی ہنڈیا۔۔ربیعہ سلیم مرزا

بہت سارے دن بیت جاتے ہیں ۔کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، میرے ساتھ ساتھ سارے گھر پہ اداسی چھائی ہے۔
لے دے کے کتابیں ہیں، جن میں خود کو چھپایا
جاسکتا ہے کہ کوئی الم ڈھونڈھ نہ سکے۔کتابیں اچھی سہیلیاں ہیں جو غم بانٹ لیتی ہیں ۔انہیں دیکھ کر پھر سے جی چاہا کہ کچھ لکھوں۔۔۔

کوزہ فسوں !

ثمینہ مشتاق کی بھیجی ہوئی دو کتابوں میں سے ایک ہے ۔اسے پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ کہانیوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے ۔وہ بادلوں کی طرح آتی ہیں اور دل پہ برس جاتی ہیں ۔میں نے الف لیلہ نہیں پڑھی اور نہ ہی طلسم ہوشربا کی جادوگری کو محسوس کیا ۔
مگر کوزہ فسوں کو پڑھ کر لگا کہ لفظوں سے مسموم کرنے کا ہنر ابھی باقی ہے ۔
سیدہ آیت گیلانی اور سید تحسین گیلانی کا یہ کمال ہے کہ اردو ادب کی بہت سی ساحراؤں کے افسانوں کو ایک ہی جگہ ایک ہی لڑی میں پرو دیا ۔۔۔
پڑھتے ہوئے ایسا لگا کہ ،۔۔۔کہانیاں باری باری کسی دلکش اور سبک حرام محبوبہ کی طرح سامنے آتی ہیں اور کوزہ فسوں کا فسوں دور دور تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔۔۔
بہت مشکل ہوتا ہے ان شخصیات کے بارے میں بات کرنا جن سے آپ متاثر بھی ہوں اور ان سے سیکھ بھی رہے ہوں ۔۔۔ کوزہ فسوں کتاب میرے ہاتھ میں ہے اس میں آٹھ مصنفات کے اٹھتیس افسانے ہیں۔۔۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ان میں سب سے اچھا کون لکھتا ہے  میں کہوں گی وہ جس نے اس کتاب کو مرتب کیا ہے ۔فیصلہ کرنا کتنا مشکل ہوجاتا  ہے جب فرحین چوھدری کا افسانہ “لڑم “پڑھیں تو لگے جیسے فطرت سے کشید کیا ہو اور احساسات کی سرگوشیوں سے بیاں ہوا ہو ۔۔
“جمعرات کی چادر” شہزادیوں کے پچھلے پہر کے خواب کی ڈراؤنی تعبیر لگتا ہے ۔
“گمنام لفافہ” عام انسانوں کو سمجھاتا ہے کہ ان کا ہونا معجزہ ہے ۔پر اب معجزے نہیں ہوتے ۔خوشیاں کبھی غلط پتے پہ نہیں آتیں ۔

نورالعین ساحرہ بھی اس جادونگری میں ہیں ان کا افسانہ ایک” گاؤں کی کہانی ” ایک گاؤں کی کہانی نہیں، مذہب کے نام پہ پلنے والی وحشت کا نوحہ ہے ، اس ایک افسانے میں نفرت کے ساتوں رنگ محبت کی قوس کے تمنائی ہیں ۔
“ہولی گھوسٹ “بتاتی ھے کہ ملکہ سلطنت کی ہو یا تصوف کی آسانی سے نہیں بنتی
کچھ راز بس خواص کو ودیعت ہوتے ہیں ۔
طاہرہ مسعود کا پردیس سے بھیجا ہوا” ہجرت کا داغ” ہو یا “دہشت گردی سے جلتا ہوا “خواب” ان کے سارے افسانے وطن کی مٹی سے رچے ہوئے ہیں ۔
کائنات بشیر کی “مایا “جھنگ روڈ کی دنیا یا نواب آف بہالپور کے محل کی قبرستان جیسی روداد۔تاریخ اور محبت کی شاندار ترکیب ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوشی قیصر کے چار افسانے ہیں چاروں جاں میں اتر جاتے ہیں ۔۔۔”بند دروازے” کے پیچھے بجتی” بیڑیاں” آج بھی یہ احساس دلاتی ہیں کہ ہر فیصلے میں فریقین کی خوشی مقدم ہونی چاہئیے دیر ہو جانے پہ احساس زیاں جینے نہیں دیتا۔۔۔
ثمینہ مشتاق بھی جانی مانی ہیں ۔کیا طرح دار لکھتی ہیں “چار کے بدلے چار افسانے لے کر اس سوئمبر میں اتری ہیں ۔”ان کا افسانہ “پیپ” اپنے نام کی طرح رشتوں اور احساسات کی بدبو سمیٹے ہوئے ہے ۔۔
اس کیٹ واک میں مونا شہزاد کے پانچ اور سیدہ آئت گیلانی کے چار افسانے بھی شامل کرلیں تو خطے کا ادبی مقابلہ حسن مکمل ہوتا ھے ۔
مونا شہزاد کی” ڈگڈگی اور لاڈلا ” ممتا کے دلار سے بھری ہے ۔۔”جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے”۔۔۔ایک دیوانی کی دیوانگی کی داستان ہے۔۔۔
سیدہ آئیت گیلانی کا “برف زادہ “ایسا درد ہے جو روح کی گلیوں میں بے لگام بہتا ہے۔۔۔۔
افسانہ “سائیاں ” مٹی کو مٹی کی حقیقت سمجھاتا ہے ۔۔اس افسانے میں بہت سی ایسی ان کہی ہے جو سب کچھ کہے جاتی ہے ۔۔۔اور یہی اس کتاب کا حاصل ہے ۔۔۔
سچ کہوں تو موازنہ میرے بس کی بات بھی نہیں ۔بس اتنا کہ میرے ہاتھ میں احساسات اور جذبات کی ایک کتاب ھے جو ہمیشہ رہ جانے والی کتابوں میں شمار ہوگی
سید تحسین گیلانی اور سیدہ آیت گیلانی کا کی یہ مشترکہ کوشش باعث تحسین ہے ۔
ان دونوں کے لیے نیک خواہشات اللہ انہیں کامیاب کرے۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply