سپرلی گل کے معاشقے (3)آخری قسط ۔۔ احسان داوڑ

تقریباً سات سال کی عمر میں سپرلی کا یہ دوسرا معاشقہ ایسا تھا کہ پہلے والے سے بھی ریکٹر سکیل پر اس کی شدت دو درجے زیادہ لگتی تھی۔ ہم سب دوستوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز انداز میں دیکھا کہ اب کیا ہوگا بندہ ابھی تو ایک معاشقے کی وجہ سے آئی ڈی پیز ہے اور واپسی سے پہلے ہی اس نے دوسرا بھی شروع کردیا۔ ہم تو منت سماجت کرکےاس کے والد سے اس کی “باعزت” واپسی کی راہ ہموار کرکے آئے تھے لیکن سپرلی نے ہمارے سارے کیے کرائے پر اس وقت پانی پھیر دیا جب انہوں نے اپنے لمبے لمبے ناخنوں سے گھاس کو کترتے  ہوئے  ایک اور بم پھوڑا،
” بابا سے کہو کہ اگر وہ نہیں تو یہ والی سہی ، شادی تو ویسے ہی میں نے کرنی ہے تو ماموں کے گاؤں کی اس گوری کے ساتھ میری شادی کروائے نا”
نوازی نے سپرلی کی پسلیوں میں اپنے دادا کی میراث میں چھوڑی ہوئی نصف صدی کی پُرانی جوتی کی نوک سے ایک ٹھوکر لگائی تو سپرلی کو گویا ہوش آگیا ۔

” خبیث ہم تمھاری واپسی کیلئے  آئے ہیں اور تم نے یہاں بھی عشق لڑانا شروع کردیا ہے ، کیا دنیا میں تمھاری تشریف آوری کا مقصد صرف عشق بازی ہی ہے یا کوئی اور کام بھی کروگے ” نوازی نے اپنے مخصوص انداز میں کچھ گالیوں سمیت تقریر ختم کی ،تو میں نے کہا کہ حضور اگر جانا ہے تو ٹھیک ورنہ ہم آٹھ بندے آج تمھارے ماموں کی مہمان نوازی کیلئے بنفس نفیس حاضر ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ سپرلی نے عشق ناتمام کی تمام منزلیں گویا آن کی آن میں طے کرلیں  اور جانے کیلئے تیار ہوگیا۔

” یار ماموں کے گھر والے میری موجودگی کوافغانستان میں امریکہ کی طرح سمجھتے ہیں اور اوپر سے تم لوگ بھی نا۔۔” اور پھر منہ  ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ  آٹھ بندے اور وہ بھی ایسے کہ ایک بندہ اکیلے آٹھ بندوں کا کھانا کھاتا ہو ۔ ہونہہ ، مہمان نوازی ۔۔
اور پھر سپرلی نے گویا اعلان کرتے ہوئے اٹھ گیا اور کہا کہ چلو اپنے گاؤں چلتے ہیں ۔ پاس ہی اس کا ماموں زاد کھڑا تھا جس سے نوازی نے اشاروں کنایوں میں چائے کی درخواست کی جس کو انہوں نے یوں رد کردیا جیسے کہ ہم چائے نہیں بلکہ کسی پولیٹیکل ایجنٹ سے لڑکیوں کے سکول کی منظوری چاہتے ہیں ۔

راستے میں ہم نے سپرلی سے اس کے معاشقے نمبر دو کے بارے میں تفصیل جاننی چاہی تو سپرلی نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہ  ہاپنتے کانپتے   ماموں کے گھر پہنچے ، جہاں صحن میں پہلے سے ہی وہی حسینہ عالم تشریف فرما تھیں اور جیسے ہی ہماری نظریں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائیں تو محبت کا 440 واٹ کا ایک زوردار جھٹکا  آنکھوں کے راستے دل میں اُتر گیا اور تب سے ہی گاؤں کی حسینہ پس منظر میں چلی گئی اور اس کی جگہ اس نئی حسینہ نے لے لی ہے ۔

” کیا اس کی طرف سے بھی کوئی اشارہ ملا ہے ” نوازی نے حسب دستور پوچھا تو سپرلی نے کہا کہ وہی تو ہے جس نے میرے سر میں تیل لگایا اور پیار کیا ۔

یہ تو ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بیچاری تو تین بچوں کی ماں ہے جس کا خاوند دو سال پہلے کسی ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تھے اور اب اپنے میکے میں رہ رہی ہے ۔ سپرلی کے ماموں زاد کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ سپرلی کے سر میں تیل مالش اس کی بیچارگی پر ترس کھا کر کی گئی تھی اور یہ کہ موصوفہ کی بڑی بیٹی سپرلی سے عمر میں تین سال بڑی ہے ۔

یہ سننا تھا کہ نوازی نے اس کے ماموں زاد کو ایک طرف لیجا کر کچھ کہا، جس کے بارے میں بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ نوازی نے اس کے ماموں زاد کو سنگین قسم کی وارننگ دی تھی کہ سپرلی سے اس کی  معشوقہ نمبر 2 کی بیٹی کو بچا کے رکھنا ،ورنہ اگر اس نے دیکھ لیا تو یہ ایک نیا تہلکہ خیز معاشقہ ہوگا جس میں عمروں کا فرق بھی کافی حد تک کم ہے اور اس کو سنبھالنے کیلئے سپرلی کے والد کو ایک عدد نیا ڈنڈا ڈھونڈنا پڑے گا۔

خدا خدا کرکے ہم نے کلاس 9 میں داخلہ لیا تو سپرلی کو بھی ہمارے ساتھ سائنس کی  کلاسز میں داخل ہونا پڑا، کیونکہ آرٹس گروپ میں ان کا کوئی دوست نہیں تھا ۔ لیکن پھر ایک دن یوں ہوا کہ سکول سے سیدھا وہ میرعلی بازار پہنچا جہاں سے ایک عدد جائے نماز کی سائز کا ڈرائینگ بُک لے کر آیا،ہم نے استفسار کیا جس پر موصوف نے  آرٹس کے حق میں ایک جوشیلی تقریر کی اور اعلان کیا کہ کل سے وہ  آرٹس کی  کلاس میں تشریف فرما ہونگے ۔

ہم نے کل تھوڑی بہت تفتیش کی بلکہ تفتیش ہم نے نہیں نوازی نے کی تو معلوم ہوا کہ آرٹس سیکشن میں سپرلی کو ایک کلاس فیلو پسند  آئی  ہے جس کیلئے وہ سائنس کو قربان کر رہا ہے ۔ اگلے دن اس کے بڑے بھائی کو نوازی کی زبانی ساری حقیقت معلوم ہوئی تو دس منٹ کے بعد سپرلی کی  ڈرائنگ بُک مرحومہ کے ٹکڑے اس کے گھر کے سامنے سامان عبرت بنے ہوئے ہوا کے دوش پر ادھر اُدھر بکھر رہے تھے ۔ نوازی   مجھے ہا تھ سے پکڑ کراس طرف لے گیا اور پوچھا کہ دیکھتے ہو یہ کس چیز کے ٹکڑے ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ تو کسی ڈرائنگ بُک کے ٹکڑے ہیں ۔ نوازی نے بتایا کہ یہ ڈرائینگ بُک کے نہیں بلکہ میاں مجنوں کے معاشقہ نمبر 17 کی  باقیات ہیں جس کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی ہے ، محبت کا دشمن ۔۔ اور پھر سپرلی کی طرف دیکھا جس کی  آنکھوں میں  بیک وقت غصہ اور  آنسو ایک ساتھ دکھائی دے رہے تھے ۔

خیر میٹرک کے بعد سپرلی نے ایف ایس سی میں اچھے مارکس لئے اور خیر سے ڈاکٹر بن کر ایک عدد شادی کی لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ اس کی شادی اس کی فطرت کے بر عکس لومیرج نہیں بلکہ ارینج میرج تھی اور  آجکل وہ خود پانچ بچوں کے والد ہیں تاہم بھابھی کو اس کے معاشقوں کے بارے میں ہم نے صرف 30 فیصد ہی بتایا ہے جس کے بعد سپرلی کی حرکات و سکنات پر مکمل کنٹرول ہے البتہ کبھی کبھار اس کو بلیک میل کرنے کی خاطر ہم بقیہ ستر فیصد کا پول کھولنے کی دھمکی دیتے ہیں توسابق مجنوں اور موجودہ ڈاکٹر صاحب بہت عاجزی کے ساتھ التجائیہ انداز میں ہمیں ٹریٹ کا وعدہ کرکے ماضی کو دفنانے کی درخواست کرتے ہیں اور نوازی اب بھی اپنے حرامی پن سے باز نہیں  آتا اور ہر ماہ سابق میاں مجنوں کواسی انداز میں بلیک میل کرتے رہتے ہیں ۔

ایک دن سپرلی نے مجھے بتایا کہ نوازی اور  آپ سب لوگوں کا  طریقہ واردات کا مجھے بخوبی علم ہے لیکن دوستوں کے ساتھ کبھی کبھار بیوقوف بننے کا مزہ ہی کچھ اور ہے اس لئے کہ  آپ کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کے علاوہ تو ہماری زندگی میں کچھ ہے نہیں کیونکہ اب تو ہم وہ سابقہ والے تو نہیں ٹھہرے بلکہ ایک قسم کے مزدور ہیں جو پیسے کماکر بیوی بچوں کے ہاتھ پہ رکھ دیتے ہیں اس لئے خود کو بیوقوف بنا کر بھی میں اپ کے ساتھ انجوائے کرتا ہوں ۔ اور میں ہکا بکا اپنے سپرلے گل کو حیرت کے ساتھ دیکھتا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وقت بھی کیسے کیسے انسان کو پڑھاتا رہتا ہے ۔ ( ختم شد)

سپرلی گل کے معاشقے (1)۔۔ احسان داوڑ

Advertisements
julia rana solicitors london

سپرلی گل کے معاشقے (2)۔۔ احسان داوڑ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply