بنارسی ٹھگ۔۔سید واثق گردیزی

ہندوستان کے شہر بنارس کی شہرت کئی وجوہات کی بنا پر ہے۔ مثلاً بنارسی پان، بنارسی بابو، بنارسی سوٹ، بنارسی ساڑھی اور سب سے بڑھ کر بنارسی ٹھگ۔ پرانے قصوں کہانیوں میں بنارسی ٹھگوں کی کارستانیوں کا ذکر ملتا ہے۔ بنارسی ٹھگوں پہ ہندوستان اور پاکستان میں بہت سی فلمیں بھی بنیں۔ اور ڈراموں میں بھی ان پہ طبع آزمائی کی گئی۔ ٹھگ بیک وقت مکاری، عیاری، چلاکی ہوشیاری اور کمینگی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ٹھگ اتنے سکون و اطمینان سے کام کرتا ہے کے کوئی گنجائش کم ہی چھوڑتا ہے۔

ٹھگ کی مکاری عیاری ایسی ہوتی ہے کہ سراغ نہ ملے۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔ کسی کے چہرے مہرے سے پتہ نہیں چلتا کون سادھو سنت فقیر ہے اور کون ٹھگ ہے۔ ٹھگوں کی چالیں، مکاریاں اور بھیس بدل بدل کر لوٹنے سے ان کی مہارت اور ان کا ہنر آشکار ہوتا ہے۔ ٹھگ بہت کائیاں اور اپنے وقت سے آگے کی چیز ہوتے ہیں۔ ٹھگ کے ہتھے جو بھی چڑھ جائے وہ اپنا ہنر آزماتے ہیں۔ یہاں شاہ و گدا بندہ و آقا کی تمیز نہیں۔ غریب کی جھونپڑی بھی لٹتی ہے اور بادشاہ کا محل بھی۔ اول اول ٹھگ تو بنارس سے تھے۔ مگر جوں جوں وقت بدلتا گیا ٹھگ بھی پھلتے، پھولتے اور پھیلتے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد کے علاقے ٹھگوں کی آماجگاہ بنے۔ ان علاقوں کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اک قصہ ذہن میں آ گیا۔

برسوں پہلے کا ذکر ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاؤڈ سپیکر نیا نیا ایجاد ہوا تھا۔ شہر میں سپیکر سے کوئی کوئی آشنا نہ  تھا گاؤں کے سادہ لوح عوام اس ایجاد سے کہاں واقف ہوتے۔ رات کا پہر تھا سبھی اپنے شبستانوں میں لمبی تان کے سو رہے تھے۔ گاؤں کے باہر سے آواز آئی بچاؤ، بچاؤ، بچاؤ۔ آواز خاصی دور سے مگر مسلسل آ رہی تھی ساتھ ساتھ آہ و بکا بھی سنائی دے رہی تھی۔ گاؤں کے سارے شیر دل جوان مرد، عورتیں، بوڑھے آواز پہ لپکے۔

ہر کسی کی کوشش تھی جائے وقوعہ پہ پہلے پہنچے۔ تاکہ کل کو سارے گاؤں کو وہ اپنی بہادری، جوانمردی اور دلیری کے قصے سنائے۔ کیسے وہ سب سے پہلے پہنچا کیسے اس نے بچاؤ کی آواز پہ سب سے پہلے لبیک کہا۔ کیسے وہ سوتے ہوئے بھی ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لگتا تھا سارا گاؤں اسی کوشش میں سر پٹ دوڑ رہا تھا۔ آواز کے تعاقب میں بھاگتے بھاگتے ڈھلوان شروع ہوگئی۔ جنہوں نے بچاؤ کے لیے بلایا تھا انہوں نے  بھی پورا بندوبست کیا ہوا تھا کہ کوئی مدد کیے بغیر خالی ہاتھ نہ جائے۔ہر کسی کے پاس اپنی داستان شجاعت ہو۔ کل کو جب بہادری کا ذکر چلے تو ہر کسی کے پاس اپنی اپنی کہانی ہو۔ عشق کی داستان ہے پیارے۔ اپنی اپنی زبان ہے پیارے۔ ڈھلوان پہ تازہ خوشبودار پانی کا بہترین چھڑکاؤ کرکے اس کو پھسلن بنایا ہوا تھا۔ پھسلن بھی ایسی کہ  جو کوئی قدم رنجہ فرمائے وہ شاد باد منزل مراد پہ پہنچ جائے۔ ڈھلوان جہاں ختم ہوتی وہاں کیچڑ سے بھرپور گڑھا تیار تھا۔ گڑھا اتنا لمبا، چوڑا اور گہرا تھا کہ  با آسانی مطلوبہ تعداد سر سے پاؤں تک فیضیاب ہو سکے۔

پھسلن سے اک گرا پھر دوسرا پھر تیسرا کرتے کرتے سبھی مرد و زن گوڈے گوڈے شاد کام ہوگئے۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ گڑھے میں گرنے سے کسی کی ہڈی ٹوٹی کسی کی پسلی۔ کسی کی آنکھ پھوٹی کسی کا جبڑا ٹوٹا۔ کسی کا کندھا اترا کسی کا مہرہ کھسکا۔ قصہ مختصر محتاج و غنی ایک ہوئے۔ کئی گھنٹوں کی محنت مشقت کے بعد گاؤں والے بمشکل روتے، چیختے، چلاتے کراہتے کیچڑ سے لت پت گڑھے سے باہر نکلے۔ باہر نکل کر آپس میں دست و گریبان ہوگئے۔ پہلے تم دوڑے تھے۔ تم نے مجھے آواز دی تم نے مجھے دھکا دیا۔

اک طرف گاؤں کے زور آور کیچڑ میں لت پت تھے۔ دوسری طرف پورا گاؤں بڑی آسانی سے لوٹ لیا گیا۔ لوٹنے والوں کو کوئی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑا روپیہ، پیسہ، زر جواہرات سونا چاندی سمیت ہر وہ چیز لوٹی گئی جو لوٹی جاسکتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

برسوں ہونے کو آئے۔ زمانہ بدل گیا ہر چیز بدل گئی۔ مگر لوٹنے والے نہیں بدلے اور لٹ جانے والوں کو بھی عقل نہیں آئی اور یہ سلسلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply